نریندرمودی صاحب!
غربت کے دن دیکھنے والے سے امید کی جاتی ہے کہ وہ افلاس کی ہول ناک زندگی
کے مصائب سمجھتا ہوگا اور اگر اسے کوئی اہم منصب حاصل ہوتا ہے تو وہ ان
مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آپ سے بھی آپ کے ہم وطنوں کو یہی آس تھی۔
ہم پاکستانیوں کو تو آپ سے بھلے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بہ طور وزیراعلیٰ
گجرات جس طرح آپ نے مسلمانوں کا خون بہایا اس سے ہر ایک کو اندازہ ہوگیا
تھا کہ مسلم دشمنی آپ کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے اور وزیراعظم کی گدی
سنبھالنے کے بعد آپ بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان سے کس قسم کا سلوک کرنے
کے خواہش مند ہوں گے۔ لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ نفرت اور تعصب عقل پر اس
طرح حاوی ہوجائیں گے کہ آپ اپنے ہم مذہب بھارتیوں کے لیے بھی اچھے حکم راں
ثابت نہیں ہوں گے۔
بھارتی پردھان منتری جی! ہم سمجھتے تھے کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے زندگی
کی شروعات کرنے کے باعث آپ نے بھارتی عوام کی اکثریت کے روزوشب کو قریب سے
دیکھا ہے اور سے دکھ درد کے آشنا ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ ساری زندگی آپ کی
آنکھیں دشمنی کے تیور لیے اپنے ہم وطن مسلمانوں پر گڑی رہیں یا پاکستان کو
نفرت سے دیکھتی رہیں، چناں چہ آپ عام بھارتی جنتا کے مسائل پر نظر ڈال ہی
نہ سکے۔ تو ہم نے سوچا کہ بھارتی وزیراعظم کو ان کے دیش کا اصل چہرہ دکھا
دیں اور عرض کریں کہ جناب! پاکستان کو ڈرانے، دھمکانے، جھکانے اور دبانے کی
کوششیں چھوڑیے، یہ لاحاصل ثابت ہوں گی، جو وقت آپ ان کوششوں میں لگاتے ہیں
وہ اپنے ملک کے مسائل حل کرنے پر صرف کیجیے، اگر آپ کو دیگر ممالک کے دوروں
اور ان دوروں میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے فرصت مل چکی ہو تو کبھی
اپنے مہان دیش کی یاترا بھی کرلیجیے اور دیکھیے کہ آپ کے‘‘شائننگ انڈیا‘‘
میں کیسا اندھیر مچا ہے۔ چلیے ہم آپ کو آپ کے بھارت کی تصویر دکھاتے ہیں۔
مودی جی! آپ کو پتا ہے آپ کے دیش میں کسانوں کی خود کشی کے واقعات سال بہ
سال بڑھتے جارہے ہیں۔ بھارتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے جاری کردہ
اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال 5 ہزار 650 کسانوں نے اپنے حالات اور مسائل
سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ گویا اوسطاً بھارت کے ہر 100دیہات میں ایک کسان نے
خود کو موت کے حوالے کردیا۔ اور جناب! ان واقعات میں ریاست مہاراشٹر
سرفہرست ہے، جہاں آپ کی صنعت وتجارت کا مرکز اور دنیا کو بھارت کا نہایت
رنگین اور چمکتادمکتا چہرہ دکھانے والا بولی وڈ واقع ہیں۔ خودکشی کے ان
واقعات کے پیچھے اہم ترین وجہ بینکوں سے قرضے لے کر دیوالیہ ہوجانا ہے۔ یہ
تو تذکرہ تھا پچھلے برس کا، اس سال جنوری سے 31 تک صرف ریاست کرناٹک میں
400کسان موت کو گلے لگا چکے ہیں۔
یہ خودکشیاں اس خوف ناک افلاس کا نتیجہ ہیں جس نے بھارت کو عفریت کی طرح
اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ غربت لاکھوں افراد کو ممبئی اور بھارت کے
دیگر بڑے شہروں کی فٹ پاتھوں پر سلاتی ہے اور ان کی رگوں سے خون کی ایک ایک
بوند نچوڑ لیتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایک ارب 25 کروڑ کی آبادی والے
بھارت میں 30 کروڑ سے زائد افراد کی زندگی افلاس کی انتہا پر ہے۔ یہ لوگ
تعلیم، صحت، پانی، سیوریج سسٹم اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے
محروم ہیں۔ اس غربت ہی کے باعث بھارت میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات
کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچے اپنی
پانچویں سال گرہ منانے سے قبل ہی موت کی کالی گھاٹیوں میں اتر جاتے ہیں۔
شدید ترین غربت کا شکار بھارتیوں میں سے ساٹھ فی صد افراد گھر سے محروم ہیں
اور کھلے آسمان کے نیچے زندگی بِتا رہے ہیں۔
بھارت میں معاشی، معاشرتی اور ذاتوں سے متعلق کئے گئے تازہ سروے سے ثابت
ہوا ہے کہ بھارتیوں کی اکثریت اس وقت شدید غربت کی شکار ہے۔ نریندرمودی
صاحب! اُس دیش کے بارے میں مزید کچھ حقائق جان لیجیے جس کے آپ حکم راں ہیں،
لیکن پاکستان کے خلاف فضا ہموار کرنے اور پاک چائنا اقتصادی راہداری کے
منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی خاطر کیے جانے والے غیرملکی دوروں کی وجہ سے جس
ملک کے طول وعرض میں آپ کا آناجانا کم کم ہی ہوتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق بھارت کی 73 فی صد آبادی دیہات میں رہتی ہے جس میں سے
صرف 5 فی صد ٹیکس دینے کی سکت رکھتی ہے۔ اس آبادی میں سے محض ڈھائی فی صد
افراد چار پہیوں کی سواری رکھتے ہیں اور 10 فی صد تنخواہ دار ملازم ہیں۔
بھارت کے دہی علاقوں میں صرف ساڑھے تین فی صد افراد گریجویٹ ہے اور پینتیس
فی صد آبادی لکھنے پڑھنے سے نابلد ہے۔ مجموعی طور پر بھارت کی 73 فی صد
آمدنی پانچ ہزار بھارتی روپے سے بھی کم ہے۔
اب آئیے دیگر مسائل کی طرف۔ عورتوں سے زیادتی․․․․مودی جی! جس دیس میں سیتا
کے احترام میں سر جھکتے ہیں جہاں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے، وہاں عورتیں
غیرمحفوظ ہیں۔ چھوٹے شہروں اور دیہات کا تو ذکر ہی چھوڑیے۔ دارالحکومت دہلی
میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران خواتین سے زیادتی کے واقعات میں اس قدر اضافہ
ہو گیا ہے کہ بھارتی راج دہانی کو ’’ریپ کیپیٹل‘‘ کہا جانے لگا ہے۔
گذشتہ برس پندرہ دسمبر سے پہلے کے بارہ مہینوں کے دوران دہلی میں خواتین کے
ساتھ جنسی زیادتیوں کے مجموعی طور پر 2069 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس عرصے
سے پہلے کے ایک سال کے دوران عورتوں اور لڑکیوں کے ریپ کے واقعات کی یہی
تعداد 1571 رہی تھی۔ دہلی کے پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران
شہر میں ریپ کے واقعات کی شرح میں 31․6 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ صورت
حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال قبل بھارتی دارالحکومت
میں درندوں نے ایک چلتی بس میں میڈیکل کی ایک جواں سال طالبہ کو اجتماعی
زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ بعدازاں یہ لڑکی جان سے گزر گئی تھی۔ دہلی ہی
نہیں، ملک کے دیگر حصوں میں بھی بھارتی عورت غیرمحفوظ ہے اور عمر کا کوئی
بھی حصہ بھارتی نار کو محفوظ رکھنے سے معذور ہے۔ اسی سال مشرقی بھارت میں
چھے درندوں نے ایک بوڑھی عیسائی نن کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔
مودی جی! یاد رہے کہ دہلی وہی شہر ہے جہاں بیٹھ کر آپ اور آپ کی کابینہ کے
ارکان پاکستان پر گرجتے برستے رہتے ہیں، پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات
لگاتے رہتے ہیں، لیکن اپنی ناک کے نیچے ہونے والی اس بھیانک دہشت گردی کو
روکنے سے قاصر ہیں۔
اور جناب وزیراعظم! اپنی فوج کے بل بوتے پر پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہوئے
آپ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ یہ فوج کشمیر میں پاکستان کے پرچم لہرانے سے
نہیں روک سکی ہے اور نکسل باڑی باغی آپ کی سینا کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں،
اور اب تو مشرقی پنجاب میں خالصتان کی تحریک پھر جنم لے چکی ہے۔
تو جناب! قدرت نے آپ کو جو موقع دیا ہے اسے بھارت واسیوں کے مسائل حل کرنے
کے لیے استعمال کیجیے، اس موقع کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں
ضایع مت کیجیے۔ آپ کی نظریں سرحد کے اُس طرف ہونی چاہیں جہاں آپ کا ملک
آباد ہے، سرحد کے اِس طرف نہیں۔ |