90 فیصد عالمی میڈیا اسرائیل کے
قبضہ میں ہے اور ہند کا میڈیا ہندوشدت پسند لوگوں کے پاس۔ اسی لئے ہند کا
ہندو اور اسرائیل کے یہودی جو کہلوانا اور دکھلانا چاہتا ہے وہی ہمیں
دکھایا اور کہا جاتا ہے اور پوری دنیا اسے ہی دیکھتی ہے اور بار بار وہی
جھوٹ دیکھتے رہنے سے ایک حد تک سچ بھی مان لیتی ہے۔ دنیا کی سب زیادہ آبادی
کا تناسب رکھنے والی مسلم قوم ہے۔سندھ کے جیل سے ایک بیوہ کی آہ بکا پر اس
وقت کی عالمی طاقت عراق کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا ہے اور 17 سالہ
محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں چھ ہزار کی فوج راجہ دہر کی ساٹھ ہزار فوج
سے مقابلہ کے لئے پیدل و گھوڑ سوار سندھ بھیجی جاتی ہے لیکن تین لاکھ
مسلمانوں کو شہید کرنے یا کروانے والے اسرائیل کے خلاف جنگ کرنا تو دور کی
بات انکے خلاف بولنے تک کے لئے مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی ذرائع ابلاغ
میڈیا نہیں ہے۔کیا ان تین لاکھ بے قصور مسلمانوں کو شہید کرنے والوں کی پکڑ
کرنے والا کوئی صلاح الدین ایوبی کوئی محمد بن قاسم مسلم امت میں میں پیدا
نہیں ہوگا؟کم از کم پیٹرو ڈالر سے سرشار یہ مسلم ممالک مسلم دانشوروں کے
تعاون سے کیا مسلم ذرائع ابلاغ کی تشکیل نہیں دے پائیں گے؟ سترہ سے بائیس
فیصد آبادی والی ہندستان کی مسلم قوم اپنی ترجمانی کے لئے اپنی آواز کو ہند
کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے کیا ایک مسلم ذرائع ابلاغ کی بنیاد نہیں ڈال
پائیں گے؟ مسلم ذرائع ابلاغ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اسکا اعتراف تو ہند کے
ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ عوام تک کو ہے۔ تب پھر مسلم امت کے ہزاروں کروڑ کے
مالک یہ جیالے سپوت ہند کے مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت مسلم ذرائع ابلاغ
کو حاصل کرنے کے لئے کب پہل کریں گے؟ ہزاروں کروڑ کی املاک والے پونا کے
گھوڑ دوڑ کنگ حسن کی طرح ایک دن سلاخوں کے پیچھے جانے کے بعد ہی اس سمت فکر
کریں گے؟ قبر پرستی اور دیگر توہیمات کے درشانے کے لئے مذہبی چینل کے قیام
پر کئی ہزار کروڑ خرچ کرنے کی سکت تو اس مسلم امت میں ہیں لیکن ہندو شدت
پسندوں سے اپنی آبرو بچانے کے لئے ایک مسلم ذرائع ابلاغ قائم کرنے مسلم امت
کو ہزاروں بار کیوں سوچنا پڑتا ہے؟نام نہاد مسلم لیڈران نے مسلم میڈیا
بنانے کے نام کئی ہزار کروڑ ڈکار لئے ہیں اور پس پردہ سیاست ہوچکے ہیں ۔کیا
ان کو یہ احساس نہیں اخلاص سے اگر انہوں نے مسلم میڈیا بنایا ہوتا تو انہی
کو سیاسی حیات دوام ملتی؟ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور مجلس اتحاد المسلمین نے
دستور ہند کے دائرہ میں رہتے مسلمانوں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کی جو
کوشش کی ہے دیکھیں وہ کتنے مقبول ہوچکے ہیں جبکہ ساٹھ پینسٹھ سال تک
کانگریس میں رہے مسلمانوں نے اپنے اعلی سیاستدانوں کی چاپلوسی کرنے میں
مسلم امت کے حقوق انہیں دلانے تک کی پرواہ نہیں کی تھی یاد رہے اپنی کوکھ
میں نو مہینہ پالنے والی ماں بھی بلکنے اور رونے کے بعد ہی معصوم بچہ کو
دودھ پلایا کرتی ہے۔جب تک مسلمان دستور ہند میں ہمیں دئے گئے حقوق کو ایک
آواز بن کرحکومت سے نہیں مانگیں گے ہمیں آگے بڑھ کر ہمارے حقوق دینے کی پہل
کوئی سیاستدان کریگا یہ صرف ہم مسلمانوں کی خام خیالی ہوگی۔ ہماری آواز کو
ایوانوں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ صرف اور صرف ایک آزاد مسلم میڈیاہے اس
کے لئے ہم جتنی جلد کوشس کریں گے یہ ہمارے لئے اچھا ہوگا۔ ہمارے بیشمار
نوجوان صحافی صحافتی صلاحیت رکھنے والے انمول رتن مختلف ذرائع ابلاغ میں
اپنی انانئیت کے خلاف کام کرنے پر مجبور دو وقت کی روٹی کمانے میں مگن
ہیں۔ایسے میں آج ہم کو مسلم ذرائع ابلاغ شروع کرنے کی سوچتے ہیں اور صرف
مال و زر کا انتظام کرنے کے سکت پاتے ہیں تو ہمارے نیوز چینل کو چلانے والے
باصلاحیئت افراد کے لئے ایک ناقابل تسخیر کمک ہم میں ہم پاتے ہیں۔ اب وقت
آگیاہے کہ ہم مسلمان اپنے میڈیا کو مضبوط کرنے کے لیے آواز اٹھائیں۔
دراصل ہم مسلمان چند محدود باتوں کو لے کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی سوچ
رہے ہیں اور ہماری یہ سوچ ہوگئی ہے کہ محض مسجدوں کی تعمیر ، مدرسوں کے لئے
مالی تعاون ہی ہمارے آخرت کا سامان ہے اور اسی سے دین اسلام کی تبلیغ ممکن
ہے اور باطل کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں لیکن زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ
ہماری سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے اور اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
کہ آج مسلمانوں اور دین اسلام پر مغربی و فسطائی میڈیا جس طرح سے حملہ آور
ہوچکا ہے اور اسکا جواب دینے کے لئے مؤثر میڈیا کو عمل میں لانا چاہئے ۔
ہندوستان میں روزناموں کی تعداد 12ہزار؍ سے زیادہ ہے اور ان میں صرف 9؍ سو
روزنامے ہی اردو کے ہیں جو اکثر مسلمانوں کی سرپرستی میں کام کررہے ہیں ۔
بڑے اخبارات اپنے الگ الگ مقاصد کے تحت شائع ہورہے ہیں ، ایک اخبار
کارپوریٹ کمپنی کا ترجمان ہے تو بقیہ دوسرے اخبارات سیاسی جماعتوں کے
ترجمان ہیں لیکن قوم کی ترجمانی کرنے کے لئے نہ ہمارے پاس الیکٹرانک میڈیا
ہے نہ ہی پرنٹ میڈیا ایسے میں قوم کے اندر بیداری کیسے ممکن ہوگی ۔ حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ حق کے لئے لکھے جانے والے ایک سیاہی کا
خطرہ ایک ہزار شہداء کے خون سے افضل ہے ، اب میڈیا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس
سے حق کو لوگوں تک پہنچایا جاسکتاہے لیکن ہمارے پاس یہی وسائل موجود نہیں
ہیں ۔ گٹر کا پانی چاہیے یا صاف پانی
اس پُر آشوب دور میں میڈیا مختلف طریقوں سے ہمار ی زندگیوں پر غالب آچکی
ہے،ہماری نسلوں کو یہودی میڈیا نے بے راہ روی اختیار کرنے پر مجبور کردیا
ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری نسلوں کو اس فرقہ پرست ،یہودی
اورفسطائی طاقتوں کے ماتحت رہنے والے میڈیا سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟۔یقینا
آج میڈیا کی پہنچ گھروں تک پہنچ چکی ہے، اب جو اس کے اثرات ہیں ان برے
اثرات سے ہمارے معاشرے و قوم کو بچانے کیلئے ہمارے پاس متبادل
یعنیParallel؍ میڈیا کے قیام کی ضرورت ہے۔ایک طرف نالے کا پانی ہے تو دوسری
طرف پاک پانی ہے۔لوگ پاک پانی نہ ہونے کی وجہ سے گٹر کا پا نی پینے پر
مجبور ہیں اگر ہم پاک پانی فراہم کرتے ہیں تو لوگ اس کو پسند کرینگے اور اس
کا استعمال کرینگے،سب کو اچھی اچھی چیزیں پسند ہیں۔پیسہ خرچ کرنے کے بعد
بھی جب آدمی چپل خریدتا ہے تو وہ اس کا باقاعدہ معائنہ کرتا ہے۔دو روپئے
پین خریدتا ہے تو وہ اسے لکھ کر دیکھتا ہے کہ جس پیسوں سے میں پین خرید رہا
ہوں وہ لکھتی بھی ہے یا نہیں۔اُسی طریقے سے اگر ایک متبادل میڈیا مسلمان
بنا سکتے ہیں جس میں سماج کے مسائل پر تذکرہ ہو،معاشرے میں جو برائیاں
پھیلتی ہیں ا س کا علاج ہواور مسلمانوں و اسلام کے خلاف بڑھ رہی سازشوں کا
جواب ہوتو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگوں کے سامنے دوسرا آپشن ہوگا۔یہ ضروری ہے
گویا کہ مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔یہ کرنا ہی پڑیگا ورنہ اُمت کو بہت بڑا
خسارہ اٹھانا پڑیگا۔ہم بار بار اور ہر بار یہی کہہ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں
کے پاس کوئی اپنا میڈیا نہیں ہے۔آپ انٹرنیٹ کی دنیا پر جا کر تلاش کریں کہ
دنیا کی کونسی قوم سب سے زیادہ میڈیا کا استعمال کررہی ہے تو آپ کو جان کر
حیرت ہوگی کہ اسرائیل کی وہ قوم جن کی آبادی دنیا کے صرف18؍ ممالک ہے اورچھ
ملین سے کم ہے۔جبکہ ہم مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر میں2.2؍ بلین یعنی دنیا
کی جملہ آبادی کا31؍ فیصد حصہ ہے ،ہمارے پاس0.1؍ فیصد ہی میڈیا موجود
ہے۔ایسے میں ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہماری آواز یہودی و فرقہ پرست
طاقتیں دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔یقین مانئے کہ آج کل میڈیا تیزی کے ساتھ
اس لئے پھیل رہا ہے تاکہ مسلمانوں اور اسلام کوختم کرنے کیلئے ایک نفسیاتی
جنگ چھیڑ سکیں۔اگر آپ کے بچے کی کسی نے شکایت کی کہ آپ کا بچہ نہایت بدکا ر
ہے تو پہلے آپ نہیں مانیں گے ،پھر اسی شکایت کو دوسرے تیسرے چوتھے اور
متعدد لوگوں سے سننا پڑا تو آپ کو یقین ہوجائیگا کہ ممکن ہے کہ میرا بچہ
بدکار ہوگا کہ اس لئے سبھی لوگ اس بات کو دہرا رہے ہیں۔اسی طرح سے آج میڈیا
کا بھی یہی رول ہے۔اگر آپ ایک اخبار اٹھا کر دیکھے کہ احمد دہشت گرد ہے تو
پہلے آپ اس بات کا سنجیدگی سے نہیں لیں گے ،پھر اسی بات کو ہر ٹی وی چینل
اور ہر اخبار میں آپ دیکھیں گے وہ پڑھیں گے کہ آپ کو یقین ہوجائیگا کہ
احمددہشت گردہی ہوگا۔لیکن احمد حقیقت میں کیا ہے یہ بات آپ بتانے کیلئے آپ
کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے،اسی وجہ سے ہم ہماری قوم سے گذارش کررہے ہیں کہ
میڈیا کو قائم کرنے کیلئے آگے آئیں۔یہ ممکن ہے بس ایسی سوچ رکھنے والوں کو
ایک پلاٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ |