مکافات ِعمل؍ایم کیو ایم
(Mir Afsar Aman, Karachi)
آج ہم نے تین نجی ٹی وی پروگرام
دیکھے ہیں جن میں ایم کیو ایم کے نمائندے شامل تھے۔اور فیس بک پر بھیجی گئی
ایک پوسٹ دیکھی ہے ان تینوں کا تجزیہ کرنا مقصود ہے۔ ایک وقت تھا کہ نجی ٹی
وی الطاف حسین صاحب کی اللی تللی تقاریر خوف کی وجہ سے نشر کرتے تھے۔الطاف
حسین کبھی پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرتے،کبھی چورن لے لو کی باتیں
کرتے،کبھی مٹک مٹک کرگانے گاتے ،کبھی قرآن شریف اُٹھا کر قسمیں کھاتے
تھے۔اپنی تقریر میں الطاف حسین نے اسلام ، علماء، تاریخ،عدلیہ،مسلح افواج،
ملک کی سیاسی پارٹیوں،غیر ملکوں،میڈیا،اپنے قریب کے اتحادیوں،بانیِ پاکستان
حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے متعلق ایسی باتیں کیں تھی کہ جیسی باتیں
سپر پاور امریکہ کا صدر بھی نہ کہہ سکتا ہو کیوں کہ چومکھی محاذ تو کوئی
عقل مند آدمی کبھی بھی نہیں کھولتا مگرنہ جانے کون سی پوشیدہ قوت الطاف
حسین سے ایسی تقریریں کرواتی رہی ہے۔جب الطاف حسین نے اپنی آخری تقریروں
میں فوج کو گالیں دیں، را سے مدد طلب کی، کارکنوں کو کلفٹن گراؤنڈ میں
روزانہ جاکر اسلحہ چلانے کی تربیت کا کہا، ۹۰؍ پر آپریش کرنے والے رینجرز
آفیسر کے لئے کیا کہ جو ہیں وہ تھے ہوجائیں گے، نیٹو فوجوں کو دعوت دی اور
کارکنوں کو اقوام متحدہ سے مدد کے لیے کہا تو الطاف حسین بھول گئے ایک جیسا
وقت ہمشیہ نہیں رہتا۔اب وہ وقت گزر گیا جب بڑے بڑوں کے دِلوں میں آپ کا خوف
بیٹھ گیا تھا۔ پھر پانی حد سے گزر گیا اور ان تقاریروں پرملک کے ہر شہر میں
الطاف حسین پر مقدمات ہوئے ۔ لاہورہائی کورٹ نے حکم جاری کیا کہ الطاف حسین
کی کسی قسم کی بات پاکستان کے ٹی وی اسٹیشنوں پر نہ دکھائی جائے اسی حکم کی
روشنی میں پیمرا نے احکامات جاری کئے ۔ اس کے رد عمل میں ایم کیو ایم کے
ممبران نے قومی صوبائی اور سینیٹ استعفے دے دیے۔ جب یہ کارڈ کامیاب نہ ہوا
تو اپنے چار مبینہ کارکنوں کے قتل پر سندھ میں سوگ منانے ،کاروبار بند
رکھنے اور ٹرانسپورٹ کو بند رکھنے کی اپیل کی۔ جس پر رینجرز نے بر وقت نوٹس
لیتے ہوئے پریس میں بیان جاری کیا اور عوام سے ہڑتال نہ کرنے اورٹرانسپورٹ
کو چلانے کو کہا جس پر عوام نے عمل کیا اور ہڑتال کی اپیل کو پہلی دفعہ
سندھ کے لوگوں نے رد کر دیا۔ حسب معمول ایم کیو ایم کے کچھ دہشت گرد
دکانداروں کو ذبردستی کاروبار بند کرنے کے لیے نکلے تو انہیں رنگے ہاتھوں
رینجرز نے گرفتار کر لیا اور کہا کہ قانون کے مطابق ان کو عدالتوں میں پیش
کیا جائے گا۔ جب اپنے کئے کی سزا ملی اور پہلی بار ہڑتال کامیاب نہ ہوئی تو
ٹی وی پروگراموں الزام تراشی شروع کر دی گئی۔ ایک ٹی پروگرام میں ایم کیو
ایم کے مرکزی راہنما جو استعفوں کے معاملے میں ایم کیو ایم کی نمائندگی کر
رہے تھے سے ٹی وی کے ایک مشہور و معروف اینکر نے ہڑتال کامیاب نہ ہونے پر
بات کی تو وہ اس سے خفا ہو گئے۔ ٹی وی اینکر نے کہا آپ مجھ سے خفا کیوں
ہوتے ہیں۔ میں نے تو سوال کرنے ہوتے ہیں جو میں آپ سے کر رہا ہوں اور یہ
حقیقت ہے کہ آپ کی ہڑتال کی کال پر پہلی دفعہ کسی نے کان نہیں دھرا۔ ٹی وی
اینکر نے سوال کیا کہ آئندہ بدلیاتی پروگرام میں آپ کہاں کھڑے ہیں اینکر کے
اس سوال کا جواب دینے کی بجائے ایم کیو ایم کے نمائندے کہنے لگے ہمیں ٹی وی
والوں سے شکایت ہے کہ آپ نے ہماری اتوارکی ریلی کو مناسب کوریج نہیں دی اور
معلوم نہیں یہ آپ نے کس کے کہنے پر کیا؟اس پر ٹی وی اینکر نے اُن کو کھرا
اور دو ٹوک جواب دیا اور کہا اس بات کو چھوڑیں کہ اس سے قبل کس کے کہنے پر
ٹی وی والے آٹھ آٹھ گھنٹے ایم کیو ایم کے پروگرام نشر کرتے تھے اور اب کس
کے کہنے پرنہیں کررہے اور پروگرام کو آگے بڑھا دیا۔ یہ مفاکاتِ عمل نہیں تو
کیا ہے ؟دوسرے پروگرام میں بھی ٹی وی پروگراموں میں اکثر آنے والے ایم کیو
ایم کے ممبر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے کراچی کے آرگنائزر میں بحث ہو
رہی تھی اپنی بات مکمل کر لینے کے بعد تحریک انصاف کے نمائندے کے جواب پر
بار بار ایک ہارے ہوئے فرد کی طرح فرسٹریشن میں مبتلا بار بار مداخلت کر
رہے تھے ۔تحریک انصاف کے نمائندے اینکر سے بار بار کہتے رہے کہ مجھے بھی تو
بات کرنے دیں اور ان کو روکیں یہ کیوں ناجائز مداخلت کر رہے ہیں۔ اینکر کی
درخواست پر فرسٹریشن میں مبتلا ایم کیو ایم کے نمائندے اینکر سے بھی ا
لجھتے بھی رہے اور تحریک انصاف کے نمائندے کو اپنا موقف بیان نہیں کرنے
دیا۔ اینکر نے اُن سے شکایت کی کہ آپ نے میرے مہمان کو بات نہیں کرنے دی۔
بلا ٓخر احتجاج کرتے ہوئے تحریک انصاف کے نمائندے پروگرام سے واک آؤٹ کر
گئے۔ کیا مہذب معاشرے میں بحث و مباحثے کا ایسا طریقہ ہے کہ دوسرے کو اپنا
نقطہ نظر پیش ہی نہ کرنے دیا جائے۔ یہ مفاکاتِ عمل عمل نہیں تو کیا
ہے؟تیسرے ٹی وی پروگرام میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے ہڑتال
پر بات ہو رہی تھی کہ اس دفعہ پہلی بار ایم کیو ایم کی ہڑتال کامیاب نہیں
ہوئی اس پر ایم کیو ایم کے نمائندے نے دبے لفظوں اس کااقرار تو کیا کہ ہاں
ہڑتال کامیاب نہیں ہوئی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ عذر پیش کیا کہ رینجرز نے
ذبردستی دوکانیں کھلی رکھنے اور ٹرنسپواٹ کو چلانے کا کہا تھا اس لیے
دوکانیں کھلی رہیں اورٹریفک رواں دواں رہی۔ رینجرز کی ایک فوٹیج کا بھی ذکر
کیا کہ پٹرول پمپ بند تھا اور رینجرز نے ذبردستی کھلوایا۔ ٹی وی اینکر نے
جواب دیا کہ بھائی پٹرول پمپ کا عملہ وہاں موجود تھاخوف کی وجہ سے پٹرول
پمپ کھول نہیں رہا تھا جب رینجرز نے ان کا خوف دور کر دیا تو انہوں نے
پٹرول پمپ کھول دیا اگر پٹرول پمپ والے گھر سے نہ آتے اور وہاں کھڑے نہ
ہوتے تو پھرآپ کی بات درست ہوتی کہ وہ ہڑتال پر ہیں ۔یہ ایم کیو ایم والوں
کے طرف سے میں نہ مانوں والی باتیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ یہ مفاکاتِ عمل
نہیں تو کیا ہے؟ فیس بک پر پوسٹ کا ذکر کریں تو کچھ اس طرح ہے کہ پوسٹ
بھیجنے والے نے کہا کہ اُس نے ٹی وی پروگرام دیکھا ہے اور کہا کہ ٹی وی
پروگرام میں فرسٹریشن کا شکار ایم کیو ایم کے نمائندے جو ۱۲؍ مئی میں کراچی
شہر میں کنٹینر لگا کر شہر بند کرنے والے صاحب تھے نے جماعت اسلامی کے امیر
صوبہ سندھ سے گھٹیا انداز میں باتیں کیں تھی کیا یہ کسی مہذب شخص کا شیوا
ہو سکتا ہے؟ ہاں جس لسانی تنظیم کا سربراہ اپنے ہی ملک کی فوج کو گالی دے
سکتا ہے اس تنظیم کے نمائدے اخلاق سے کھری ہوئی باتیں بھی کر سکتے ہیں بہر
حال جماعت اسلامی کے نمائندے نے بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمال صبر
اور برداشت کا مظاہرہ کیا ۔
قارئین ایک زمانہ تھا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو یرغمال بنایا ہوا تھا اور
آج یہ عالم ہے کی میڈیا سے شکایت کر رہے ہیں۔ اخبارات کی سرخیاں ایم کیو
ایم کے نمائندے اخبارات کے دفاتر میں بیٹھ کرلکھواتے تھے کسی اخبار والے کی
مجال نہیں تھی کہ وہ ایم کیو ایم کے نمائندے کی ترتیب دی ہوئی سرخی کو
بدلنے کی جرأت کرتا۔ ایم کیو ایم کے کہنے پر سرخیاں نہ لگانے والوں کے
اخبارات کے دفاتر پر حملے ہوتے تھے ان اخبارات کو جلا ڈالتے ان کو تقسیم نہ
کرنے دیتے اس بات کا اظہار ایک مشہور اخبار کے مالک اور ٹی وی پروگرام ڈی
این اے میں گروپ ڈسکشن میں بھی کیا تھا۔یہ پروگرام ہم نے خود دیکھا ہے۔
ہمیں وہ دن بھی یاد آرہے ہیں کہ کراچی کی ایک بڑی سیاسی قوت جس نے تین بار
کراچی پر رائج کیا ہے جو ایم کیو ایم کے شباب کے دنوں میں بھی ان کو
للکارتی رہی ہے اس کی خبروں اور بڑی بڑ ی ریلیوں کا پرنٹ اور الیکٹرونک
میڈیا ایم کیو ایم کے خوف کی وجہ سے بلیک آؤٹ کرتا تھااور وہ اس پر احتجا ج
کیا کرتے تھے آج مکافاتِ عمل کو دیکھیں کہ ایم کیو ایم اسی پوزیشن میں آ
گئی ہے۔ کیا کیا جائے لوگ اکثرطاقت اور غنڈا گردی کے نشے میں یہ بھول جاتے
ہیں کہ ہمیشہ کے لیے اﷲ کی ذات ہے باقی سب کچھ ختم ہو جانے والاہے۔ آج ایم
کیو ایم اسی مکافاتِ عمل سے گزر رہی ہے۔
|
|