کرپشن کے جراثیم
(عبدالرزاق چودہری, lahore)
ضمیر فروشی اور اخلاقی پستی جب
حدوں کو چھونے لگے تو قوموں کا مستقبل تاریک ھونے میں دیر نہیں
لگتی۔بدقسمتی سے وطن عزیز ان دنوں ایسے گھناونے جرائم کی زد میں ہے جن کی
سنگینی نے حساس دل پاکستانیوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔بالخصوص کرپشن ایک
ایسی دلدل ہے جس میں پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا ادارہ بری طرح دھنس چکا
ہے۔معاشرے کی اکثریت دولت کی ہوس میں مبتلا ہو کر آسائشوں کا سمندر سمیٹنے
میں مگن ہے۔کوئی سیاست دان ھو،بیوروکریٹ ،تاجر،ڈاکٹر،انجنیر یا کلرک ہو
سبھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا بنیادی حق سمجھتے ھیں-
معلومات کے مختلف ذرائع اس بات کی نشاندھی کرتے رہتے ھیں کہ پاکستان میں
روزانہ اربوں کی کرپشن ہوتی ھےاور فکرمندی کی بات یہ ھے کہ قوم نے بھی
کرپشن کو معمول کی بات سمجھ کر قبول کر لیا ھے۔یہی وجہ ھے کہ کرپشن کے خلاف
عوامی سطح پر کبھی کوئی منظم اور موثر احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ مذید
چشم کشا حقائق یہ بھی ھیں کہ سیاستدان نہ صرف خود کرپشن کے جہاز پر سوار
ھیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی ٹرینینگ دینے میں مصروف ھیں کہ کس طرح بےدریغ
ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ھے۔اس حوالے سے خبریں عموما"
اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ھیں۔حکومت موقع بہ موقع اپنے نمائندوں سرکاری
ترقیاتی سکیموں کے نام پر بھی فنڈز کا اجرا کرتی رہتی ھے جو بالآخر کرپشن
کی عظیم داستان کے روپ میں صفحہ قرطاس کی زینت بنتی ہے۔یہ جعلی اور کاغذی
سکیمں اپنے نتائج کے اعتبار سے کبھی بھی دوررس اثرات مرتب نہ کر سکیں اور
ہمیشہ ہی کرپشن کا اندھیرا کنواں ثابت ہوئیں۔
بڑی تیزی سے کرپشن کے پھیلتے ھوے ان جراثیم نے نہ صرف سماجی،معاشی،معاشرتی
و تمدنی بنیاد کو کھوکھلا کیا ہے بلکہ پورے معاشرے کی ذھنی کیفیت کو بھی
کرپٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ من حیث القوم لوگوں کے ذھنوں میں یہ
بات راسخ ھو چکی ھے کہ پاکستان میں کوئی بھی کام رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا
اور سوچ کا یہ انداز زندہ قوموں کے لیے مر مٹنے کا مقام ہےاور یہ خیال اس
بات کا بھی غماز ہے کہ قوم کس حد تک اخلاقی پستی کا شکار ہوچکی ہے۔یہی لمحہ
غیرت مند قوم کے لیے فکر کی علامت ھے۔اخلاقی پستی کے زوال کی اس کھلی حقیقت
کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات تادم تحریر دکھائی نہیں
دے رہےجو اس موذی مرض سے تدارک کا باعث ہوں ۔
دکھ اور کرب کا احساس اس وقت دگنا ہو جاتا ہے جب یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ
معمولی سے معمولی کلرک اور بڑا سے بڑا عوامی نمائندہ کرپشن کو ایک فریضہ
سمجھ کر ادا کرتا ہےاور اس فرض سے چشم پوشی کو گناہ گردانتا ہے ۔بدقسمی سے
کرپشن کا وائرس کسی حد تک پوری قوم کی رگوں میں پھیل چکا ہےاور حالات اس
نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے
مترادف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کے جن کو بوتل میں قید کرنا مشکل امر ہے لیکن
اگر ملکی قیادت ایماندار،دیانتدار اور محب وطن ہواور پاک فوج کا سپہ
سالارنیک طینت اور جوانمرد مجاھد ھو تو اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ان
کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت قوم کی جان اس عفریت سے چھوٹ سکتی ہے۔حکمرانوں
کے جامع اور موثر اقدامات کے علاوہ اس موذی مرض سے نجات کے لیے قوم کے ہر
فرد کو مل کر کرپشن سے نفرت کا علم بلند کرنا ہو گا تبھی ہم دوسری قوموں کے
شانہ بشانہ چل کر دنیا کے نقشہ پر اپنا نام و نشان قائم رکھ پائیں گے |
|