کراچی کے لیے 150ارب روپے کا پیکج ۔ نیک نیتی یا بلدیاتی انتخابات
(Dr Rais Samdani, Karachi)
پاکستان میں سیاسی پنڈتوں کی
پرانی عادت ہے کہ جیسے ہی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے وہ اپنی معصوم عوام
کو مختلف قسم کے لالی پاپ دینے کی کوشش مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، اقتدار
میں موجود سیاست داں کیوں کہ حکومت وقت ہوتے ہیں اس لیے وہ حکومت کی جانب
سے عوام کی فلاح کے اعلانات کرتے ہیں ، وہ سیاسی سورما جو حکومت میں آنے کے
لیے پھڑ پھڑا رہے ہوتے ہیں waiting for the government ہوتے ہیں وہ محض
مستقبل میں ایسے ایسے تیر مانے کی باتیں کرتے ہیں کہ جن کو سن کر حیرت اور
افسوس ہوتا ہے کہ انہیں کچھ شرم و حیا نہیں جس قسم کے وعدے یہ عوام سے کر
رہے ہوتے ہیں ، عوام کو اور خود انہیں بھی یہ معلو ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی
صورت پورے نہیں ہوسکتے۔ بلکہ نا ممکن ہوتے ہیں۔ الیکش 2013 ء کی انتخابی
مہم کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے۔ سمجھ لیجئے کہ آپ کے سامنے ایک بڑی اسکرین
لگی ہوئی ہے اس پر ہمارے سیاست دان عوام سے کیا کیا وعدے کررہے ہیں۔ آپ کو
یاد ہوگا ہمارے خادم اعلیٰ جنہیں حبیب جالبؔ کے بعض اشعار خوب خوب یاد ہیں
کس طرح لہک لہک کر شعر سنایا کرتے تھے، بجلی کا بحران ختم کرنے کا وعدہ یاد
ہے پہلے تین ماہ اور پھر لوگوں نے جھنجوڑا کہ چھوٹے میاں صاحب یہ تسی کی
کررہے ہوانا کم وقت ، کچھ وقت بڑھاؤ تو انہوں نے دو سال کردئے تھے، کہاں
گئے تین ماہ اور دوسال ، سٹرک پرکسی کوگھسیٹنے کی باتیں یادہیں، کہاں گئی
وہ گھسیٹا گھسیٹی ؟ کس پیار سے، محبت سے، آرام سے، مفاہمت سے پانچ سال
صدارت کو پورا کرایا۔ بڑے میاں صاحب قبلہ نواز شریف صاحب کے وعدوں کا بھی
یہی حال ہے۔ ہمارے کپتان کسی سے پیچھے نہیں تھے، ان کا ایک خاص جملہ ہے ’ہم
کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘، الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کو بریف کیس بھر کر
لندن لے کر گئے ، بربانوی عدالت میں پیش کرنے ، کیا ہوا وہ دعویٰ،کہاں گئے
وہ ثبوت، اب ان کی پیروی میں ان کی جماعت کے ایک نومولود فیصل واڈا نے بھی
وہی کچھ کیا، حاصل؟ کپتان کا کہنا تھا کہ کرپشن نہیں کرنے دیں گے ، دوسری
جانب اپنے ہی وزیر کو کرپشن کے الزام میں نکال باہر کررہے ہیں۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کی بھی یہی روایت اور تاریخ چلی آرہی ہے گزشتہ چار دیہائیوں سے۔
جب اقتدار میں ہوں تو سب اچھا ، خوب لوٹو، خوب بناؤ، خوب مزے اڑاؤ ، جب
کرسی ڈگمکانے لگے تو ہائے بیچاری عوام، ہائے بیچاری عوام۔ غریب عوام نظر
آنے لگتی ہے۔ ان کا درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ عام انتخابات میں تو ابھی دو
ڈھائی سال ہیں، کوئی معجزہ ہی ہوجائے کہ انتخابات وقت سے پہلے ہوجائیں۔
البتہ دھرنوں کے دنوں میں آسار نظر آرہے تھے کے تیسرے امپائر کی نگلی کسی
بھی وقت اٹھ سکتی ہے لیکن وہ وقت نواز لیگ کے لیے ساتھ خیریت سے گزر گیا۔
اب جس قسم کے خدشات ، اقتدار حاصل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، عوام کے لیے
فلاحی منصوبوں اور پیکجیز سامنے آرہے ہیں ان سے کچھ کچھ اشارے مل رہے کہ
سیاست میں کسی وقت بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ میاں صاحب کو کچھ نظر آراہ ہے، اسی
لیے تو ڈر و خوف ہے۔اب حالات کچھ بھی ہوں،حکمرانوں کو مستقبل قریب جو کچھ
بھی ہوتا نظر آرہا ہو ، وہ اس ڈر و خوف کے پیش نظر یا اپنے اقتدار کو بچانے
کے پیش نظر، مخالفین کو اپنے مقام پر رکھنے کی وجہ سے اگر عوام الناس کی
فلاح و بہبود کے لیے کسی بھی قسم کے منصوبے یا پیکچ کا اعلان کرتے ہیں اور
اس پر ایمانداری سے عمل درآمد ہوتا ہے تو اس سے اچھی کوئی اور بات نہیں۔
غریب عوام کی بہبود کے لیے ہر طرح کے اقدامات ہونے چاہیے۔وہ قابل تعریف اور
عوام کے لیے احسن اقدام ہوگا۔
اس تمہید کے بعد اب اصل موضوع پر کچھ بات ہوجائے کہ کراچی ایک ایسا منفرد
شہر اور ایسے باسیوں کا شہر ہے کہ جسے کوئی حکومت، یا سیاسی جماعت آج تک
اون نہیں کیا۔ یہ شہر پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور کماکر دینے والا شہر
ہے، اعداد و شمار بتاتے ہیں ملک کی کل آمدنی کا ساٹھ فیصد یہ شہر دیتا ہے۔
اب اس کی تاویلیں مختلف لوگ مختلف دیتے ہیں کچھ کہہ دیتے ہیں یہ ساٹھ فیصد
صرف کراچی نہیں کماتا بلکہ اس میں دیگر شہروں کے تاجروں کا حصہ بھی شامل
ہوتا ہے۔ کچھ بھی صحیح کراچی حکومتی آمدنی کا ہمیشہ سے سب زیادہ کماؤشہر
رہا ہے اور ہے۔ اس کے مقابلے میں کراچی پر کس کی کتنی توجہ رہی یہ بتانے کی
ضرورت نہیں۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پنجاب کی حکومت نے سب سے زیادہ لاہور
کی ترقی پر توجہ دی، یقین نہ ہو تو پرانے لاہور کو دیکھ لیجئے اور موجودہ
لاہور کی سیر کر آئیں ۔ پتا چلتا ہے کہ اس شہر کو کسی نے اون کیا ہوا ہے ،
اس پر توجہ دی ہوئی ہے، اس پر ترقیاتی کام ہوا ہے۔ اون کرنا یہ ہوتا ہے کہ
وہاں ترقی نظر آئے ۔زبانی جمع خرچ کرنے سے آپ کسی شہر کو اون نہیں کرسکتے۔
یہ اون ہے کہ کراچی لاوارث ، بے یار و مددگار عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ اس
کی سٹرکیں کھنڈر کی کیفیت میں، پانی، بجلی،صفائی ، سیورج، لاقانونیت، چوری،
ڈکیتی، موبائل ، پرس چھیننا، قتل و غارت گری کونسا کام اور جرم ایسا ہے جو
یہاں آزادی سے نہیں ہورہا تھایا کونسا کام ہے جس پر حکومت نے گزشتہ سات
سالوں سے توجہ دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرٔ میں بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے لیے 150ارب
روپے کا ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ہے۔اس پیکج کی تفصیلات ایک پریس کانفرنس
میں سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے پیش کیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ’
پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی کو اون کیاہے اور ہمارے شہید قائد
ذولفقار علی بھٹو اور ان کے بعد ہماری شہید قائد محتر مہ بینظیر بھٹو نے
بھی کراچی کے لیے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے‘۔ بے شک دونوں شہیدوں نے کراچی
ہی کو نہیں بلکہ پورے ملک کو اون کیا اور پورے ملک میں ترقیاتی کام کرائے۔
ناصر حسین شاہ پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیرٔ میں جناب آصف علی زرداری کے
پانچ سالوں کو بھول گئے یا پھر انہوں نے سچائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پانچ
سالوں کوپارٹی کے اقتدار میں شامل ہی نہ کیا ہو۔ سائیں قائم علی شاہ کا بھی
تو ڈھائی سال کو موجودہ دور کس کھاتے میں جائے گا، اسے بھی ناصر شاہ صاحب
بھول گئے ان سات سالوں میں کراچی پر کس قدر توجہ دی گئی۔کس طرح کراچی کو
اون کیا گیا سب کے سامنے ہے۔ کہتے ہیں ناصر شاہ صاحب کہ’ آج بھی ہمارا مکمل
فوکس کراچی پر ہے’۔شاہ صاحب آپ ہی کیا اس وقت تو ہر سیاسی جماعت کا فوکس
کراچی ہے، ہر ادارے کا فوکس کراچی، ایسا لگتا ہے کہ یہ دور کراچی کراچی
کھیلنے کا دور ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز ، جس چینل پر گفتگو سنیں کراچی کی گونج کے
بغیر نامکمل نظر آتی ہے۔ حوالہ کوئی بھی ہو۔ پورا پاکستان دودھ میں نہایا
ہوا ہے صرف کراچی گندگی کا ڈھیر ، برائیوں کا مرکز، مخالفین کا گڑھ، اسی
لیے تو ہمارے وزیراعظم بڑے میاں صاحب نے بھی فرمایا کہ پہلے ’کراچی کو ٹھیک
کرلیں پھر کچھ اور کریں گے‘ درست فرمایا میاں صاحب نے جب تک آپ کراچی کو
ٹھیک کریں گے اس وقت تک آپ کے اقتدار کے پانچ سال مکمل ہوچکے ہوں گئے۔ اﷲ
اﷲ خیر صلہ کراچی کو سدھار نے کی آپ ہیٹرک کر نے جارہے ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے
کہ وہ آپ کو یہ نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ نے تیسری بار
کراچی کو ٹھیک کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے آپ اس میں کامیاب و کامران
ہو۔کراچی کے باسی آپ کے بے انتہا ممنون و مشکور ہوں گئے ، ممنون اس لیے بھی
کہ آپ نے کراچی ہی کے ایک باسی ’ممنون حسین‘ کو ممنون کرکے ریاست کے سب سے
اعلیٰ عہدہ پر بیٹھا دیا۔ اس کے لیے بھی اہل کراچی آپ کے ممنون ہیں۔
بات کراچی پیکج کی ہورہی تھی، یہ پیکج بھی کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے ہی تو
ہے۔ ٹھیک کرنے کے کئی طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ پیکج بھی ہے۔کراچی ایک
طریقے سے بھی ٹھیک ہورہا ہے۔پیکج بھی ایک طریقہ ٹھیک کرنے کا۔ ہم تو اس ایج
گروپ سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کو بہت قریب سے
دیکھا، بینظیر کے دور کو دیکھا، میاں صاحب کے تین ادوار اور کراچی کو ٹھیک
کرنے کے اقدامات ہمارے سامنے ہیں، ضیاء الحق، پرویز مشرف ہی کیا ہم نے تو
ایوب خان کو بھی دیکھا۔ سب نے کس کس طرح کراچی کو ٹھیک کیا ہماری عمر کے
لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
’بلاول کراچی سدھار پیکج‘ کی کل رقم 150ارب روپے ہیں۔اس رقم کو حسب ذیل
مدوں میں کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ کراچی کی سٹرکوں
کے 78 ااسکیموں پر 17364ملین روپے، پل، فلائی اوورز اور کلورٹ کی 10اسکیموں
پر 3803 ملین روپے، کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے لیے 45450ملین روپے(اس
میں کے فور اور ایس تھری پرجیکٹ شامل نہیں)، پارکس اور ہرٹیکلچر
کی17اسکیموں پر 6584روپے ریسکیو 1299برائے کراچی ڈویژن کی تین اسکیموں پر
820روپے، فائر اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی 11 اسکیموں پر18904میلن روپے، نولوں
اور ڈرینج کی 33اسکیموں پر 28175 ملین روپے، پلانٹ اینڈ مشنری کی پانچ
اسکیموں پر 1760 روپے، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی اسکیم کے لیے 4600ملین روپے ،
مختلف سوک سہولیات کی پانچ اسکیموں کے لیے 1980ملین روپے ، ٹرانسپورٹ اینڈ
سی ڈی کی 7اسکیموں پر 12100ملین روپے اور بلاک ایلویشن سمیت دیگر اسکیموں
کے لیے 9000ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ہر اسکیم کے لیے ملین میں رقم
رکھی گئی ہے۔ خدا کرے یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھنداثابت نہ ہو، یہ رقم
ایمانداری سے کراچی کو سدھار نے پر لگ جائے تو کراچی کی قسمت ہی بدل جائے
گی۔ لیکن ماضی کی تاریخ تو کچھ اور ہی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کراچی کو
ترقی دینے کی، سدھار نے کی اور اسے اون کرنے کی یہ عملی کوشش نیک فعال ثابت
ہو، یہ دکھاوا نہ ہو، کاغذی کورکھ دھندا نہ ہو، بلدیاتی انتخابات کے لیے
کشش نہ ہو، سیاسی اعلان نہ ہو حقیقی معنوں میں شہر کراچی کی ترقی مقصود ہو۔
پیکجوں کا زمانہ شروع ہوچکا ہے، سندھ میں کراچی سدھار پیکج کے بعد وزیراعظم
میاں نوازشریف نے ملک میں رزاعت اور کاشتکاروں کی فلاح کے لیے 341ارب روپے
کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں، کیا یہ بھی پنجاب میں
بلدیاتی انتخابات سے جڑے مقاصد کا حصہ ہے یا واقعی نون لیگ کسانوں کی ہمدرد
و غمخوارہوگئی ہے، اسے ڈھائی سال کے اقتدار کے بعد کسانوں کی زبوں حالی کا
خیال آیا، جس طرح سندھ حکومت کو طویل عرصہ گزرجانے کے بعد کراچی کی حالت کا
خیال آیا اور بلاول بھٹو زرداری نے امدادی پیکچ کا اعلان کیا۔ اس طرح کے
پیکجیز ماضی میں اعلان کیے جاتے رہے ہیں۔ کراچی پر ان پیکجوں کا کبھی کوئی
اثر نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے ایک سابقہ کالم میں جو کراچی میں200 سے زیادہ
ہلاکتوں پر تھا لکھا تھا کہ کراچی کا اپنا ایک منفرد مزاج ہے، عمل ہے، سوچ
ہے اس پر وہ قیام پاکستان سے آج تک عمل پیرا ہیں۔ایوب خان نے سر توڑ کوشش
کی کہ کراچی کو اپن بنا لیں پر کراچی والے تومتحرمہ فاطمہ جناح کے دیوانے
تھے۔ انہوں نے گلاب کے پھول کے مقابلے میں لالٹین کی روشنی کو بلند کیا ،
گلاب کے پھول کی خوشبو انہیں ایک آنکھ نہ بہائی۔ بھٹوصاحب کا جادو سر چڑھ
کر بولا ، پورے ملک میں جئے بھٹو جئے بھٹو کی سدائیں گونجیں ، انہوں نے
کلین سوئیپ کیا لیکن کراچی نے نو ستاروں کو جگمگایا، شاہ احمد نورانی قبلہ
اور ان کی چابی کو جنت کی جابی تصور کرتے ہوئے انہیں اپنا رہبر بنا لیا۔ اس
سے بھی پہلے کی تاریخ اگر یاد ہو تو کراچی کے رہنما جماعت اسلامی کے
پروفیسر غفور احمدمرحوم اور پروفیسر محمود اعظم فارقی مرحوم ہوا کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی سیاست میں الطاف حسین پیدا بھی نہیں ہوئے تھے،
ایم کیو ایم نام کی کوئی چیز دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھی۔ اس وقت بھی
کراچی کا اپنا ایک الگ رنگ ، الگ مزاج اور منفرد سیاسی مزاج تھا۔ الطاف
بھائی نے سیاست میں قدم رکھا ،ایم کیو ایم وجود میں آئی تو انہوں نے کراچی
پر ایسا جادو کیا کہ لوگ انہی کہ ہورہے۔ ان کی جماعت کراچی کی نمائندگی
گزشتہ دو دیہائیوں سے زیادہ عرصہ سے کررہی ہے۔ سیاست کا یہی تو حسن ہے، کسی
بھی سیاسی جماعت پر جس قدر ظلم و زیادتی ہوتی ہے عوام کی ہمدردیاں اس سے
اور زیادہ ہوجاتی ہیں۔یہ پیکج کیا کوئی کام دکھا سکیں گے۔ اگر ان پیکجوں نے
یہ کام دکھا یا کہ کراچی میں حقیقی طور پر سدھار کے آثار بھی نظر آنے لگے،
جن منصوبوں کے لیے اربوں کی رقم مختص کی گئی ہے وہ ان منصوبوں پر لگتی نظر
آئی، کراچی کی سٹرکیں بنتی نظر آئیں، پل، فلائی اوورز اور کلورٹ بنتے
دکھائی دیے ، واٹر اینڈ سیورج بورڈمیں ایمانداری دکھائی دی، پانی کراچی کو
ملتا نظر آیا، واٹر بورڈ کے وال مین جو بھتہ خوری میں ملوث ہیں ان کی بھتہ
خوری بند ہوئی، پارکوں کی حالت بہتر ہوئی ، نئے پارک بنائے گئے،
ریسکیو 1299برائے کراچی ڈویژن کو فعال ہوتے دیکھا، فائر اینڈ ڈیزاسٹر
مینجمنٹ کی اسکیموں پررقم ایمانداری سے خرچ کی گئی اور دیگر اسکیموں پر رقم
ایمانداری سے خرچ ہوتی نظر بھی آئی تو پیپلز پارٹی کو فائدہ ہی ہوگا نقصان
نہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کسی ٹی وی ٹاک شو میں بڑی سچائی
کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا کہ کراچی پیکج اس لیے نہیں دیا گیا کہ اس سے
پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخاب میں سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے انہوں نے کہا
کہ میں بلدیاتی انتخاب میں بہت زیادہ تبدیلی پھر بھی نہیں دیکھ رہا تھوڑا
بہت ادھر یا ادھر ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سچائی ہے جسے ہمارے سیاست دان کہتے ہوئے
ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی قیادت ان سے ناراض نہ ہوجائے۔ سعید غنی جیسے مثبت
اور صحیح سوچ کے حامل سیاستدانوں کی ہی ہمیں ضرورت ہے۔ سچ کو سچ، غلط کو
غلط کہنے کی ہر سیاسی کارکن میں جرأت اور ہمت ہونی چاہیے۔ قیادت کے ڈر و
خوف سے جینا گو یا درباریوں کے طرز عمل کے مِصداق ہے۔(18ستمبر2015) |
|