شہر اور گاؤں
شہروں اور دیہاتوں میں کتنا فرق ہے؟آئیے آج میں آپ کو اپنے الفاظ میں بتاتا
ہوں۔
شہرمیں اگر خواتین چار پہیوں والی گاڑی چلاتی ہیں تو دیہات میں چھے پہیوں
والی۔جن میں چار پہیے گوشت کے بنے ہوتے ہیں اور دو پہیے کیمیکل سے،مطلب
گدھا گاڑی۔دیہات میں اگر کوئی بندہ صاحبِ فراش ہو تو وہ گھر پر ہی ختم ہو
جائے گا لیکن شہر میں کوئی بیمار ہو تو وہ ہسپتا ل میں جا کے جان جانِ
آفرین کے حوالے کر دے گا ،تو اس حساب سے دیہات والے ہسپتال کے خرچ سے بچ
جائیں گے۔شہر میں بارش ہو تو لوگ پکی سڑک سے پھسل کر گر جائیں گے جب کہ
دیہات میں کچی سڑک کے اوپر کیچڑ سے پھسل کر کوئی چیز تڑوا بیٹھیں گے
۔اگرشہر میں موٹر گاڑیوں کی بے ہنگم اور سریلی آواز آپ کے کانوں سے ٹکرائے
گی تو دیہات میں آپ یا تو مرغ کی آواز سنیں گے یا گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں
آپ کے کانوں میں رس گھولتی چلی جائے گی۔
شہر میں اکثر وہی لوگ تھری پیس سوٹ پہنتے ہیں جو پڑھے لکھے ہیں۔لیکن دیہات
میں ان پڑھ لوگ بھی تھری پیس سوٹ پہنتے ہیں ۔جی ہاں..!ہو گئے ناں آخر آپ
حیران۔خیر میں آپ کو اس سے زیادہ اور حیران نہیں کرنا چاہتا ۔و ہ اس طرح کہ
میں آپ کو دیہات میں پہنے جانے والا تھری پیس سوٹ کی تعریف بتا نا پسند
کروں گا۔جیسے شہر میں پینٹ، شرٹ اور کوٹ تھری پیس کو وجود بخشتے ہیں بالکل
اسی طرز پر دیہات میں پگڑی ، کرتا اور لنگی مل کر ایک تھری پیس سوٹ بناتے
ہیں۔یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ پگڑی کی جگہ پگڑ بھی استعمال ہو سکتا
ہے۔لیکن یہ وہی لوگ استعمال کرتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی معاشرے میں
ناک اونچی ہے اور پگڑی وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا سر تھوڑا سا بڑا ہو تا ہے یا
گنجا ہوتا ہے ۔
دیہات کی جو فضا ہے وہ بہت صاف اور پر سکون ہوتی ہے۔اور اس صاف فضا کا ایک
فائد ہ یہ ہے کہ ایسے علاقے کی اوزون تہہ صحت مند ہوتی ہے ۔جبکہ شہر میں
دھوئیں کی وجہ سے اوزون لیئر ضعیف و ناتواں ہو جاتی ہے۔
دیہات والوں کے خرچے بھی کم ہوتے ہیں۔کیونکہ یہاں نہ تو کوئی ہسپتال ہوتا
ہے اور نہ کوئی مہنگا پرائیویٹ سکول۔جس کی وجہ سے وہ انتہائی ’’آرام و
سکون‘‘کی زندگی گزارتے ہیں۔وہاں چوی کا بھی کوئی ڈر نہیں ہوتا کیونکہ سامان
ہی اتنا نہیں ہوتا کہ اسے چوری کیا جائے۔اور دوسری وجہ یہ کہ اکثر گھروں
میں ’’بابے‘‘ہوتے ہیں۔جو راتوں کو کھانس کھانس کر گارڈ کا کا م کرتے
ہیں۔شہروں میں چوریاں اس لیے اکثر ہوتی ہیں کہ ایک تو وہاں مال زیادہ ہوتا
ہے اور دوسرا وہاں ’’بابوں ‘‘ کا فقدان ہے؛کم ہی ہوتے ہیں،لیکن جن کے ہوتے
ہیں وہ اولڈ ہومز میں زیادہ بہتر طریقے سے ’’رکھوائے ‘‘جاتے ہیں۔
اگر شہر والا دیہات میں چلا جائے تواس کا جو بھی نام ہو سب اسے ’’بابو‘‘ہی
کہیں گے ۔اور اسے یوں گھور گھور کے دیکھیں گے جیسے یہ مریخ کی مخلوق کا ایک
نمونہ ہمیں دیکھانے کے لیے کسی نے بھیجا ہے۔اور اگر دیہاتی شہر میں چلا
جائے تو اس کا نام جو بھی ہو اسے ’’پینڈو ‘‘کہیں گے ۔اور اسے شہر والے یوں
حیران اور منہ کھولے دیکھیں گے گویا یہ پچھلی صدی کا خانہ بدوش ہو۔سچ ہی
کہتے ہیں کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔
شہر میں آنکھیں اکثر دھوکہ کھا جاتی ہیں کہ کون مرد ہے اور کون عورت؟کیونکہ
مرد کا چہرہ بالکل خربوزے کی مانند ان کی گردن پر سجا ہوتا ہے۔صرف بھنوئیں
نظرآرہی ہوتی ہیں۔اگر کوئی خواتین آرہی ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا
ہے کہ جو پہلے تھا وہ’’ دیکھا تھا‘‘یا ’’دیکھی تھی‘‘۔اب مجھ جیسا بندہ شش و
پنج میں کہ اب میں اسے’’نی ‘‘کہہ کر پکاروں یا ’’اوئے ’’کہہ کر۔ خیر اس لیے
میں نے وہاں کے لوگوں کو پکارنے کے لیے یہ لفظ سنا ہے ’’ایسکیوز می‘‘اس کے
بعد اس کے حلق سے آواز بر آمد ہوتی ہے جس سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ’’ نی‘‘
ہے یا ’’اوئے‘‘۔ |