1955ء میں مغربی پاکستان کے
جاگیرداروں ، مذہبی قیادت ، افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ نے گٹھ جوڑ کرکے تمام
صوبوں کو تحلیل کردیا تھا تاکہ مشرقی پاکستان سے آبادی کی بنیاد پر برا بری
کا تقابل کرسکیں۔1969ء میں نافذکردہ لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت بلوچستان ،
شمالی مغربی صوبہ سرحد ، پنجاب اور سندھ کی صوبائی حیثیت بحال کردی گئی تھی
لیکن اس کے بعد متواتر آبادی کے اضافے کے باوجود پاکستان کے وفاقی نقشے میں
کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کا نام تبدیل
کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا تو پاکستان میں ایک سیاسی تبدیلی کے بعد فوراً
ہزارہ ڈویژن کا ردعمل سامنے آیاجو صوبہ خیبر پختونخوا کو تقسیم کرکے ہزارہ
ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عملی اقدام کے طور پر پنجاب
اسمبلی میں بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کی دو
الگ الگ قراردادیں 9مئی2012کو منظورکی گئی دونوں قرار دادیں پنجاب کے وزیر
قانون ثنا اﷲ نے پیش کی تھی جیسے متفقہ طور پر ایوان نے منظور کرلیا۔دونوں
قراردادوں کی مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ق) سمیت تمام سیاسی
جماعتوں نے حمایت کرتے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ایک قومی
کمیشن تشکیل دے جو پانی، دیگر وسائل اور جغرافیائی حدود کا تعین کرکے صوبے
کے قیام کو عملی جامہ پہنائے۔صوبہ بہاول پور کے حوالے سے قرارداد میں یہ
کہا گیا کہ وہ کسی نئے صوبے کی تشکیل کا نہیں بلکہ اپنے صوبے کی بحالی کا
مطالبہ کر رہے ہیں اس لئے وفاقی حکومت فوری اقدامات کرے۔دونوں قراردوں کو
پنجاب میں الگ صوبے کے قیام کے حق میں تحریک چلانے والوں قائدین نے خوش
آئند اقدام قرار دیا تھاجس سے واضح ہوگیا کہ تمام قومی جماعتیں پنجاب کی
تقسیم پر متفق ہیں ، لیکن وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے قومی کمیشن کا
مطالبہ ہر دو سیاسی جماعت کی جانب سے کیا گیا۔پی پی پی کے وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی تو باقاعدہ اپنے جلسوں میں سرائیکی صوبہ بنانے کی خوش خبریاں
سناتے، پنجاب کی حکومت اور میاں نواز شریف پر شدید تنقید کرتے کہ ان کی
پنجاب حکومت، جنوبی پنجاب کے وسائل پر قابض ہوکر احساس محرومی کو فروغ دے
رہی ہے۔سندھ میں علیحدہ صوبہ کی پہلی باقاعدہ باز گشت تو کافی عرصہ سے
موجود ہے ، جس میں کراچی کی اردو صوبہ تحریک محدود حد تک مطالبہ کرتی رہی
ہے۔ لیکن بین الاقوامی طور پر 11مئی2012ء کو نیو یارک شہر میں ایم کیو ایم
کے سابق وزرا ء ،سابق اراکین رابطہ کمیٹی اور سابق اراکین اسمبلی نے سندھ
کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرکے جنوبی سندھ نامی صوبہ بنانے کا مطالبہ
کیاتھا ۔ایم کیو ایم کے ان سابق منتخب نمائندوں کا کہنا تھا کہ سندھ میں
شہری علاقوں کی آبادی پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور سندھ کی شہری آبادی
محصولات کا پچانوے فیصد پیدا کرتا ہے ، لیکن اختیارات میں اس کا حصہ پانچ
فیصد سے بھی کم ہے"۔امریکہ کے شہر نیو یارک میں کی گئی پریس کانفرنس پر
پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر فیصل
سبزواری نے مطالبے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ، سابق نمائندوں کے حوالے
سے اس موقف کو دوہرایا تھا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے ، متحدہ قومی
موومنٹ کا کوئی موجودہ رکن اسمبلی ، رہنما ء کارکن ایسی بات کرے تو پھر ایم
کیو ایم کی ذمے داری ہوگی۔"ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے
مملکت میں نئے صوبوں کے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس
کے انعقاد کے مطالبے کے بعد سندھ میں صورتحال کشیدہ اور سیاسی گرمی میں
اضافہ ہوگیا تھا اور اب الطاف حسین کی جانب سے با قاعدہ کئی بار کراچی صوبے
کا مطالبہ دوہرایا جا چکا ہے۔تاہم حیران کن بات یہی ہے کہ پاکستان کی تمام
سیاسی جماعتیں پنجاب ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا کی تقسیم پر پاکستان کے
آئین کے مطابق متفق نظر آتی ہیں لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو یہاں
پاکستان کے آئین کے بجائے ، ماں دھرتی کی بات کرتے ہوئے لسانی سیاست کو ہوا
دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کراچی سندھ دھرتی کا حصہ نہیں بلکہ وفاقی
دارالحکومت تھا اور قیام پاکستان کے بعد 23سال تک کراچی صوبہ سندھ کا حصہ
نہیں تھا۔جبکہ سندھ میں بالخصوص کراچی میں دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے
والے شہر میں روز افزوں اضافے کیلئے بس یہی بیان دیا جاتا ہے کہ یا تو ،"
مہاجروں کو بھارت واپس بھیج دو یا ان کی جگہ سمندر میں ہے" ، اسی طرح اگر
پختون ہیں ، جن کا رہنا ، جینا مرنا اور تمام اجداد و جائیداد کراچی میں
ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ" تم پٹھان لوگ اپنے صوبے خیبر پختونخوا واپس
جاؤ"۔ماہر سیاسیات پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق کہ"جب تک تمام سیاسی
جماعتوں میں چاروں صوبوں کو دوبارہ سے ترتیب دینے میں اتفاق رائے نہیں ہوگا
، اس وقت تک اس طرح کی تجاویز آگے نہیں بڑھ سکتیں ، اس پر کچھ لوگ سیاسی
فائدہ اٹھانے کی کوشش تو ضرور کریں گے تاہم اس طرح سے نئے صوبے بننا ممکن
ہے "۔نئے صوبوں کے مطالبے میں 20مئی2102ء کو فاٹا گرینڈ الائینس کی جانب سے
پاکستان میں قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں بحث کی گئی۔خیبر پختونخوا
سمبلی میں قبائلی علاقوں کو نمائندگی کے حوالے سے اس تنظیم کے سربراہ خان
مرجان نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہیں۔
کیونکہ اس سے وہ پسماندہ رہیں گے"۔خان مرجان کے مطابق قبائلی علاقوں کے بیس
کے لگ بھگ نمائندے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود ہیں لیکن انھیں یہ حق
حاصل نہیں ہے کہ وہ آئینی ترامیم میں کوئی حصہ لے سکیں اس لئے صوبائی
اسمبلی میں ان کی نمائندگی سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگاـ"۔فاٹا گرینڈ
الائینس کی جانب سے یہ موقف اُس وقت سامنے آیا تھا جب خیبر پختونخوا حکومت
نے قبائلی علاقوں کو اسمبلی میں نمائندگی اور ایف سی آر کے حوالے سے
قرارداد منظور کی ۔تاہم یہاں بھی بعض قبائلی رہنما ؤں کی جانب سے اعتراض
کیا گیا کہ اس حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دینا چاہیے کیونکہ وسائل و دیگر
بنیادی مسائل کے حل کے ادارے خیبر پختونخوا میں ہیں اس لئے قبائلستان کے
حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جائے ورنہ اس مطالبہ کوقابل عمل بنانا ممکن
نہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے علاوہ پنجاب
کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے وفاق کو یہی تجویز دی تھی کہ قومی سطح پر
ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ، ان کے بقول یہ کمیٹی ملک میں نئے صوبوں کے حوالے
سے اتفاق رائے پیدا کرے اور اپنی سفارشات مرتب کرے اور جس طرح اٹھارویں
آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی اس طرح یہ معاملہ بھی طے ہو۔"آئین کے
مطابق ، شق 248کی ذیلی شق ،چار نئے صوبے بنانے یا کسی صوبے کی حدود کا ازسر
نو تشکیل دینے کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔تاہم سابق صدر آصف زرداری نے اس
حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کا مسلم لیگ (ن) نے
بائیکاٹ کیا تھا۔یہاں اس بات ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ پاکستان میں
بلوچستان ،پنجاب ، خیبر پختونخوا میں نئے صوبوں کے حوالوں سے پر تشدد
واقعات دیکھنے میں نہیں آتے لیکن جب بھی نئے صوبوں کے حوالے سے ایم کیو ایم
کے بیانات سامنے آتے ہیں تو سندھ کے اندرونی علاقوں میں پر تشدد کے واقعات
میں اضافہ ہوجاتا ہے اور سندھی قوم پرست جماعتیں مشتعل ہوجاتی ہیں۔ بعض
سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب
سے اے پی سی کے انعقاد کے انعقاد کے بعد قبل ازوقت مطالبہ کیا ہے تو یہ بھی
عوام نے دیکھا ہے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے نئے انتخابات کے موقع پر
سیاست کی جاتی ہے اور ووٹ و اقتدارحاصل کرنے کے بعد تمام بڑی جماعتیں اگلے
پانچ سال کیلئے خاموش ہوکر بیٹھ جاتی ہیں ، غیر جانبدارنہ قومی سیاسی تناظر
میں دیکھا جائے کہ اگر امن و امان کے حوالے سے جس قدر انتظامی یونٹس زیادہ
ہونگے ، وفاق پر انحصار کم ہوگا اور نئے تشکیل پانے والے یونٹس اپنی
علاقائی ضروریات کے مطابق تشکیل نو کر سکیں گے۔مردم شماری کی غیر
جانبدارانہ شماری اور بائیو میڑک سسٹم کے تحت ڈیٹا کو محفوظ کرنے سے ملکی
وسائل کی تقسیم اور صوبائی خودمختاری میں مدد ملے گی۔ قومی پالیسی کے تحت
تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے پاکستان کی مکمل تنظیم نو اور نئے
یونٹس ہی امن و امان اور معیشت کی بحالی کیلئے اہم قدم ہے۔نئے صوبوں کے
حوالے سے قومی اتفاق رائے ضروری ہے، اس اہم ایشو کو ہر قومی انتخابات سے
قبل سیاسی بنانے کے بجائے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ |