ایک ہی راستہ

(آؤ پیار کے دپ جلایں سے پھر سے انتخاب)

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے! زندگی کے اس کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے بعض اوقات انسان پر ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب کوئی انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب اس کے پاس کچھ نہیں رہا اور اس کے آگے پیچھے سب دروازے بند ہوگئے۔ وہ انسان پھر اس زندگی میں مایوسی کے سب سے بڑے گڑھے میں جا گرتا ہے اور حقیقت میں دراصل خود اپنے اوپر ترقی کے رستے مسدود کرلیتا ہے۔ آج کے دور میں خاص کر پاکستان میں لوگوں کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ہے دہشت گردی۔ ہم میں اکثر لوگ جونہی کسی جگہ دھماکہ ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہوتا ہے انجام مارنے والا بھی مسلمان اور مرنے والے بھی مسلمان کون جنتی اور کون جھنمی۔ لیکن ہم لوگ اس کے پیچھے یہ نہیں دیکھتے کہ اس انسان کو یہ نوبت کیوں آئی کہ وہ ان بے گناہ انسانوں کا خون کرے۔ اب جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو اچانک ہمارے سامنے ایک منظر چلنا شروع ہو تا ہے ایک ایسے گھر کا کہ جس میں چھوٹے چھوٹے کئی کمزور سے بچے رو رہے ہیں کئی آپس میں رو رہے ہیں اچانک ایک آدمی لکڑی کا دروازہ کھول کر اندر آتا ہے تو آگے سے وہ بچے بھاگ اس کے پاس جاتے ہیں اب ان کے چہر ے پر ایک خوشی ایک امید نظر آرہی ہوتی ہے اور وہ اس شخص کے کپڑے کو پکڑ کر کہتے ہیں ابو کھانے کے لیے کچھ لائے ہو تو وہ جھڑ ک کر ان سے بھاگ کر باہر نکل جاتا ہے پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ میری یہ زندگی کس کام کی کہ جب ان بچوں کے لیے کچھ نہ کرسکوں تو وہ پھر اس کا علاج سوچنے لگتا ہے اچانک جب اس کی نظر اپنے قریب ہنستے کھیلتے ایک بچے پر پڑتی ہے جو اپنے باپ کے ساتھ کھانے کی کئی چیزوں کے ساتھ جا رہا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوچ آتی ہے کہ اگر اس کے بچے بھوکے مر سکتے ہیں تو دوسروں کے بچے کیوں خوشیاں منائیں اور پھر وہ اپنی زندگی کے سارے دروازے بند کر کے اسی کام کے لیے اپنی زندگی کو قربان کر دیتا ہے کہ اگر میں زندہ ہوں تو میرے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور اگر میں کسی دوسرے کو مار کر خود مر جاؤں تو میرے بچے بھی ہنستے اور خوشیاں مناتے رہیں گے اور پھر آخر کار وہ اپنی جان کو اسی کام پر قربان کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف کئی بچوں کو یتیم کر رہا ہوتا ہے تو اگر وہ شخص اپنے راستے خود مسدود نہ کرتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ محنت سے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتا۔

اسی طرح آج کے دور میں ہمارے اکثر علماء سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اللہ کو خوش کرنے یا پانے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے تو ہمیں یہی جواب دیا جاتا ہے کہ تم نمازیں پڑھو روزے رکھو وغیرہ وغیرہ تو اللہ تم سے خوش ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ حج کر کے آتے ہی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کو تو سب کچھ مل گیا تو میں اکثر یہ سوچتا کہ کیا واقعی صرف یہی طریقے ہیں اللہ کو خوش کرنے کے یا اللہ کو پانے کے۔ ایک دن میں کالج جاتے ہوئے جونہی کالج گیٹ کے پاس پہنچا تو میری نظر ایک ساٹھ ستر سالہ بابے پر پڑی جو ایک لکڑی پر چند غبارے اور چند اور اسی طرح کی چیزیں لٹکا کر کھڑا تھا ساتھ میں اس کے پاس ایک چھرے والی بندوق تھی تو کچھ لڑکے اس بابے کا مذاق اڑا رہے تھے تو میر ے کانوں میں بابے کے کچھ الفاظ پڑے تو میں بہت متاثر ہوا اور وہاں پہنچا تو وہ بابا جی لڑکوں کو سمجھا رہے تھے اب بات نہ جانے کیا تھی لیکن جب میں پہنچا تو کہنے لگے اگر کسی نے کسی بندے کو ملنے جانا ہو اور اس کو گھر کا پتہ نہ ہو تو وہ جاتے ہوئے کبھی کسی بندے سے پوچھے گا کبھی کسی بندے سے تو اب ہر بندہ اس کو الگ الگ رستہ بتا ئے گا کہ بھائی یہاں سے جاؤ گے تو جلدی جاؤ گے تو وہ بابا کہنے لگا کہ اگر ایک بندے کو ڈھونڈھنے کے لیے کئی راستے بن سکتے ہیں تو کیا اللہ کو پانے کے لیے صرف نماز روزے رہ جاتے ہیں۔ اب مجھے اس سوال کا جواب ایک ایسے بندے سے ملا جو بالکل ان پڑھ تھا اس نے کوئی اسلامی کتب نہیں پڑھی تھی وہ کوئی عالم نہیں تھا لیکن اس نے بات بہت اعلی ٰ کی۔ تو میں بہت متاثر ہوا تب مجھے پتہ چلا کہ ہم خود اپنے راستے مسدود کرلیتے ہیں چاہے وہ ہماری زندگی کے کسی حصے سے تعلق رکھتی ہو یا ہمارے مذہب سے۔

اللہ کو پانے کا بھی کوئی ایک راستہ نہیں جیسا کہ میں پہلے آپ کو ایک ڈاکٹر صاحب کا بتا چکا ہوں کہ جن کے بارے میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ وہ نماز روزے وغیر ہ نہیں رکھتے لیکن ان کے اندر ایک ایسا جذبہ تھا کہ وہ اپنے وجود سے نہ جانے کتنے وجود پال رہے تھے جو ایک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا رہے تھے تو بالکل اسی طرح بعض اوقات انسان ایسے ہی کام کر کے اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ درجات پر لے آتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں اپنے حقوق تو معاف کر دوں گا لیکن حقوق العباد نہیں۔ ہم جب بچپن میں مکتب میں پڑھا کرتے تھے تو ہمارے ایک استاد صاحب ہمیں ایک جملہ بار بار پڑھاتے تھے کہ تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ تو ہمیں یہ نہیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ یہ الفاظ ہم سے بار بار کیوں Repeat کرواتے تھے تو آج میں اکثر ان کے اس عظیم کارنامے کو داد دیتا ہوں کہ ان کی کیا سوچ تھی۔ تو جب کوئی اللہ کے بندوں کو خوش کرتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ حج وغیرہ بھی پیچھے رہ جاتے ہیں کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بندے نے خواب دیکھا کہ دو فرشتے آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ اس سال اتنے بندے حج پہ آئے اور کسی بندے کا حج قبول نہیں ہوا پھر ایک بندے کی وجہ سے سب کا قبول کرلیا گیا تو دوسرے نے اس بندے کا پوچھا تو اس نے اس کا نام بتایا اب اس بندے کو جاگ آگئی اور وہ اٹھا اور اس بندے کی تلاش کی تو اسے پتہ چلا کہ وہ کوئی بزرگ بندے ہیں میاں بیوی ہیں تو وہ ان کے پاس گیا اور ان کے آگے ساری بات عرض کی تو وہ بزرگ کہنے لگے کہ ہم دونوں میاں بیوی کی بڑی خواہش تھی کہ ہم اللہ کے گھر کا حج کریں تو ہم نے سوچا کہ ہم دو بندے ہیں روکھا سوکھا گزارا کرلیں گے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور حج کو جاتے ہیں غرض ہم نے پیسے اکٹھے کرنا شروع کردئیے اور ایک دن وہ آیا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے اکٹھے ہو گئے کہ حج کو جاسکیں تو ہم بہت خوش ہوئے تو ہم خوشی میں وہ سرشار تھے کہ ہمارے پڑوس کے گھر سے گوشت کی خوشبو آئی تو میری بیوی کہنے لگی کہ ہم نے اتنے عرصے سے گوشت نہیں کھایا کیوں نہ آج اپنے پڑوسیوں سے کچھ گوشت کا سالن مانگ لیں تو میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں تو میں گیا اور دروازے پہ ستک دی تو وہ پڑوسی باہر آیا تو میں اس سے گزارش کی کہ آج آپ کے گھر سے گوشت کی خوشبو آ رہی ہے کیا آپ آج ہم کچھ سالن دے سکتے ہیں تو وہ کہنے لگا میری جانب سے کوئی انکار نہیں لیکن یہ گوشت ہم پر تو حلال ہے لیکن آپ پر نہیں تو میں نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے کہا آج ایک ہفتے سے میرے گھر میں کچھ نہیں تھا میرے بچے بھوک سے مرنے والے تھے اور اس حالت میں تو مردار بھی حلال ہو جاتا ہے تو میں مردار گوشت لے آیا کہ شاید میرے بچے کچھ تو بہل جائیں تو وہ بزرگ کہنے لگے کہ مجھے بڑی شرم آئی کہ ہم اتنے عرصے سے ان کے پڑوس میں رہ رہے ہیں اور اتنا بھی نہ پتہ چلا سکے تو میں واپس آیا اور بیوی سے کہا کہ حج پہ جانے کے لیے جو پیسے اکٹھے کیے تھے جلدی لاؤ وہ لائی تو میں نے سارے پیسے اس پڑوسی کے ہاتھ پر جا کے رکھ دئیے کہ خدارا اپنے بچوں کو مردار نہ کھلاؤ تو وہ بہت خوش ہوا اور بہت سی دعائیں دی مجھے نہیں پتہ کہ اللہ کو میرا یہ عمل کتنا پسند آیا۔

تو دیکھئے کہ اللہ نے ایک ایسے شخص کے بدلے سب کا حج قبول کرلیا جو حج پہ بھی نہ گیا تو اب اگر یہ کہہ دینا کہ صرف نماز اور حج وغیرہ سے اللہ خوش ہوتا ہے تو بالکل غلط ہے اصل میں ہم خود اپنے ہاتھوں سے اللہ تک پہنچنے کے راستے مسدود کرلیتے ہیں کہ نماز ہم پڑھ نہیں سکتے حج کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں تو بس اللہ ہم کو ملتا نہیں تو اس اللہ کو پانے کے بھی بہت سے راستے ہوتے ہیں جو ہم خود اپنے ہاتھوں سے بند کر دیتے ہیں۔

اسی طرح ایک شخص اپنی زندگی کے راستوں کو بھی مسدود کردیتا ہے کہ اب اس کی زندگی میں ناکامیاں ہی ناکامیاں ہیں تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ ہوسکتا ہے اس کا کل اس سے بہتر ہو آج اس کے پاس کھانے کو نہیں کل اس وہ حلال کی کمائی سے لوگوں میں بانٹ رہا ہو۔ پھر اس زندگی سے مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرے کی طرف چلو بم دھماکہ کر کے کیا کوئی اس بندے کو گارنٹی دے سکتا ہے کہ تمھارے بعد تمھارے بچے اب خوش ہیں اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تو بات صرف اتنی سی ہے کہ جب بھی زندگی میں ایک راستہ بند ہو ہم دوسرے راستے کو کھولنے کی کوشش کریں ایک در بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کئی دوسرے در کھول دیتا ہے تو اگر ہم زندگی سے مایوس ہو کر اس زندگی سے کنارا کرنے کی کوشش کرنے لگیں تو یہی سوچ لیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کی زندگی میرے لیے بہتر ہو اگر ان مصائب کو صبر سے برداشت کرلیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد زندگی ہماری ہو۔ تو مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آرہا ہے جس سے آپ یقیناً لطف اندوز بھی ہوں گے میں جب مدرسے میں پڑھتا تھا تو ایک دفعہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ہمیں جلوس پر بلایا گیا تو چل چل کے ہماری بہت بری حالت تھی تو جب جلوس کا اختتام ہوا تو سب کو لنگر کے لیے مسجد بلایا گیا ااب ہم سب لوگ بڑا انتظار کر رہے تھے کہ یقیناً چاول وغیرہ آئیں گے کیونکہ آج کل کے دور میں حلوہ وغیرہ کا تو نام سن کر ہی بندے کی بھوک مٹ جاتی ہے تو کچھ لڑکے تقسیم کے لیے کھڑے تھے تو ہم لوگوں کو کہتے کہ صبر کرو صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے تو جب لنگر تقسیم ہو ا تو ہر تھال میں حلوہ تھا توہم سب کا دل بجھ گیا تو وہ کہنے لگے ہم نے کہا تھا نہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے نمکین نہیں تو ہمیں بہت ہنسی آئی۔

یہ بات صبر کے حوالے سے میرے ذہن میں آگئی تو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیشہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑئیے اگر آپ کی زندگی میں ناکامیاں ہی ناکامیاں آ رہی ہیں تو آپ اپنے راستے کو مسدود نہ کریں ہو سکتا ہے کہ اگلا راستہ آپ کی کامیابی کا راستہ ہو۔ تو اللہ سے دعا ہے کہ : اللہ آپ کو دیے سے دیا جلانے کی توفیق دے ﴿آمین﴾
 
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 14649 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More