بہار کا انتخاب مودی کے ناک کا سوال

 اس وقت ریاست بہار کا انتخاب نریندر مودی کے لئے ناک کا سوال بنا ہوا ہے ۔ 2010 ء سے جس طرح بہار کے وزیراعلیٰ نیتیش کما ر نے جس طرح نریندر مودی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، وہ بہرحال مودی جیسی شخصیت کے لئے ناقابل برداشت ہے ، اور وہ کسی قیمت پر بھی نیتیش حکومت کی واپسی نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ جس طرح دن بہ دن مودی کی شہرت اور مقبولیت کا گراف نیچے گر رہا ہے ، اور پارٹی سے باہر جو تنقیدیں ہو رہی ہے ، وہ تو ہو ہی رہی ہیں ، پارٹی کے اندر بھی جس طرح اڈوانی، شتروگھن سنہا، یشونت سنہا ، گووند اچاریہ وغیرہ جیسے مخالفین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ وہ مودی کی تشویش کو بڑھائے ہوئی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تقریباََ طئے ہے کہ مودی اگر بہار میں بھاجپا کی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ، تو بہار کے ساتھ ساتھ بنگال اور اتر پردیش میں بھی بھاجپا کی شکست تقریباََ یقینی ہو جائیگی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مودی اور آرایس ایس کے سارے عزائم پر پانی پھر جائیگا ۔

اس لئے مودی اور آر ایس ایس، جو کہ 2014 ء کے لوک سبھا کا انتخاب فرقہ پرستی کے زہر کو پوری طرح ابھار کر اور حزب مخالف کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے 69 فی صد ووٹوں کے منتشر ہو جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف 31 فی صد ووٹ لا کر مرکز میں بھاجپا کی حکومت سازی میں کامیاب ہو کر ہیرو بن گئے تھے ۔ انھیں اب ریاست بہار میں ان کے حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں مثلاََ لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل ، نیتیش کمار کی پارٹی جنتا دل (یونائٹیڈ) اور سونیا گاندھی کی کا نگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ ملائم یادو کی سماج وادی پارٹی کے علاوہ سابق وزیر آعظم دیوگؤڑا اور شرد پوار کی پارٹی کے آپسی اتحاد سے شدت سے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ بعض سروے نے بھی یہ دکھا کر کہ مودی کے ہوش ارا دئے کہ جنتا پریوار اتحاد کو بہار میں کامیابی ملنے کی زیادہ توقع ہے ۔

اس پورے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے بہار کے اسمبلی انتخاب میں مودی گزشتہ لوک سبھا کے حکمت عملی کو اپنانے کی جگت میں لگ گئے اور ان کی پوری کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح جنتا پریوار اتحاد کے یادؤوں اور مسلمانوں کے ووٹوں کا بکھراؤ ہو جائے ، اگر ایسا ہو جاتا ہے ، تو ان کی کامیابی یقینی ہے ، اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کئے لئے مودی گزشتہ کئی ماہ سے ملائم یادو پر ڈورے ڈال رہے تھے ۔ ملائم یادو کے بھائی کے پوتے کی شادی کے ریسپشن میں نریندر مودی کا شامل ہونا، ابھی پارلیامنٹ کے مون سون اجلاس میں تحویل اراضی ترمیمی بل، اور کرپشن کے سوال پر دو وزرأ اعلیٰ شیو راج چوہان ، اور وسندھرا راجے سندھیا کے ساتھ ساتھ مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کے استعفیٰ کے مطالبہ پر جس طرح حزب اختلاف نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیامنٹ چلنے نہیں دیا اور حکومت کا ناطقہ بند کر دیا ۔ اسی دوران ملائم یادو کا مرکزی حکومت کے تئیں ملائم ہو جانا ، پھر مودی کے ذریعہ ملائم یادو کی تعریف کے پل باندھنا ۔ یہ سب کچھ اس بات کا اشارہ تھا کہ ملائم اور مودی کی قربت جس طرح بڑھ رہی ہے ، وہ کچھ نہ کچھ گل ضرورکھلائے گی ، اور یہی ہوا ، جنتا پریوار کے ذریعہ سماج وادی پارٹی کے لئے بہار اسمبلی کے عام انتخاب میں کم سیٹ کا دیا جانا تو ایک بہانہ بنایا گیا ۔ اگر لالو، نیتیش اور سونیا اتحاد ملائم یادو کے لئے پچاس سیٹین بھی دے دیتے ، تو بھی یہی ہوتا ، جو ہوا۔ یعنی ملائم یادو ہر حال میں مودی سے بہار کا سودا کر ہاتھ ملاتے ۔

ملائم یادو اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بہار میں سماج وادی پارٹی کے لئے کو ئی زمیں نہیں ہے ۔ سنہ 2000 ء کے بہار اسمبلی الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے 122 امیدوار میدان میں اتارے تھے ، جن میں سے118کی ضمانتیں بھی نہیں بچ سکیں تھیں اور کوئی ایک امیدوار بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اسی طرح 2010ء کے بہار انتخاب میں اس پارٹی کے 146 امیدوار کھڑے ہوئے تھے، جن میں سب کے سب کی ضمانتیں ضبط ہو گئی تھیں ۔ اس سے قبل فروری 2005کے بہار ریاستی اسمبلی انتخاب میں 142 سماجوادی پارٹی کے امیدواروں میں بڑی مشکلوں سے سکٹا، پھول پراس، کسبااور ڈمراؤں جیسی چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکے تھے اور اس بار بھی ان کے زیادہ تر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں تھیں ۔ لیکن اکتوبر 2005ء کے بہار کے عام انتخاب میں 158 سماجوادی پارٹی کی بھیڑ میں سے صرف دو سیٹ پھول پراس اور ٹھاکر گنج پر کامیاب ہو پائے ، بقیہ بیشتر امیدوار وں نے اپنی اپنی ضمانتیں بھی کھو دیں ۔ اس طرح ریاست بہار میں حاشیہ پر پڑی سماج وادی پارٹی کو زیادہ سیٹ نہ دے کر جنتا پریوار اپنے ووٹوں کے بکھراؤ کو روکنے کی منشأ تھی ۔ ایسے وقت میں ، جبکہ نیتیش اور لالو کے لئے ایک ایک سیٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، پھر وہ کس طرح صرف ملائم یادو کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سماجوادی پارٹی کو 47 سیٹ دے دیتے ۔ ایسے میں اس پارٹی کے لئے پانچ سیٹیں دیا جانا بالکل حق بجانب تھا ۔ لیکن جیسا کہ میں نے قبل عرض کیا کہ جنتا پریوار سے کم سیٹ کاملنا تو ملائم یادوکا ایک بہانہ ہے ، مقصد تو بہار میں مودی کو جتانا ہے ۔ جس کی کئی وجوہات ہیں ، اول تو بذات خود ملائم یادو اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ بہار میں ان کی پارٹی نے اتنے برسوں میں بھی اپنے لئے کوئی زمین تیار نہیں کی ہے ، اس لئے یہاں کامیابی ملنے کا امکان نہیں ہے ۔ ہاں بہار میں تقریباََ ساٹھ اسمبلی حلقہ ایسا ضرور ہے ، جہاں یادؤوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے ، جہاں سے لالو یادو کی پارٹی کی کامیابی کی توقعات ہیں ۔ ایسے تمام علاقوں میں یادوؤں کے ووٹ کے بکھراؤ کے لئے نریندر مودی نے پہلے جیل سے ابھی حال ہی میں رہا ہوئے پپو یادو اور اس سازش میں کوئی کسر باقی نہ رہے ، اس لئے اب ملائم یادو کو رضا مند کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔

جنتا پریوار اتحاد سے ناطہ توڑنے سے قبل ملائم یادو اپنے بھائی کے ساتھ 27 اگست کو نریندر مودی سے اور اس کے بعد سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو ، بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ سے ملاقات کر جب سب کچھ طئے تمام کر لیا ، اس کے بعد ہی جنتا پریوار اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کیا ۔ اب لاکھ شرد یادو، ملائم یادوسے کمیونلزم کی دہائی دیتے رہیں ، اور لالو یادو اپنی رشتہ داری کا حوالہ دیں۔ ملائم یادوکے فیصلہ بدنے کی امید نہیں ہے ۔ لالو یادو سے رشتہ داری کے سوال پرملائم یادو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ رشتہ داری اپنی جگہ پر اور سیاست اپنی جگہ پر ہے ۔ وزیراعلیٰ بہار نیتیش کمار نے بھی اس سلسلے میں نا امیدی کا اظہارکیا ہے ۔ ویسے بھی ملائم یادو اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت فیصلے بدلنے میں بہت ماہر مانے جاتے ہیں ۔

ملائم یادو کا نریندر مودی سے ہاتھ ملانا ، ان کی بڑی مجبوری بھی ہے ۔ اوّل تو یہ ہے کہ ، مظفر نگر اور آگرہ وغیرہ کے فرقہ وارانہ فسادات کا ابھی تک زخم بھرا نہیں ہے ۔ اتر پردیش میں لگاتارمسلمانوں پر ہونے والے ظالمانہ رویۂ اور مختلف شعبۂ حیات کے لوگوں پر ان کی حکومت کے ذریعہ کئے جانے والے ظلم و تشدّد نے اتر پردیش سے ان کی ہوا اکھاڑ دی ہے ، اس لئے یہاں بھی انھیں جلد ہی ہونے والے عام انتخاب میں کامیابی کی توقع کم ہی ہے ۔ ساتھ ہی ملائم یادو پر، scam UP Foodgrains scam, NRHM کے ساتھ ساتھ نوئیڈا اتھارٹی کے بغیر کسی ڈگری کے چیف انجینئر یادو سنگھ کے کروڑوں روپئے کے گھوٹالوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ، اور سپریم کورٹ سے لے کر سی بی آئی تک کی تلوار ان پر لٹکی ہوئی ہے ۔ ایسے حالات میں ملائم یادو کا نریندر مودی سے ہاتھ ملانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا ۔ اب یہ بات بھی تقریباََ طئے ہے کہ اتر پردیش اسمبلی کا آنے والا انتخاب بھاجپا اور سپا دونوں ساتھ مل کر لڑینگے ، جو کامیابی کا ضامن ہوگا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملائم یادو کو مودی کی اور مودی کو ملائم کی سخت ضرورت تھی ، جو اب پوری ہو گئی ہے ۔ جس سے بہرحال دونوں کا سیاسی فائدہ ہوگا ۔

بھاجپا(نریندر مودی) چونکہ بہار کا موجودہ انتخاب ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے ۔ اس لئے جہاں وہ ایک جانب پیسے پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ دوسری طرف پپو یادو اور ملائم یادو کو لالو یادو کے ووٹ بینک یعنی یادؤوں اور مسلمانوں کے ووٹ کے بکھراؤ کے لئے تیار کر لیا ہے ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو منتشر کرنے کے لئے حکومت بہار کے ایک سابق وزیر جمشید اشرف، جدیو کے سابق ممبر راجیہ سبھا صابر علی ، مدرسہ بورڈ کے سابق چیئر مین مولانا محمد اعجاز احمد وغیرہ جیسے افراد کو بھی متحرک کر دیا گیاہے ۔ نجمہ ہیبت اﷲ ، ظفر سریش ، ایم جے اکبر وغیرہ کو پھر بھی ٹھیک انتخاب کے وقت بہار کے مسلمانوں کا درد بہت زیادہ ستانے لگا ہے ، اس لئے ان لوگوں کا بہار کے دورہ کا دورہ زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ بہار کے مسلمانوں کے ووٹ کے منتشر کرنے کے سلسلے میں مودی کوئی کور کسر نہیں چھوڑنا چاہتے ، اس لئے جیسا کہ لوگوں کا الزام ہے کہ بہار کے سیمانچل علاقہ ، جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے ، وہاں مسلمانوں کے ووٹوں کے بھکراؤ پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہوئے آئی ایم آئی ایم کے قومی صدر اور رکن پارلیامنٹ اسدالدین اویسی کو گزشتہ 16 اگست کوکشن گنج میں بھیج کروہاں کے مسلمانوں کا نبض ٹٹولنے اور زمین ہموار کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ جہاں پہنچ کر انھوں نے اپنی شعلہ بار تقریر سے بلا شبہ ایک سماں باندھ دیاہے ۔ گرچہ کچھ لوگ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ اویسی بھاجپا کے ذریعہ بھیجے گئے تھے۔ لیکن وقت اور حالات کایہ قطئی تقاضہ نہیں ہے کہ ایسے ماحول میں ، جبکہ جنتا پریوار کے اتحاد کا خوشگوار ماحول بن رہا ہے اور نیتیش و لالو نے اپنے سارے اختلافات اور رنجشوں کو بھلا کر فرقہ پرست تنظیم بھاجپا کو روکنے کی ، خواہ اپنے اقتدار اور اپنے سیاسی وجود کو بچانے کے لئے سہی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں اویسی کا بہار جانا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں تھا ۔ خوف اس بات کا ہے کہ کہیں دو چار سیٹ کی لالچ میں یہاں بھی مہاراشٹر جیسی حالت نہ ہو جائے ۔ اس لئے کہ اویسی کی آئی ایم ائی ایم کی تنظیم نے مہاراشٹر کے اورنگ آباد سنٹرل سے شیو سینا کے پردیپ جیسوال کو شکست دے کر سید امتیاز جلیل اور بائکلا سے بی جے پی کے امیدوارمدھو دادا کو ہرا کر ایڈوکیٹ وارث یوسف کامیاب ہوئے ہیں ۔ صرف ان دو سیٹوں کے لئے نقصان کتنا بڑا ہوا، اس کا جائزہ لیا جائے تو بہت سارے حقائق سامنے آئینگے ۔ یہ افواہ بالکل غلط ہے کہ آئی ایم آئی ایم مہاراشٹر اسمبلی کے انتخاب میں ایسی بہت ساری سیٹوں پر بھاجپا کو کامیاب ہونے میں روک پائی ، اور بہت ساری سیٹوں پر آئی ایم آئی ایم دوسرے پائدان پر رہی ۔ حقیقت یہ ہے کہ پربھنی کی سیٹ پر جہاں سے شیو سینا کے ڈاکٹر راہل کامیاب ہوئے تھے ،یہاں پر آئی ایم آئی ایم کے سید خالد دوسرے نمبر پر رہے تھے اور دوسری سیٹ اورنگ آباد ایسٹ کی تھی ، جس پر بھاجپا کے امیدوار اتل موریشور کامیاب ہوئے تھے ، یہاں پر آئی ایم آئی ایم کے امیدوار ڈاکٹر عبدالغفار قادری دوسرے نمبر پرتھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم آئی ایم نے بیشتر جگہوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کرا دی ، جس کے باعث وہاں ہمیشہ تیسرے نمبر پر رہنے والی بھاجپا حکومت بنا نے میں کامیاب ہوئی ۔ان باتوں کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت جس طرح سے سیکولرزم اور کمیونلزم کی لڑائی چھڑی ہوئی ہے اور مرکز سے جس طرح فرقہ واریت کی مسموم ہوا چل رہی ہے ، اور ملک کے جو حالات بن اور بنائے جا رہے ہیں ۔ ایسے نازک وقت میں بہت سوچ سمجھ کر اور اپنے ذاتی مفادات ، ترجیہات اور اختلافات کو بھلا کر عملی ا قدام اٹھانے کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ آج کے کسی ایک لمحاتی اورجزباتی فیصلہ سے، کل ہمیں کف افسوس ملنے پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔ ٭٭٭٭٭٭
Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 122279 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More