عورت آخر معاف کیوں کرے؟


سوشل میڈیا پر ایک تحریر نظر سے گزری ، جو کہ پاکستان کے سٹار کرکٹر فضل محمود کی پیشہ ورانہ زندگی کے ایک عمومی سے جائزے پر مبنی تھی ۔ آخری چند سطروں میں درج ایک جملے پر نظریں جم کر رہ گئیں
“ آخری عمر میں جانے کیا جی میں آئی کہ بیوی کو طلاق دے دی “

ہم نے وہاں کمنٹ لکھا کہ ۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بیوی نے طلاق خود لی ہو اور ہیرو نے سبکی سے بچنے کے لئے بات خود پر لے لی ۔
وجوہات کا کسی کو کچھ پتہ نہیں مگر اُس تحریر میں کرکٹ سٹار کی مردانہ وجاہت اور حسیناؤں کے جھرمٹ میں گھرے رہنے کا بھی ذکر تھا ۔ اسی حوالے سی ہم نے مزید لکھا کہ کبھی بیوی نظر انداز بھی ہوتی ہو گی اور عدم تحفظ کا شکار بھی ۔ عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہو گی ، پوری جوانی جانے کیا کیا سہا ہو گا ۔ بڑھاپے میں طلاق ہمیشہ عورت کے مطالبے پر ہوتی ہے اتنا بڑا فیصلہ بے وجہ نہیں ہوتا ۔

گزشتہ چند دنوں میں پاکستانی ٹی وی کے سپر سٹار فردوس جمال صاحب کی طلاق کا بہت چرچا رہا ۔ پہلے اُن کے فیملی سے الگ ہو کر ایک بےحد خستہ حال مکان میں رہائش پذیر ہونے سے متعلق اطلاعات میڈیا میں زیر گردش رہیں ۔ پھر اُن کے فرزند حمزہ کی ایک دردناک وڈیو منظر عام پر آئی اور پورے سوشل میڈیا پر چھا گئی ۔ اپنے پیغام میں اُس نے واضح لفظوں میں اپنے والدین کی باضابطہ علیحدگی کا ذکر کیا اور اپنے کچھ سنگین فیملی ایشوز کا بھی ۔ رائے عامہ واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہو گئی ۔ ایک کا مؤقف تھا کہ فیملی احسان فراموش ہے لیجنڈ سے ہر طرح کا فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں اُسے تنہا چھوڑ دیا جبکہ وہ ایک جان لیوا بیماری سے بھی لڑا ۔ اگر اتنا ہی بُرا تھا تو بیوی نے جوانی میں ہی اُسے کیوں نہ چھوڑ دیا؟

دوسری طرف رائے تھی کہ فردوس جمال ایک بہت بڑے اداکار ضرور ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ بطور شوہر بھی ایک بہت اچھے انسان رہے ہوں ۔ کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ بیوی نے پینتیس سال بعد اُن سے خلع لے لی ۔ خیر اس وڈیو کے بعد فردوس صاحب کا بھی بیان سامنے آ گیا جس میں انہوں نے صاف انکار کیا کہ اُن کی بیوی نے خلع لی ہے ۔ اُن کی باقی گفتگو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے مگر اپنے پچھلے کچھ انٹرویوز میں وہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی شادی غلط جگہ ہوئی غلط عورت سے ہوئی ۔ جو شخص اپنی شادی اور بیوی دونوں کو میڈیا کے سامنے بیٹھ کر غلط کہہ رہا ہو اُس کا نجی زندگی میں بیوی کے ساتھ کیا سلوک کیا رویہ رہا ہو گا؟ اولاد ایسے ہی تو ماں کی ہمنوا نہیں بن گئی ہو گی ۔ اپنے کچھ ساتھی اداکاروں کے لئے انہوں نے جو زبان استعمال کی وہ بھی ان کی فنی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔

کئی سال قبل نعیم بخاری کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا کہ میں نے جو کمایا اپنے خاندان پر خرچ کیا اسی وجہ سے ذاتی گھر نہیں بنا سکا ۔

پورے خاندان کی کفالت خود اپنے بیوی بچوں کو نظر انداز کر کے اور ان کی حق تلفی کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور ایسی قربانیاں دینے والے عقل کے اندھوں کو اس کا خمیازہ عموماً اپنے بڑھاپے میں بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔ کیونکہ روپے پیسے کی پاور سے چپکائے جانے والے رشتے کبھی پائیدار نہیں ہوتے ۔ اپنا اپنا مطلب نکل جانے کے بعد وہ چھوڑ جانے میں بھی دیر نہیں لگاتے ۔ اُن کی وجہ سے اگر بیوی بچوں کی زندگی جہنم بنی رہی ہو تو اکثر وہ بھی جان چُھڑا لیتے ہیں جن میں سرفہرست بیوی ہوتی ہے ۔ وہ بڑھاپے میں مرد سے وہی چیز مانگ لیتی ہے جو وہ اُسے دینے کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہا ہوتا ہے اور پوری جوانی اُسی کا ڈراوا دے دے کر اُسے ادھ مؤا کر دیا ہوتا ہے ۔

ایک بہت کامیاب مشہور اور بزرگ شوبز شخصیت کی طلاق کی خبر اور اس سے متعلق قیاس آرائیوں نے ہمارے ذہن میں خود ہماری اپنی ہی ایک تحریر کی یاد تازہ کر دی جو کہ پانچ سال قبل “ ہر عورت معاف نہیں کرتی “ کے عنوان سے ھماری ویب پر شائع ہوئی تھی اور ایک بڑے ادبی و اسلامی پیج نے اسے اپنی وال پر جگہ دی جہاں سے وہ سینکڑوں اکاؤنٹس سے شیئر کی گئی ۔ اپنی اُس تحریر میں ہم نے اُنہی عورتوں کو موضوع بنایا تھا جنہوں نے اپنی جوانی میں بچوں اور اپنے والدین کی عزت کی خاطر شوہروں کے ہاتھوں اپنی طرح طرح سے تذلیل برداشت کی ان کی بد زبانی منہ زوری خود پسندی کسی بھی احتجاج کے جواب میں طلاق کی دھمکی سن کر پسپائی کی ذلت سہی ۔ وہ اندر ہی اندر چکناچور ہوتی رہیں چاہنے کے باوجود ایک اذیت اور ذلت بھری زندگی سے چھٹکارہ حاصل نہ کر سکیں سماجی حدود و قیود نے اُنہیں اپنا ایک حق استعمال کرنے سے محروم کیے رکھا اور مرد ان کی بےبسی اور کمزوری کا فائدہ اپنا حق سمجھ کر اٹھاتے رہے کہنے کو طلاق بھی نہیں دی اور اسی کو لے کر انہیں بلیک میل بھی کرتے رہے ۔ پھر پچیس تیس سال بعد جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اپنے پیروں پر اور ماں کی پشت پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو کچھ عورتیں اپنی زندگی بھر کی اٹھائی ہوئی ہزیمتوں اور ذلتوں کا بدلہ اُس شخص کو ٹھکرا کر لے لیتی ہیں جس نے اُن کی عزت نفس کو اپنی ٹھوکروں پر رکھا ہؤا تھا ۔ انہیں ہرگز اس گھٹیا مرد کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی جس نے اپنے اختیار کے دور میں ان کی ذات کو کرچی کرچی کیا تھا اور عمر کے اس حصے میں مرد کا سب طنطنہ اور رعب داب دھرا رہ جاتا ہے عام طور پر صحت بھی جواب دے جاتی ہے بہت سے معاملات میں وہ خود مجبور و محتاج بن کے رہ جاتا ہے تو وہ بھلا کیا کسی کا سہارا بنے گا ۔ معاف کر دینے والی عورت پھر اس کی میڈ ہی بن کر رہتی ہے ۔ لیکن ہر عورت معاف نہیں کرتی بیوی کو دو کوڑی کا کر کے رکھنے والے ذرا سوچیں کہ آج آپ اُس کو جو دھمکی دے کر اُس کا منہ بند کراتے ہیں کل کو وہی وہ خود آپ کے منہ پر مار کر چلی جائے گی تو کیا عزت رہ جائے گی؟

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 235 Articles with 1876927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.