ایک اخبار کا تراشہ ٹیڈی کی نظر
سے گزرا جس پر خبر تھی کہ واہ کینٹ کے رہائشی افراد نے 60گدھے ذبح کر کے
لوگوں کو بطور بڑا گوشت کھلا دیے، قصاب یاسر اور رزاق پانچ زندہ گدھوں اور
ایک ذبح شدہ گدھے کے ساتھ پکڑے گئے۔ انھوں نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے
کہ ’’ہم نے کئی دفعہ فوڈ انسپکٹر کوبطور گفٹ گدھے کا گوشت کھلایا‘‘، سب سے
بڑے ہوٹل کو بھی گدھے کا گوشت فراہم کرتے تھے ۔ مذکورہ قصاب نے یہ بھی
بتایا کہ وہ بطور رشوت 200روپے روزانہ فوڈ انسپکٹر کو دیا کرتے تھے،
اعترافی بیان میں مذکورہ قصاب جو کہ حقیقی باپ بیٹا ہیں نے یہ بھی بتایا کہ
وہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کرایسا کر رہے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ کوئی گدھے کا گوشت کھائے یا پھر روزانہ بھتہ کے نام پر
200روپے لے بات ایک ہی ہے، فرق یہ ہے کہ پیسے لینے سے شکم سیر نہیں ہوتا
البتہ کھانے سے شکم کچھ دیر کے لیے ہی سہی بجھ جاتا ہے اور بعد میں خالی
ہونے پر دوبارہ حاجت ہوتی ہے۔ گدھوں کی تجارت کوئی معیوب پیشہ نہیں ہے لیکن
گوشت کھانا اور عمر بھر کھاناٹھیک نہیں یقینا اس سے معدہ پر برے اثرات مرتب
ہونے کا خدشہ بہر حال قائم ہے۔ویسے تو ٹیڈی کی نظر سے ایک اور ریسرچ بھی
گزری جس میں گدھی کے دودھ سے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس سے
صدا جوان رہنے کے نسخے بھی بنائے جا سکتے ہیں لیکن ملک خداداد میں یقینا ان
کاموں کی ممانعت ہے اور اس پر تعزیر پائی جاتی ہے۔
ویسے ٹیڈی کہتا ہے کہ گدھا ایک ایسا جانور ہے جس کو نہ اپنی عزت پیاری ہوتے
ہے اور نہ ہی وہ کسی کی عزت کرتا ہے۔ مذکورہ واقعہ میں بھی گدھے نے ان
قصائیوں کی عزت نہیں رکھی اور گرفتار کروادیا۔ ٹیڈی ایک اور مثال بھی دیتا
ہے جس سے اس محاوراتاًطوطہ چشم جانور کی خو کا پتہ چلتا ہے کہ یہ چاہے
بادشاہ ہو یا گدا گر ہر دو کو دولتی مارتا ہے، موخرالذکر تو چلو پیدا ہی
دولتی کھانے کے لیے ہوا ہے لیکن اوالذکر تو ’’دولت‘‘ والی دو لتی چاہتا ہے
نہ کہ جانور مذکورہ کی۔
چوہدری شجاعت حسین صاحب ویسے تو ہر معاملہ پر مٹی ڈالنے کے قائل ہیں اور
ہمیشہ یہی کہتے سنے گئے کہ مٹی پاؤ تے روٹی کھاؤ لیکن گدھے کے معاملہ میں
ان کی گلو بیانیاں بھی خاص ہیں کہ گھوڑے کے سوداگروں کو وہ گدھوں کے سوداگر
کہہ گئے۔ سینٹ کے الیکشن کے بارے میں چوہدری صاحب کے یہ خیالات سراسر ان کے
ذاتی ہیں جبکہ ٹیڈی ایسا نہیں سمجھتا، وہ اپنے مکتبہ فکر کے بارے میں رائے
قائم کر سکتے ہیں ٹیڈی تو عوام ہے۔ قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ عوام
مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر گدھوں کی خریدوفروخت نہیں کرتے جیسا کہ مذکورہ
واقعہ میں ملزمان کا اعترافی بیان ہے بلکہ اس میں ’’اشرافیہ‘‘ کی شمولیت
بھی پائی گئی کہ اشرافیہ کو نوکری ملے گی تو بات بنے گی اور نوکری بھی سینٹ
کے ممبر کی۔
ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان گدھوں کی آبادی کے لحاظ سے دنیا
میں دوسرا بڑا ملک ہے، یعنی آپ کہ سکتے ہیں کہ دنیا میں دوسرے نمبر پر
پاکستان میں گدھے پائے جاتے ہیں، جبکہ ٹیڈی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا
کا پہلا ملک کون سا ہے جہاں سب سے ذیادہ گدھے پائے جاتے ہیں جہاں شیر گدھوں
کے تابع ہے۔ اور یقینا دنیا میں سب سے ذیادہ گدھے امریکہ میں پائے جاتے ہوں
گے، کیونکہ ابامہ صاحب گدھے کے جھنڈے کے نیچے الیکشن جیتے ہیں۔ اب امریکہ
میں گدھا کھایا جاتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں قیاس کرنا مشکل ہے کیونکہ
ٹیڈی ابھی تک امریکہ نہیں جا سکا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کچھ گدھے
اپنے اوپر لائینز لگا کر خود کو زیبرا تصور کر کے گدھوں سے علاحدہ ہونا
چاہتے ہیں لیکن گدھا سات پردوں میں پہچانا جاتا ہے، کیونکہ سات پردوں میں
گدھا ہمیشہ گدھا ہی رہتا ہے، اسی لیے مذکورہ بالا واقعہ میں گدھے کا گوشت
بھی پکڑا گیا۔ ٹیڈی کا مشورہ ان دو نمبر گدھوں کو ، جوخود کا زیبرا خیال کر
کے علاحدہ ہونا چاہتے ہیں ، مشورہ ہے کہ گدھے ہی رہیں تو بہتر ہے کوے سے
سبق سیکھیں جو ہنس کی چال چلا تھا اور اپنی بھی بھول گیا تھا۔ گدھوں کا
گوشت کھانا ایک طرف تو ویسے ہی کراہت آمیز کام ہے لیکن یہاں تو ایسے واقعات
بھی سننے کو ملے ہیں کہ ملک خداداد میں آدم خوری بھی کی جا رہی ہے۔
بات ہو رہیں تھی گدھا خوری کی تو محکمہ صحت کو اور پارلیمنٹ کو ہر دو
معاملات کی طرف توجہ دینی ضروری ہے ۔ گدھوں کا گوشت کھلانا یا کھانا ہو
سکتا ہے کہ افریقہ کے ملکوں میں جائز اور قانونی طور پر درست ہو لیکن ملک
خداداد ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جہاں پر ان جانوروں کے گوشت بیچنے،
کھلانے ، کھانے اور سپلائی کرنے پر خصوصی تعزیرات کا ہونا ضروری ہے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ عوام کو ایسے کام کرنے پر مجبور واقعتا ان کا پیٹ کرتا ہے،
اگر عوام خوشحال ہو جائیں تو شاید ایسے واقعات نمودار نہ ہوں لیکن اگر عوام
کی مفلسی کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یقینا اس گوشت کے زیادہ حق دار عوام
نہیں خواص ٹھہریں گے، کیونکہ ملزمان نے اعترافی بیان میں یہ انکشاف بھی کیا
ہے کہ انھوں نے گوشت بڑے ہوٹل کو بھی بیچا ہے۔ اگر عوام کی گوشت کھانے کے
استطاعت نہیں رہے گی تو یہ گوشت صرف اشرافیہ کو ہی نصیب ہو سکے گا۔ پھر
چاہے اشرافیہ گدھے خرید کر کھائے یا ہوٹل میں جا کر یہ ان کا سراسر اپنا
معاملہ ہو گا، عوام اس کی ذمہ دار نہیں ہو گی، عوام صرف سپلائی کرے گی۔ |