تحریر :رفعت خان
زندگی میں انسان کو ہر طرح کے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے خوشی ہو غم
ہو پُر سکون زندگی یا پھر غربت و مفلسی کی کڑی دھوپ ہو جینا تو ہر حال میں
پڑتاہے۔ خوشی غم میں یا غم خوشی میں بدلتے دیر نہیں لگتی ،پیسہ مال بزنس سب
ختم ہو سکتا ہے مگر ہنر ایک ایسی دولت ہے جو انسان کا زندگی بھر ساتھ دیتا
ہے جب سب کچھ ختم ہو جائے اور غربت کے کالے بادل چھا جائیں تو انسان اندھیر
کوٹھری میں بند ہو کر رہ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کے ہاتھ کا ہنر ہی
انسان کے کام آتا ہے انسان اپنے ہنر کو بروے کار لاتے ہوئے غربت کے اندھیرے
سے نکل سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کے اپنی بچیوں کو بھی ہنر سے آراستہ
کروائیں تاکہ وہ آنے والے وقت کا با آسانی مقابلہ کر سکیں ۔ہنر بچیوں کو
روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے بچیاں گھر بیٹھے روزگار حاصل کر سکتی ہیں ،ہمارے
ملک کے حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں گھر کے تمام افراد برسرِروزگار ہوں تب
جا کر گزارہ ممکن ہوتاہے ۔
اگر ایک بچی سلائی کا ہنر سِکھتی ہے تو وہ اپنے کنبے کا بوجھ کسی حد تک
اُٹھا سکتی ہے ۔ایک بیوی اپنے شوہر کا آدھا بوجھ کم کر سکتی ہے۔جن گھروں کی
بوڑھی مائیں اپنی جوان بچیوں کو گھر چھوڑ کر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے
جاتی ہیں ان گھروں میں بچیاں گھر بیٹھ کر اپنے ہنر کے بل بوتے پر غربت کے
اندھیرے مٹا سکتی ہیں ۔اور جو لڑکیاں مجبور اور بے بس ہو کر اپنی عزت کو
داؤ پر لگا کر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے جاتی ہیں وہ عزت سے اپنے گھروں
کی چار دیواری میں رہ کر اپنے ہاتھ کے ہنر سے روزگار فراہم کر سکتی ہیں۔ہنر
غربت کے اندھیرے تو مٹا سکتا ہے مگر فکر طلب بات یہ ہے کہ غریب لوگ ہنر
کیسے حاصل کریں؟
ہمارے ملک میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کام سیکھانے
کی بھی فیس لی جاتی ہے ایسے میں غریب بچیاں چاہتے ہوئے بھی وسائل کی کمی کی
بنا پر ہنر سیکھنے سے محروم رہ جاتی ہیں ۔شاذونادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ
فر ی میں بچیوں کو توجہ سے کام سکھایا جاتا ہو۔کچھ ہی عرصہ پہلے ایک غریب
بچی میرے پاس آئی ،اس کا اندازِ بیاں بتا رہا تھا ہنر سیکھنا اس کی ضرورت
بھی ہے اور شوق بھی بقول غریب لڑکی !چھ ماہ ہوگئے ایک بیوٹیشن سے پارلر کا
کام سیکھ رہی تھی پارلر کا کام کم مگر گھر کی صفائی ستھرائی میں زیادہ
مہارت حاصل ہو پائی میرا دل بے حد رنجیدہ ہوا! میں نے دو ماہ میں اس لڑکی
کو پارلر کا مکمل کام تو سکھا دیا مگر یہ سوچ کر دل آج بھی کڑھتا ہے کہ
نجانے ایسی اور کتنی مجبور لڑکیاں چاہتے ہوئے بھی ہنر ہاتھ میں لینے سے
محروم ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ایسی بچیوں کے لئے وسائل فراہم کرنے میں مثبت کردار ادا
کریں۔اپنے علاقے یا شہر میں فلاحی ادارے قائم کریں اگرچہ یہ کام مشکل ہے
مگر حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والوں کو مشکلات کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ وسائل
اور تجربہ نا ہونے کی بنا پر جن لوگو ں کے لیے ایسے ادارے قائم کرنا نا
ممکن ہے اُن لوگوں کو کم ازکم ایسے اداروں کو کامیاب کرنے کیلئے اسپورٹ کر
کے نیکی کے کام میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے ۔ بے شک قطرے قطرے سے مل کر
دریا بھر جاتے ہیں ۔اندھیرے کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا روشنی کا غائب
ہوجانا ہی اندھیرا کہلاتا ہے ہماری ذات سے اگر کسی ایک کی زندگی کے اندھیرے
مٹ سکتے ہوں تو ہمیں وہ روشن چراغ ضرور بننا چاہیے ۔یہی حقیقی زندگی ہے۔ |