بلا امتیاز احتساب کیوں نہیں؟

کرپشن،کرپشن،کرپشن۔احتساب،احتساب،احتساب۔پورے ملک میں کرپشن اور احتساب کا غل مچا ہے،کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔سادہ لوح عوام کواحتساب کے نام پر ایک بار پھر بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ بے وقوف بننے کے اس عمل میں حسبِ معمول مذہبی طبقہ، میڈیا، نام نہاد دانشور، شوبزاور ثقافتی سرگرمیوں سے وابستہ لوگ،سکول سے لیکر یونیورسٹی تک کے اساتذہ کرام (جو سال ہا سال سے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر لکھا گیا نصاب طلبہ کو پڑھانے پرمجبور ہیں)، غیر تربیت یافتہ اور شترِ بے مہارنوجوان جن کو تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی صورت میں فہم وفراست سے عاری رہبر ورہنما بھی میسر ہیں غرض تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ احتساب کے بگل کی دھن پر ناچ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے داد وتحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔احتساب کے بلند بانگ اور بلند آہنگ نعروں میں اس بات کو فراموش کردیاگیا ہے کہ سیاسی لوگوں کا احتساب کرنے والوں کے پاس آئینی اور قانونی طور پراس کام کا مینڈیٹ ہی نہیں۔ان کی ذمہ داری تو ملک کا دفاع کرنا ہے او ر بس۔سویلینز کا احتساب کرنے کے لئے بہت سارے احتسابی ادارے بشمول قومی احتسابی ادارہ (نیب)، ایف آئی اے،اینٹی کرپشن کا محکمہ وغیر ہ پہلے ہی موجود ہیں پھر بھی سیاستدا نوں کے احتساب کا ڈول ڈال کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے جب دفاع سے متعلق اداروں میں موجود بدعنوان عناصر کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو ان کی طرف سے لگا بندھا جواب ملتا ہے کہ ہمارے ہاں اندرونی احتسابی نظام موجود ہے۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا اس اندرونی احتسابی نظام کے تحت آج تک کتنے لوگوں کا احتساب ہوا اورلوٹی ہوئی کتنی رقم قومی خزانے میں واپس لائی گئی۔سادہ لوح ،حقائق سے بے بہرہ اورپراپیگنڈے کا شکارعوام اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ دفاعی اداروں کے وابستگان بھی بدعنوان ہو سکتے ہیں ۔معلوم نہیں ایسی سوچ رکھنے والے لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دفاعی اداروں کے لوگ بھی تو انسان ہی ہیں اور اسی ملک کے باسی ہیں جس میں پوری قوم پاوئں سے گردن تک کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔دفاعی اداروں کے احتساب کی ایک چھوٹی سی مثال حالیہ دنوں میں قائم کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ احتساب سے کوئی مبرانہیں مگر قوم کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا این ایل سی سکینڈل میں جن جرنیلوں کو سزا سنائی گئی ہے کیا لوٹے گئے وہ اربوں روپے بھی ان سے واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں یا نہیں اور نہ ہی یہ سننے میں آیا ہے کہ رینجرز یاکسی اور لاء انفورسمنٹ ایجنسی نے چھاپہ مار کر سزا یافتہ جرنیلوں کو گرفتار کیا ہے۔ دفاعی اداروں میں پائی جانیوالی بد عنوانی کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں کیونکہ اس وقت آپریشن ضربِ عضب’ مجوزہ کامیابیاں‘ سمیٹنے کے بعدمنطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اورخدشہ ہے کہیں اس تحریر کو فورسز کا مورال ڈاؤن کرنے کی کوشش نہ سمجھ لیا جائے۔یہاں حوالے کہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے گھر کے دو افراد کی لکھی ہوئی دو کتابوں کے نام لکھنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ پہلی کتاب سابق آرمی چیف مرحوم آصف نواز جنجوعہ کے بھائی شجاع نواز کی (Crossed Swords: Pakistan, its Army and Wars within)ہے اور دوسری میاں نواز شریف کے اقتدار پر قبضہ کر کے پلیٹ میں رکھ پرویز مشرف کو پیش کرنے وا لے اصحاب ثلاثہ میں سے ایک لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی’یہ خاموشی کہاں تک‘ ہے۔تفصیل جاننے کے شوقین حضرات ان کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔سیکورٹی اداروں کی طرف سے سیاسی افراد بلخصوص پیپلزپارٹی دور کے وزیروں،مشیروں کو احتساب کے شکنجے میں کسنے کے عمل کو وسیع پیمانے پر سراہا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی سنجیدہ اور پڑھے لکھے حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ دفاعی اداروں میں ہمالیائی بلندیوں کو چھونے والی بد عنوانی کے خاتمے کے لئے مکمل احتساب کا سلسلہ کب شروع ہو گا۔

اس تحریر کا محرک احتساب کی حالیہ لہر سے متعلق سوشل میڈیا پر اٹھائے جانیوالے سوالوں میں سے ایک سوال ہے جس میں احتساب کرنے والوں کو مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے ’ مشرف دور کی کرپشن حلال اور زرداری دور کی کرپشن حرام کیوں؟‘ سوال سیدھا سادہ ہے اور قرین عقل بھی۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے توہر مارشلائی دور حکومت میں حکمران طبقات اور ان کے اقرباء پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔ایوب خان کے خاندان کے افراد پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔جنرل ضیاالحق کے دور میں سیاست میں بد عنوانی کا سلسلہ ایک نئے انداز سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈزکے نام پر رشوت دیکر شروع کیا گیاجو آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ضیاالحق کی حادثاتی موت کے بعد بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ سیاست میں بدعنوانی کو قومی مفاد کے نام پر فروغ دیتے رہے۔اصغر خان کیس کا فیصلہ تو آچکا ہے مگر اس کیس کے وہ کردارجو ابھی تک بقید حیات ہیں ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی کہ وہ کون سا قومی مفاد تھا جس کے تحفظ کے لئے وہ یونس حبیب سے رقم لے کر سیاستدانوں میں تقسیم کرتے رہے۔انہی کرداروں میں سے ایک جنرل اسد درانی سے چند روز قبل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد میں ایک سیمینار کے اختتام پر میں نے پوچھابطور ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سیاستدانوں میں جو رقوم آپ نے تقسیم کی تھیں اور جس کا اعتراف آپ نے جسٹس چودھری کی عدالت میں سر بمہر بیان حلفی جمع کرا کر بھی کیا ہے کیاہی اچھا ہوتا اگر آپ اپنے بیان حلفی کی اشاعت کا اہتمام ہی کر ڈالتے تاکہ قوم کو ان بد عنوان عناصر کے بد نما چہرے پہچاننے میں آسانی ہوتی جو ہر دور میں ایجنسیوں کی گود میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔میرا سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی جنرل درانی سیخ پاہوکر آئیں،بائیں، شائیں کرنے لگے اور غصے سے کہنے لگے تم صحافی ہر وقت بات کا بتنگڑ بنانے کے لئے تیار رہتے ہو ،آج کی تقریب کسی اور مقصد کے لئے تھی اس سوال کا آج کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ کہتے ہوئے جنرل صاحب یہ بھول گئے تھے کہ اس کیس سے متعلق زیادہ تر باتیں تو پہلے ہی زبان زدِعام ہیں۔

بات کہیں اور نکل گئی۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں کرپشن کی ایسی خوفناک داستانیں رقم کی گئیں کہ الامان والحفیظ۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں کرپشن کی جو رنگا رنگ کہانیاں سننے کو ملتی رہیں ان کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر ان کے دور کے کسی ایک بھی وزیر، مشیر یا اقتدار کا کیک کھانے والے کارندے کے خلاف کوئی مقدمہ تک درج نہیں کیا گیا جبکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے افراد کو سال ہا سال پرانے مقدمات میں گرفتار کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔حال ہی میں جرمنی کے شہر برلن میں قائم بین الاقوامی نگران ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے سابق فوجی حکمران کے دور حکومت کو کرپٹ ترین قرار دیا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سالانہ بنیادوں پر رپورٹ(گلوبل کرپشن بیرومیٹر اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس)جاری کرنے والے اس ادارے نے دنیا کے مختلف ملکوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق پرویز مشرف کا دور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹ دور تھا۔اسی رپورٹ میں مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو دونوں گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کرپشن کے حوالے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔اس رپورٹ کی روشنی میں اگر حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہت دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ کرپٹ افراد کے خلاف آپریشن میں نیب، ایف آئی اے اور رینجرز کا ہدف صرف سیاسی لوگ ہیں اور حیران کن طور پر فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ دور حکومت کے میں ہونے والی بے تحاشہ کرپشن اور بڑے سکینڈلز کی طرف سے سب کی آنکھیں بند ہیں۔نیب کی جانب سے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے میگا سکینڈلز اور کرپشن کیسز کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ تقریبا ہر بڑے سیاسی رہنما بشمول موجودہ وزیر اعظم،سابق صدر آصف علی زرداری،سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت کئی اور لوگوں کو دہائیوں پرانے مقدمات میں ملزم قرار دیا جا چکا ہے مگر پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں اور وزیروں کا کوئی ذکر نہیں۔پرویز مشرف کے وزیر اعظم شوکت عزیز، چودھری خاندان کے چشم و چراغ مونس الہی، یار محمد رند، شیخ رشید،فیصل صالح حیات، بینک آف پنجاب سکینڈل والا ہمیش خان اور کئی دیگرحکومتی وزراء کے نام کرپشن کے مختلف سکینڈلز میں سامنے آئے مگر کوئی کارروائی آج تک نہیں کی گئی۔سویلین حکمرانوں پر ہر دور میں الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے سرکاری زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ اپنے چہیتوں میں بانٹیں جس کے نتیجے میں انہیں مختلف مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑالیکن شہداء کے اہل خانہ کے لئے مختص10ہزار کنال فوجی زمین اپنے من پسند افراد میں بطور سیاسی رشوت بانٹنے پرپرویز مشرف سے آج تک کسی نے جواب طلبی نہیں کی۔2005ء کے سٹاک ایکسچینج میں ہیرا پھیری کے سکینڈل سے لے کر سٹیل مل کی نجکاری تک،2006ء کے چینی بحران سے لے کر اربوں روپے کے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے پراجیکٹ میں ہونے والے غبن تک،دفاعی سازوسامان کی خریداری میں مبینہ ہیرا پھیری، پاک فضائیہ کے لئے نگرانی کے طیاروں کی ڈیل، 2005ء میں زلزلہ زدگان کے لئے آنیوالے غیر ملکی فنڈز میں خرد برد، فوجی زمین جمیعت علمائے اسلام ف اور اپنے ذاتی سٹاف میں بانٹنے ،پنشن سکینڈل، جکارتہ میں تعینات جرنیل سفیر کی طرف سے سفارت خانے کی زمین اور اثاثوں کی فروخت،اپنے چیف آف سٹاف کے فائدے کے لئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی، ملتان کی پاک عرب فرٹیلائزر کی نجکاری میں مبینہ بے ضابطگیاں اور ایسے دیگر کئی سکینڈل اور غیر آئینی تقرریاں ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں ہوئیں لیکن نیب نے ان پر نظر تک نہیں ڈالی۔پرویز مشرف اپنے دور حکومت میں ارب پتی بنے، ملک کے اندر اور باہر جائیدادیں بنائیں لیکن ان سے آج تک کسی ادارے بشمول نیب نے ایک لفظ تک نہیں کہااور نہ ہی ان کے خلاف کرپشن کا کوئی مقدمہ بنا جبکہ یہی نیب سیاسی لوگوں کے اثاثوں کے ریفرنسز بنانے میں مصروف ہے۔ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی تو زیر عتاب آ چکے ہیں شنید ہے اگلی باری عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ لوگوں کی ہے اور اس کے بعد شاید پنجاب سے متعلق سیاسی لوگوں کا نمبر بھی لگنے والا ہے۔

درج بالا معروضات کا قطعاایسا کوئی مقصد نہیں کہ کسی خاص ادارے یا اس سے وابستہ شخصیات کی توہین یا تنقیص کی جائے اور نہ ہی اس تحریر کو کسی خاص جماعت کی مظلومیت کا نوحہ سمجھا جائے۔ہر محب وطن شہری یہ چاہتا ہے کہ ملکی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہو اور اختیارات سے تجاوز کر کے اپنے دوست و احباب ، رشتہ داروں اور ساتھیوں کو نوازنے اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے ۔ اس تحریر کے توسط سے یہ تجویز کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نیب احتساب کا دائرہ کار بلا امتیاز تمام اداروں بشمول سول و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، مقننہ، میڈیا ، مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد، تمام سرکاری ملازمین وغیرہ تک پھیلائے تاکہ یہ تاثر زائل ہو سکے کہ احتساب کا عمل چند افراد یا چند مخصوص جماعتوں تک محدود ہے۔
Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 8281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.