خاندانی سیاست

 ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں خاندانی سیاست کا رواج نہ ہو، پاکستان کی تاریخ موروثی سیاست کے سیاہ باب
سے خالی الدامن نہیں ، مگر خیبر پختونخوا میں منعقد ہو نے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ میں گزشتہ دنوں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر جب ناظمین اور نائب ناظمین کا انتخاب ہوا، تو بعض حلقوں میں ہونے والے انتخاب پر عوام کی طرف سے پی ٹی آئی پرسخت اعتراضات سامنے آئے۔کیوں ؟ اس کا مختصر سا جائزہ لیں گے مگر پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں مو روثی سیاست کہاں اور کس حد تک در آئی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مو روثی سیاست کی لمبی چوڑی فہرستوں سے بھری پڑہے۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، ممتاز بھٹو، بے نظیر بھٹو، مر تضی بھٹو، غنوای بھٹو، اور بلاول بھٹو جیسے نا م دکھائی دیتے ہیں ․․پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف دیکھیں تو میاں نواز شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، حمزہ شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر عابد شیر علی سمیت شریف فیمیلی کے بہت سارے لوگ اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں۔

زرداری فیمیلی میں حاکم علی زرداری، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور منور تالپور اور اب بلاول زرداری کے نام نمایا ں ہیں۔ مسلم لیگ قاف کی طرف دیکھیں تو چوہدری شجاعت حسین، چوہدری ظہور الہی، پرویز الہی، شفاعت حسین، وجاہت حسین، ریا ض اصغر اور مونس الہی انتخابی معرکوں میں دکھائی دیتے ہیں ۔ عسکری گھرانوں پر نظر ڈالیں تو ایوب خان (مرحوم) گو ہر ایوب، اور عمر ایوب خان کے نام نظر آتے ہیں۔ ضیا الحق کے بعد ان کے صاحب زادے اعجا زالحق اور انوار الحق میدان میں دکھائی دے رہے ہیں۔؛
خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پاڑٹی میں باچا خان کے بعد ولی خان، بیگم نسیم ولی خان، اسفند یار ولی خان اور امیر حیدر خان کی اجارہ داری رہی، جے یو آئی میں مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن، ان کے بھائی مولانا عطا الرحمن، لطف الرحمن، عبیدالرحمن اور ان کے سمدھی غلام علی موجود ہیں اسی طرح قومی وطن پارٹی میں آفتاب شیرپاوٗ اور ان کے بیٹے سکندرحیات شیر پاوٗ نظر آرہے ہیں۔الغرض پاکستانی
سیاست میں متزکرہ خاندانوں کے علاوہ بھی کئی دوسرے خاندانوں کے نرغے میں رہی ہے۔ خواتین کی نشتیں بھی عام طور پر انہی بڑے خاندانوں کی خواتین کے حصے میں ہی آتی رہی ہیں۔۔۔

یہ تھی پاکستان میں موروثی سیاست کی ایک مختصر جھلک، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں موروثی سیاست بہت نمایاں ہے،اس کے باوجود ضلعی اور تحصیل سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جب پی ٹی آئی میں خاندانی سیاست گھس آئی تو خود پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سخت مایوسی اور دل شکنی کا سامنا کرنا پڑا۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے کارکنان اور عوام دونوں تحریکِ انصاف سے خاندانی سیاست کی توقع نہیں رکھتے تھے کیو نکہ تحریکِ انصاف تبدیلی کی دعویدار ہے اگر وہ بھی دوسرے سیاسی پارٹیوں کی طرح خاندانی سیاست پر عمل پیرا ہو تی ہے تو یقینا پھر تبدیلی کا نعرہ ایک ڈھونگ ثابت ہو گا ۔ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے بھائی نوشہر ہ لیاقت خٹک نو شہرہ کے ناظم منتخب ہو ئے، ڈی آئی خان سے وزیرِ مال علی امین گنڈاپور کے بھائی عمر امین گنڈاپور تحصیل ناظم بن گئے۔ تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی کے بھائی مصطفیٰ کنڈی بھی نوازے گئے۔ وزیرِ قانون امتیاز قریشی کے بھائی اشفاق قریشی کو ہاٹ سے تحصیل ناظم بن گئے۔پی ٹی آئی کے ممبرانِ صوبائی اسمبلی بھی اپنا اپنا حصہ لینے میں پیش پیش رہے۔

احتشام اکبر کے چچا جہانزیب اکبر پہاڑپور کے تحصیل ناظم بن گئے، کرک سے ایم پی اے گل صاحب خان کے بھائی ؑعمر دراز ضلعی ناظم منتخب کر دئیے گئے۔ ڈی آئی خان کے ضلعی ناظم عزیزاﷲ بھی پی ٹی آئی کے ایم پی اے سمیع اﷲ کے بھتیجے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف اور عوام نے بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر منتخب نمائیندوں کی اس طرح خاندانی اجارہ داری کو بالکل پسند نہیں کیا ، بہت سارے اعتراضات سامنے آئے، خود تحریکِ انصاف کے چئیرمین عمران خان کی طرف سے اس پر سخت نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیاہے۔

ہمارے نزدیک پاکستانی سیاست میں اس طرح کی مو روثی سیاست جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔اس طرح ایک دوسرے کی نا اہلی، کرپشن اور دیگر عیوب کو چھپانا آسان ہو جاتا ہے۔،لوگ ملک و قوم کی بجائے افراد کے مفادات کے لئے سر گرم ہو جاتے ہیں پاکستان میں تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور متحدہ قومی مو منٹ تین ایسی سیاسی پارٹیاں ہیں، جن سے عوام خاندانی سیاست نہ کرنے کے توقع رکھتی ہے، اب ان میں سے جو بھی پارٹی عوامی تو قعات کے بر عکس خاندانی سیاست میں ملوث ہو گی، آنے والے انتخابات میں اس پر بڑا منفی اثر پڑے گا۔عوام کو بھی چا ہیئے کہ الیکشن کے دوران ووٹ ڈالتے وقت خاندانی سیاست کو فروغ دینے کی حوصلہ شکنی کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285145 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More