ضمیر
(rafi ullah, quaid abad khushab)
راستہ بلاک ....روڈ پر گاڑیوں کی
ایک لمبی قطار...........اگست کی گرمی.... اور گھٹن......... میلے کچیلے
کپڑوں والی عورت کالی چادر اوڑھے گود میں بچہ اٹھائے گاڑی کے پاس آئی.....ہاتھ
کے اشارے سے بچے کے لیئے بھیک مانگی........ بچہ ماں کے اس عمل سے نا آشنا
کھائی ہوئی چھلی کو چبا رہا تھا..........کچھ منظر دل پر نقش ہو جاتے ہیں....
اور درد کی وہ لہر ہر بار ماضی کے زکر سے و جود میں دوڑ جاتی ہے.................پچاس
روپے اس کو تھما دیئے.... وہ اگلی گاڑی کی جانب بڑھ گئی............ گاڑی
میں موجود سیٹھ صاحب ........تمہارے شوہر کیا کرتے ہیں.......جی وہ اب نہیں
ہیں................میں مجبور ہوں ورنہ بھیک مانگنا میرا شوق نہی.... شاید
مقدر بن چکا..........سیٹھ صاحب نے غور سے دیکھا... چہرے مہرے سے حساب کتاب
لگا کر کہا ....ہمارے پاس کام کرو............ بہت کچھ ملے گا.......
صاب.........ضمیر کا سودا تو میں کر چکی ہوں... اب آپ عزت کا سودا بھی
کروانا چاہتے ہیں..................
قارئین ماضی میں تباہ و برباد ہونے والی قومیں بھی..... نادار بے کس مجبور
لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتیں....... آج جب ایسے واقعات پیش نظر ہوتے
ہیں تو.... خوف خدا سے وجود میں تھرتھڑاہت ہونے لگتی ہے ایسا نہ ہو آسمان
ٹوٹ پڑے یا زمین نگل جائے
|
|