ایلان کردی ،مظالم اور داستان بے حسی!

ترکی سمندر کے ساحل پر تین سالہ ایلان کردی کی بہنے والی لاش پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرچکی ہے ۔ اخبارات و رسائل اور سائبر اسپیس پر مضامین کی انبار لگی ہوئی ہے۔ فیس بک ، ٹوئیٹر ، وہاٹس اپ اور دیگر سوشل سائٹس پر اس منظرنامہ کو پوسٹ کرنے والوں کی تعداد لائک اور کمنٹ کرنے والوں سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ۔افسوس کا اظہار کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ اس تصویر کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے ردعمل سے بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ انسانیت پر ظلم وستم کا پہاڑ تو ڑنے والے امریکہ اور یورپ کا ضمیر بھی بیدار ہوچکا ہے۔اسے اپنے ظلم وستم کا احسا س ہوگیا ہے ۔ ان کے ضمیر نے ملامت کرنی شروع کردی ہے کہ ایلان کی موت کا مجرم کوئی اور نہیں تم اہل یورپ خود ہو ۔ تمہاری دوہری پالیسی اور اسلام دشمنی ہے ۔لاکھوں بے گناہوں کے خون سے تمہارے ہاتھ رنگین ہیں ۔ افغانستان ، عراق،شام ، یمن ،پاکستان اور دیگر ممالک میں ہزاروں بچے اپنی قیمتی جانیں تمہاری سامراجی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ساحل سمندر پر پڑی تین سالہ معصوم ایلان کردی کی لاش ان لاکھوں بچوں پر ہوئے نارواظلم کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جومعصومیت کے مرحلے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ کبھی امریکی بمباری میں جل کر خاک ہوجاتے ہیں ۔ کبھی ڈرون حملوںَ کی نذر ہوکر زند گی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ کبھی حصول تعلیم کے دوران دہشت گردوں کے نشانے پر آجاتے ہیں ۔ کبھی افغانستان کی پہاڑی میں اپنی ماں سے جداہوجاتے ہیں ، کبھی عراق کی وا دی میں امریکی فوج کی گولیاں کھاکر دائمی نیند سلادیئے جاتے ہیں ۔اور کبھی ایلان کردی کی طرح جائے پناہ کی تلاش میں سمندر کی سرکش موجوں سے نبرد آزما ہوکر زندگی کی جنگ ہارجاتے ہیں ۔خلاصہ یہ کہ دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں معصوم بچے انتشار ، بدامنی ، دہشت گردی ، جنگوں اور جبری بے دخلیوں کا شکار ہو تے ہیں اوراس طرح پوری انسانی آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ۔ایلان بھی مغربی حکمرانوں کی انہیں بے رحمانہ ،ظالمانہ پالیسیوں اور سامراجی عزائم کا شکار ہوا ہے۔ ایلان بھی ان لاکھوں بچوں میں شریک ہے ، جو نیو ورلڈ آرڈر کا شکار ہوئے اور جن کی زندگی کے پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گئے ۔

ایلان کا خاندان شام سے اپنی جان بچا کر نکلا تھا ۔ ایلان کے والد عبداﷲ کردی کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنے خاندان کو دنیا کی کسی محفوظ سرزمین پر منتقل کردے گا ۔ دیگر تارکین وطن کے ہمراہ عبداﷲ کردی بھی مغربی ممالک میں پناہ لینے کے لئے غیر قانونی طور پر سمندری سفر پر روانہ ہوا ۔کنیڈا کو انہوں نے پناہ دینے کے لئے درخواست دی لیکن کینیڈا نے ان کی پناہ کی درخواست مسترد کردی ۔ وہاں سے مایوس ہوکر تارکین وطن کی کشتی کسی دوسرے یورپی ملک کی طرف روانہ ہوئی لیکن یہ کشتی ایک یونانی جزیرے کے قریب الٹ گئی ۔ اس حادثے میں عبداﷲ کردی کی بیوی ، 5 سالہ بیٹا غالب اور 3 سالہ بیٹا ایلان ڈوب کر جاں بحق ہوگئے عبداﷲ کی بیوی اور 5پانچ سالہ بیٹے کی لاش تو مل گئی لیکن ایلان کی لاش بہتے ہوئے ترکی کے ساحل بورم پر جاپہنچی ۔ جسے اڑیسہ کے ایک مصور نے انسانیت بہ گئی کا عنوان دیا ہے اور وہ تصویربناکر اڑیسہ میں سمندر کے ساحل پر نصب کی ہے ۔

ساحل سمندر پرپڑی ایلان کی لاش یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آٖخر شام کے حالا ت اس قدر خراب کیوں ہے اور کو ن اس کے لئے ذمہ دار ہے ۔ پانچ سالوں سے جاری بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہا ہے ۔ اقوام متحدہ کیا کررہی ہے ۔ عرب ممالک کی کاغذی تنظیم عرب لیگ کب نششتن ، گفتن ، اور برخواستن سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کوئی کاروائی کرے گی ۔ عالمی امن کے ٹھیکے ڈار امریکہ اور یورپ کب تک مشرق وسطی میں خاک و خون کی ہولی کھیلتے رہیں گے ۔ کب تک وہاں قتل عام اور انسانی بحران کا سلسلہ جاری رہے گا ۔شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ لاکھوں کی تعداد میں یہاں سے ہجرت کرکے یورپ کا رخ کررہے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر تارکین ان عرب اور افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جو ان دنوں بدترین خانہ جنگی ، خونریزی اور دہشت گردی کے شکار ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک مہینے میں پناہ حاصل کرنے کے لئے جرمنی آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے ۔ کنیڈا کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جس نے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ۔اپنے وطن کو الوداع کہ کر یورپ میں جائے پناہ تلاش کرنے والے یہ پریشان حال عوام ان لوگوں میں شامل نہیں ہے جو یورپی ممالک کا سفر بہتر اور تابناک مستقبل کے لئے کرتے ہیں او بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ملکوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں بچانے کے لئے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔

یورپ اور امریکہ میں سول سوسائٹی کے بعض حلقے ایسے ہیں جو دنیا کی مظلوم قوموں اور گروہوں کے لئے حقیقی طور پر آواز اٹھاتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ حلقے مغربی حکومتوں پر یہ زور دے رہے ہیں کہ دنیا کی بدامنی کے شکار ملکوں سے آنے والے تارکین وطن کو یورپ میں پناہ دی جائے ۔ انہی حلقوں نے ایلان کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر جاری کرکے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان تارکین وطن کے مسائل کیا ہیں اور وہ کن مصائب سے دوچار ہیں ۔ جب سول سوسائٹی کی طرف سے مظلوم ایلان کی تصویر پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تو مغرب کے حکمرانوں کو بھی اداکاری کرنی پڑی ۔اور انہوں نے بھی مگر مچھ کے آنسو بہائے لیکن ان سب کے لئے ذمہ دار بھی وہی ہیں ۔ ان کی پالیسی ہے ۔سوال ان تارکین وطن کو پناہ دینے یا نہ دینے کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ مشرق وسطی کے ان خراب حالات کا ذمہ دار کون ہے ۔شام میں خانہ جنگی کے اسبا ب کی تلاش اور اس کے حل کے لئے دنیا کیوں فکرمند نہیں ہے ۔ایلان کی تصویر سے ان لاکھوں بچوں کی داستان ظلم عیاں ہورہی ہے جو مغرب کی دوہری پالیسی اور سامراجی نظام کے شکار ہیں ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163054 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More