پی پی پی اور ن لیگ کے ماضی کے تعلقات اور

پی پی پی اور ن لیگ کے ماضی کے تعلقات اور آصف و بلاول زرداری بھٹوکی گرماگرم تقاریر.. ...
آہ.. !! لاہورمیں ورکرزکنونشن سے بلاول زرداری بھٹوکاخطاب اور جمہوریت کا ڈی ریل ہوتاجمہوری عمل...

اِس میں شک نہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ ہی سے جمہوریت کی دلدادہ اور آمریت کے خلاف ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہوئی ہے آج یہی وجہ ہے کہ مُلک میں جمہوریت کی آبیاری کے لئے آمریت کے خلاف لڑتے لڑتے پی پی پی کے حصے میں ہربارہی شہادت کے درجات آئے ہیں یوں دِنوں ن لیگ جس جمہوریت کی علمبرداربنی دکھائی دیتی ہے اِسے یہ جمہوریت بھی( انمٹ اور ہمیشہ تاباں رہنے والی) پی پی پی کی قربانیوں کی ہی مرہونِ منت ملی ہے۔

اِس تو انکارکسی بھی صورت ممکن ہی نہیں ہے کہ مُلک میں جمہوریت کے لئے شہید ذوالقفارعلی بھٹو اور شہیدِ رانی وفاق زنجیر و عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کی نشانی محترمہ بے نظیربھٹوجیسی عظیم شخصیت کی شہادت نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مُلک کے لئے سرمایہ افتخار ہیں بلکہ دُنیامیں جہاں کہیں بھی جمہوریت کی تاریخ کی کتابوں کے ابواب لکھے جائیں گے اُن میں بھی شہیدذوالفقارعلی بھٹواور بے نظیرکی شہادتوں کی داستانیں سُنہرے حروفوں درج ہوں گیں اوراِنہیں دنیاجمہوریت کے لئے ہمیشہ عظیم سرمایہ تصورکرے گی ۔

آج کم ازکم میرے دیس پاکستان میں تو جمہوریت کی نشونماکے لئے ذوالفقار علی بھٹواور بینظیر بھٹوکی شہادتوں کو مُلک کے کسی بھی کونے سے کبھی بھی کوئی سیاسی ومذہبی جماعت اورکوئی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے چیلنج نہیں کرسکتاہے،اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اَب حکمرانوں اور سیاستدانوں میں اتنی ہمت اور دم خم بھی تو نہیں رہاہے کہ وہ سیاست میں قومی خزانے سے حاصل ہونے والی دولت کی چکاچوندکو چھوڑکر خالی خولی اے وئیں جمہوریت کے لئے کسی آمرسے لڑتے ہوئے بھٹواور بے نظیرکی طرح اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیں جبکہ دورِ مشرف میں ایساایک موقعہ ہمارے موجودہ وزیراعظم عزت مآب جنابِ محترم میاں محمدنوازشریف کے ہاتھ بھی تو آیاتھا جو اِنہوں نے گنوادیاتھاحالانکہ تب نوازشریف چاہتے تو یہ مُلک میں اُس وقت کی لولی لنگڑی ہی صحیح پرجمہوریت اور اپنی جیسی تیسی حکومت کی بساط پلٹے جانے پراُس دورکے مشرف جیسے آمرسے لڑتے اور لڑتے اپنی جان دے دیتے اور شہیدذوالفقارعلی بھٹواور شہیدرانی بینظیربھٹوکی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ بھی امرہوجاتے مگر اُس وقت اِنہوں نے ایسانہیں کیااور مشرف سے ایک خفیہ معاہدہ کرکے دس سال کے لئے سرزمینِ حجاز سعودی عرب چلے گئے یہ بھی نہ صرف پاکستانیوں بلکہ ساری دنیاکو معلوم ہے کہ مشرف نے اُس وقت کے ہمارے جمہوری حکمرانوں کی جمہوری حکومت کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاتھاحالانکہ ہمارے اُس وقت کے جمہوری حکمران حق پر تھے مگر پھر بھی اِنہوں نے مشرف سے ٹکرلینے کے بجائے اِسی میں اپنی عافیت جانی کے آمر سے جمہوریت بچانے کے چکرمیں لڑتے لڑتے کہیں ذوالفقارعلی بھٹوشہیداورشہید بے نظیربھٹوکی طرح اِنہیں بھی کہیں مشروف جیساآمرقصہء پارینہ نہ بنادے ،یو ں اُس وقت کے ہمارے حاکم الوقت( دوسری بارکے وزیراعظم نوازشریف )آمر جنرل (ر) پرویز مشرف سے ایک معاہدے کے تحت دس سال تک کے لئے مُلک بدر ہوگئے ۔

بہرحال ..!!اُس وقت جو ہوااور جیساکہااور سُناکیاگیاسب ٹھیک ہی ہوااور آج الحمدﷲ ..!!مُلک میں اُن ہی مشرف کے ہاتھوں مُلک بدریا جلاوطن کئے جانے والوں کی ایک جیتی جاگتی حقیقی جمہوریت کے ثمرات روزِ روشن کی طرح مُلک کے کونے کونے میں جگمگارہے ہیں اور مُلک بھی لڑکھڑاتے بل کھاتے اپناآپ سنبھالتے آہستہ آہستہ رینگتاہواخود کوجمہوریت کے سہارے اپنی کوکھ میں چھپے دہشت گردوں اورکرپٹ عناصر کا قلع قمع کرتے ہوئے اپنی اصل منزل کی جانب چل پڑاہے۔

بیشک..!! جس کا ساراسہراموجودہ وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے سرجاتاہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اگریوں ہی آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن سمیت مُلک بھر میں دہشت گردوں اور سیاسی اور قومی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز بیوروکریٹس کی صورت میں سول اداروں میں بیٹھے لوٹ مارکرنے والے( لڈن پپو) کرپٹ عناصرکے خلاف کارروائیاں جاری رہیں تو ملک بہت جلد دہشت گردوں اور ظاہر و باطن نظرآنے والے کرپٹ عناصر اور مُلک اور قوم اور قومی خزانے کو نقصانات پہنچانے والے ناسُوروں سے پاک ہوکر اپنی نئی سمت کا تعین کرلے گااور پھرہر طرف سے ایک حقیقی اور دورِ جدید کے نئے پاکستان کی مثبت انقلاب آفرین صدائیں بلند ہو رہی ہوں گیں ۔

بہرکیف ..!!اِس انکارنہیں ہے کہ پی پی پی کے سربراہان شہیدذوالفقارعلی بھٹواور محترمہ بے نظیربھٹوصاحبہ کی شہادت مُلک میں جمہوریت کے لئے آمررہیں گیں جن کی شہادت پر کسی کو انگلی اُٹھانے اور شک کرنے کی ضرور ت نہیں ہے اگر آج کوئی مُلک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کے لئے شہیدذوالفقار علی بھٹو اور شہیدِ رانی محترمہ بے نظیربھٹوکی شہادت پر اپناسیاسی قدبڑھانے کے لئے شک کرتاہے یا یہ کہتاہے کہ پی پی پی دہشت گردوں سے ملی ہوئی ہے، تومعذرت کے ساتھ ایسے قدکے سیاسی ٹٹوؤں کو اپنی اصلاح ضرورکرلینی چاہئے..اِس پر میں یہ کہناچاہوں گاکہ اوربس سب کچھ(پی پی پی پر لگائے جانے والے دیگرالزامات اور شک وشبہات لاکھ) ٹھیک ہوسکتے ہیں اور پی پی پی میں لاکھ ناقابلِ برداشت بُرائیاں مزیدہوسکتی ہیں مگرپھربھی میں اتناضرورکہوں گاکہ پی پی پی کسی بھی حوالے سے دہشت گردوں سے نہیں مل سکتی ہے آج اگرواقعی ایساہے جیساکہ کہاجارہاہے کے پی پی پی دہشت گردوں یا مُلک دُشمن عناصر سے رابطے میں ہے یا اِن کی کسی نہ کسی طرح سے مددکررہی ہے تو پھرحکومت کو چاہئے کہ پی پی پی کے خلاف بھی ایساہی سخت ترین ایکشن لے جسطرح حکومت دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر کے خلاف کارروائی کررہی ہے اِس میں پھرکوئی دیر نہ کی جائے ورنہ سب کچھ چوپٹ ہوجائے گا۔

اگرچہ گزشتہ انتخابات میں ناکامی کا سامناکرنے کے بعد اِن دِنوں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کوشدت سے یہ احساس ہونے لگاہے کہ اگر موجودہ حالات میں چیخ چلّاکربھی پارٹی امیج کو نہ بڑھایاگیاتوکہیں اگلے جنرل انتخا بات سے قبل پی پی پی کی رہی سہی سیاسی بساط بھی نہ لپیٹ دی جائے آج اپنے اِسی احساس اور سُبکی کو ختم اوردورکرنے کے لئے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر کارکنان اور جیالوں کی سطح تک کے لوگ باہم متحدو منظم ہوکر مُلک بھر میں ن لیگ کی موجودہ حکومت کو تنقیدکا نشانہ بناکراپنے اپنے وجودکے ساتھ آکسیجن پرپڑی پی پی پی کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں سرگرمی سے مصروفِ عمل دِکھائی دیتے ہیں۔

آج اگلے عام انتخابات میں ن لیگ سے مقابلہ کرنے کے لئے پی پی پی نے یہ راستہ ڈھونڈاہے کہ موجودہ حالات میں ن لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے مفاہمت اور افہام وتفہیم کی پالیسی کو ترک کردیاجائے اور حقیقی سیاسی حریف کے روپ میں سامنے آکر پی پی پی کا وہ چہرہ روشناس کیاجائے جِسے پچھلے اقتدارکے دوران پی پی پی چھوڑچکی تھی یوں پچھلے کسی دِنوں اِسی حکمتِ عملی پر عمل شروع کردیاگیاہے اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت بھرپورطریقوں سے اپنی اِس غیرمفاہمت پسندانہ اور حقیقی سیاسی حریفوں والی پالیسی پر عمل پیراہے اِس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ابتداء پہلے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے خطابات اور پریس کانفرنسز سے کردی ہے اور اَب جِسے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو تیزی سے مزیدآگے بڑھانے کا بیڑااپنے کاندھوں پر اُٹھانے کا عزم کرکے میدانِ سیاست میں اپنی نوجوانی کے بھرپورجوش اور جذبے کے ساتھ گودپڑے ہیں ۔

گزشتہ دِنوں جس کا اظہارپاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹونے لاہورمیں ورکرزکنونشن سے خطاب کے دوران کچھ یوں کیاکہ’’پنجاب پر مسلط لوگ عوام کے لئے عذاب سے کم نہیں ، لاہورکو دہشت گردوں کے یاروں کے حوالے کردیاگیاہے،‘‘ اِس موقع پر اِن کا یہ دعویٰ تھاکہ ’’آپریشن ضرب عضب ہم نے 7سال پہلے سوات میں شروع کیاتھا،کشکول توڑنے کی دلکش اور دلفریب باتیں کرنے والے آج قرضہ لے کر بغلیں بجارہے ہیں ‘‘جیسے اپنے خطاب میں بلاول نے ورکرز سے پوچھاکہ’’ 6ماہ میں بجلی لانے کا چیخ چیخ کروعدہ اور بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو کس نام سے پکاروں..؟؟مُلک نے بھی اور ہم نے بھی آپ کی گڈگورننس دیکھ لی‘‘ نندی پورکے حوالے سے نیب کی کارکردگی پر بلاول کاکہناتھاکہ’’نندی پورمعاملے پر نیب کی ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں، اَب وقت تبدیل ہوچکاہے، حکمران اپنی سمت دُرست کرلیں، آنے والاوقت عوام کا ہے، موٹروے اور میٹرو کے نام پر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایاجاسکتاہے، غریبوں کی کمائی ن لیگ والے لوٹ کرلے جاتے ہیں، پی آئی اے ،اسٹیل ملز اور دیگر اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچاجارہاہے،مگر ہم ایسانہیں ہونے دیں گے‘‘(جبکہ بلاول کا اداروں کی فروخت کے حوالے سے جذباتی خطاب توٹھیک ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی خود بھی قومی اداروں کی نج کاری کی حامی ہے جس سے متعلق پی پی پی اور حکومت میں گٹھ جوڑہے)اپنے خطاب میں بلاول زرداری بھٹونے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ’’حکمرانوں کو جوکرناہے وہ سیاسی انتقام سے نہیں بلکہ عدل اور انصاف سے کریں،کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنائیں‘‘ اِن کا کہناتھاکہ ’’ انتقام کی سیاست کی روش ختم کی جائے،ہم شہیدوں کے وارث ہیں اور ہم پر ہی دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں‘‘(اُوہ..!!میرے یاربلاول..!!اِس پر غصہ کرنے یامفاہمت کی اپنی ازلی اور دائمی پالیسی کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کے بجائے اِس کا مقابلہ کرو، کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرورہوگاہی جس سے متعلق الزامات لگائے جارہے ہیں تمہاری تو پکی اور سچی سیاسی جماعت ہے اِس الزام پر ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں سامناکرواور ڈٹ کر مقابلہ کرو اور عدالت سے رجوع کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردو) اپنے اِسی خطاب میں بلاول کا کہناتھاکہ’’ وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قوم ایک صفحے پر ہے ‘‘ جیسے بلاول نے اپنے خطاب میں وزیراعظم کو طعنہ دیتے ہوئے کچھ یوں یاددلانے کی کوشش کی کہ’’شایدوہ بھول گئے ہیں کہ میں نے ہی سب سے پہلے مذاکرات کے وقت دہشت گردوں کو للکاراتھا‘‘یوں اِن کا کہناتھاکہ ’’ درحقیقت حکمراں اَب میرے پیج پرآئے ہیں‘‘ اور بلاول نے اپنے خطاب کا جیسے اختتام اِس جملے پر کیاکہ’’ کشمیر کی بات نہ کرنے والے سے مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔

اِس میں شک نہیں ہے کہ لاہورمیں منعقدہ پارٹی ورکرزکنونشن میں پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری بھٹوکی تقریر کسی پکے اور استاد اور جوشیلے جیالے نے لہوکو گرمادینے والی تقاریرلکھنے کے ماہر جیالے نے تقریر لکھی تھی مگراِس تقریر کو صرف بلاول زرداری بھٹونے اسٹیج سے پڑھی تھی یہاں میں یہ عرض کرتاچلوں کہ جس نے بھی بلاول زرداری بھٹوکویہ تقریر لکھ کرپڑھنے کے لئے دی تھی کم ازکم اُسے تو خیال کرناچاہئے تھاکہ وہ تقریرلکھتے وقت حکمران جماعت کا خیال رکھ لیتااور کم ازکم بلاول جیسے بھولے بھالے معصوم بچے سے تو ایسی جذباتی اور بھڑکیلی تقریرنہ کرواتاجِسے ابھی سیاسی میدان میں کودے ہفتہ ہفتہ آٹھ ہی دن ہوئے ہیں،کسی اور کی لکھی ہوئی تقریرپڑھنے سے پی پی پی والے خود یہ سوچیں کہ بلاول کا کیساامیج گیاہے...؟؟۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971503 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.