باکمال لوگ ’’لاجواب سروس‘‘کی تلاش میں
(شفقت نذیر, Stoke-on-trent UK)
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا
شمار کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں ہوتا تھا۔ صاف ستھرا ماحول،
بہترین سروس، عمدہ کھانے اور یہاں تک کہ ’’لائیو کچن‘‘ پی آئی اے کا خاصہ
تھے لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ناجانے اس ایئرلائن کو کس کی نظر لگ
گئی، بجائے ترقی کے تنزلی کا سفر اس نے اختیار کرلیا۔ جن فضائی کمپنیوں کے
قیام میں پی آئی اے نے مدد دی تھی آج وہ دنیا کی اولین ایئرلائنوں کی صف
میں جاکھڑی ہوئیں اور خود یہ ایک تیسرے درجے کی ایئرلائن بن گئی۔ ترقی
معکوس کا یہ سفر ابھی جاری ہے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی کیبنٹ سیکرٹریٹ کی
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رکن اسمبلی مریم اورنگ زیب نے یہاں تک کہا کہ
دوران سفر پی آئی اے مسافروں کو غیرمعیاری اور ہوٹلوں کا بچا ہوا کھانا
پیش کرتی ہے جوکہ زیادہ تر مسافر کھائے بغیر واپس کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا
تھا کہ مسافروں سے بین الاقوامی معیار کے کرائے وصول کرتی ہے مگر اس کی
سروسز کسی تیسرے درجے کی ایئرلائن کے برابر ہیں۔ پی آئی اے کی مقبولیت
ہرگزرتے دن کے ساتھ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے کم ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا
کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کے ساتھ اس مسئلہ کو اٹھایا جائے اور نہ صرف ان
سے رپورٹ طلب کی جائے بلکہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ سو
14ستمبر کو پی آئی اے کی طرف سے کیبنٹ سیکرٹریٹ کی قائمہ کمیٹی کو حالیہ
اقدامات کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی گئی اور ایک مینو بھی پیش کیا گیا جو
کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کے مطابق بین الاقوامی مسافروں کو دوران سفر دیا
جاتا ہے۔ کسی فائیو سٹار ہوٹل سے مطابقت رکھنے والے اس مینو میں وہ سارے
کھانے شامل تھے کہ انسان جن کی خواہش کرتا ہے، ملائی تکہ، تکہ بوٹی، مٹن
پلائو اور وہ سب کچھ جوکہ ایک بڑے ریسٹورنٹ کے بوفے میں ہوتا ہے اس مینو کو
دیکھ کر یقیناً قائمہ کمیٹی کے ارکان حیران تو ہوئے ہونگے مجھے تو لگتا ہے
کہ کسی بادہ خوار کی یہ شرارت ہے، ورنہ ہوش مند ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔
یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جونہ بادہ خوار ہوتا
ایک کھانے پر ہی کیا موقوف ہماری قومی ایئرلائن کی کوئی کل سیدھی نہیں رہی۔
ہم تارکین وطن سے تو جیسے ہر قسم کی زیادتی حق سمجھ کر کی جاتی ہے۔ کرائے
آسمان سے باتیں کرتے ہیں لیکن سروس وہی ’’لاجواب‘‘ قسم کی۔ ایئرلائن کے
لیٹ ہونے کے بھی اپنے ریکارڈ ہیں جوکہ گھنٹوں سے بڑھتے ہوئے دنوں پر محیط
ہونے لگے ہیں۔ پی آئی اے انتظامیہ اپنی کسی غفلت اور مسافروں کو دی جانے
والی پریشانی کے حوالے سے کبھی معذرت خواہ بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی
تلافی کرتی ہے۔ بہت سی ایسی داستانیں ہیں جوکہ اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں
اور ان کی شکایات بھی انتظامیہ کو کی جاتی ہے لیکن پی آئی اے انتظامیہ کی
جانب سے بے حس رویوں کے علاوہ کچھ حاصل وصول نہیں ہوسکا۔ تارکین وطن اپنے
وطن سے محبت کی بنا پرہزار زیادتیوں کے باوجود اپنی قومی ایئرلائن کو ہی
ترجیح دیتے ہیں۔ شاید اسی کمزوری کا فائدہ بھی پی آئی اے کی انتظامیہ اٹھا
رہی ہے۔ اپنی سروسز کے معیار کو بالکل بھی بہتر نہیں بنارہی اور نہ ہی کسی
شکایت کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ کیبنٹ سیکرٹریٹ کی قائمہ کمیٹی کو تو یہ یقین
دلایا گیا ہے کہ وہ پی آئی اے کی بحالی کے لئے اقدامات کررہے ہیں اور
کمیٹی نے اسے خوش آئند بھی قرار دیا ہےلیکن
تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان چھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے،اگر اعتبار ہوتا
ایسے اقدامات اور وعدے بہت پہلے سے کئے جارہے ہیں لیکن وہی ڈھاک کے تین
پات۔ بجائے بہتری کے دن بدن ابتری ہی آرہی ہے۔ صرف لفظوں سے کئی بار پی
آئی اے کو بحال بھی کیا گیا اور اس کے قرضے بھی اتارے گئے اور اسے لاجواب
سروس بھی بنایا گیا۔ لیکن جناب ’’صرف قناتیں لگانے سے باراتیں نہیں
آجاتی‘‘۔مجھے لگتا ہے کہ صرف تارکین وطن ہی اپنی قومی ایئرلائن کو بہتر
بناسکتے ہیں۔اسے واپس باکمال لوگوں کی لاجواب سروس بناسکتے ہیں۔ اس کے لئے
انہیں چند کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ تھوڑا سا سخت رویہ اپنانا پڑے گا بین
الاقوامی قوانین کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔ آج کے بعد یہ تہیہ کرنا ہوگا کہ
اگر سفر کے دوران قومی ایئرلائن کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے
تو وہ اس سلسلے میں قانون کی مدد حاصل کریں گے۔ اگر معیاری سروس انہیں مہیا
نہیں کی جارہی، کھانا باسی یاپھر ہوٹلوں کا بچا ہوا دیا جارہا ہے۔ فلائٹس
لیٹ ہورہی ہیں تو تارکین وطن کو اس سلسلے میں اپنی ایئرلائن پر زرتلافی کے
لئے کلیم کرنا چاہئے۔ فلائٹ میں لمبی تاخیر (دوگھنٹے یا زائد فاصلے کے
مطابق) پر مسافروں کو ہر صورت میں مفت کھانا، ریفرشمنٹ بشمول 2فری ٹیلیفون
کالز، ٹیلیکس اور فیکس میسج یا ای میل کی سہولت مہیا کرنا ایئرلائن کی ذمہ
داری ہوتی ہے۔ اور اگر روانگی دوسرے دن تک موخر ہوجائے تو مسافروں کو ہوٹل
کی رہائش دینا اور ایئرپورٹ تک ٹرانسپورٹ کی سہولت دینا بھی ایئرلائن کی ہی
ذمہ داری ہوتا ہے۔ اور اگر یہ تاخیر 5گھنٹے یا اس سے زائد پر محیط ہو تو
مسافروں کو ٹکٹ کی مکمل قیمت اور انہیں واپسی کی فلائٹ بھی دینی ہوگی اگر
انہوں نے ریٹرن ٹکٹ لی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے 4ستمبر 2014ء کو یورپی یونین
کی عدالت انصاف کی ایک رولنگ میں مسافت کی منزل تک پہنچنے میں تاخیر کی بھی
وضاحت کی گئی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں (Ec No 261/2004) 11فروری2004ء کو زر
تلافی اور مسافروں کی امداد کے حوالے سے رولز طے کیے گئے ہیں کہ فلائٹ
ملتوی ہونے، بورڈنگ سے انکار کرنے اور لمبی تاخیر کی صورت مسافر کسی طرح کی
زرتلافی کے حق دار ہوں گے۔ نومبر2009ء میں یورپی یونین کی عدالت انصاف کی
ایک اور رولنگ میں فلائٹ میں تاخیر کے حوالے سے ریگولیشن ای سی261/2004کی
تشریح کو تبدیل کیا گیا ہے اور اس میں فلائٹ میں3گھنٹے کی تاخیر کو فلائٹ
ملتوی ہونے کی زرتلافی کی رقم کے برابر کردیا گیا۔ تاہم اگر فضائی کمپنی یہ
ثابت کردے کہ یہ تاخیر ’’غیر معمولی حالات‘‘ کی وجہ سے ہوئی ہے تو پھر وہ
زرتلافی دینے کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ اس رولنگ سے قبل زر تلافی صرف کینسل
فلائٹ پر ہی کلیم کی جاسکتی تھی اور تاخیر کی صورت میں کوئی کلیم نہیں کیا
جاسکتا تھا۔ یہ ریگولیشن دنیا کی ان تمام فضائی کمپنیوں پر لاگو ہوتا ہے جو
یورپی یونین کے ممالک سے پرواز کرتی ہیں یا پھر کسی اور ملک سے یورپی یونین
کے ممالک میں آتی ہیں۔(تمام بین الاقوامی ائرلائینوں پر یہ قوانین لاگو
ہوتے ہیں )بوڈنگ سے انکار کی وجہ سے شیڈول فلائٹ نہ لے سکنے والے مسافروں
کو بھی زرتلافی کا حقدار قرار دیا گیا جبکہ اس وجہ سے ان کی فلائٹ کو ’’ری
روٹ‘‘ کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں بھی وہ زرتلافی کلیم کرسکتے ہیں۔ اس
ریگولیشن کے آرٹیکل14کے مطابق مسافروں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنا بھی
فضائی کمپنی کی ذمہ داری ہے جس کے لیے وہ اپنے کاونٹروں پر نوٹس لگانے کے
ذمہ دار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی قومی ایئر لائن کو درست کرنے کے
لیے کچھ کڑوے گھونٹ پینے کو تیار ہیں یا پھر یوں ہی سب کچھ چلنے دیں گے؟۔ |
|