جنگ ستمبر ١٩٦٥ ایک محب وطن کی نگاہ سے
(syed alamdar hussain naqvi, lahore)
بچپن سے لے کر آج تک دل میں وطن
کی محبت کا چراغ ١٩٦٥ کی پاک بھارت جنگ کے شہیدوں کے لہو سے روشن ہے۔ جنگ
ستمبر کے دنوں میں گائے گئے جنگی نغمے آج بھی ہر محب وطن پاکستانی کے لہو
کو گرمانے کے لیے کافی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ برائے نام دفاعی تجذیہ
کاروں ، برائے نام سیاستدانوں اور برائے نام بہادروں کی ایک بڑی تعداد جنگ
ستمبر کے شہیدوں کے لہو سے روشن کیے گئے چراغوں کو اپنی بھونڈی دلیلوں سے
بجھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ ان احباب کا اس سلسلے میں پہلا موءقف یہ ہے کہ
پاکستان ہی آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلیم کے ذریعے بھارت کو ٦،
ستمبر کے حملے پر اُکسانے کا باعث بنا۔ مجھے حیرانی ہے کہ ان تجزیہ کاروں
کی بصیرت اور بصارت ان وجوہات کا جائزہ لینے سے کیوں قاصر ہے کہ جو آپریشن
گرینڈ سلیم اور آپریشن جبرالٹر کا باعث بنے اور جن وجوہات کا منبع اور مصدر
ہمارے ازلی دشمن بھارت کا ظالمانہ اور متکبرانہ رویہ تھا ۔ خاص طور پر وہ
رویہ جو اس نے کشمیر میں اپنائے رکھا اور عام طور پر وہ رویہ جو وہ آپریشن
جبرالٹر سے پہلے پاکستان کے ساتھ اپنائے ہوئے تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپریشن
جبرالٹر سے پہلے درگاہ حضرت بل میں کی گئی ہندوستان کی گُستاخیاں اُن تجزیہ
کاروں کو دکھائی کیوں نہیں دیتیں جو پوری دنیا کو چیخ چیخ کر یہ باور
کروانے میں لگے ہیں کہ جنگ ستمبر کی پہل پاکستان نے کی تھی۔حکومت کو چاہیے
کہ آپریشن جبرالٹر کے پس منظر میں چھپی وجوہات کو نصاب کا حصہ بنا کر نئی
نسل کے سامنے لائے کہ ہماری حکومتیں بھی جنگ ستمبر کا ذکر کرتے ہوئے آپریشن
جبرالٹر کی وجوہات سے آنکھیں چراتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
بھارت نواز تجزیہ کار جنگَ ستمبر کا ذکر کرتے ہوئے آپریشن جبرالٹر اور
آپریشن گرینڈ سلیم میں پاکستان کی ناکامی کا ذکر بڑی شدو مد کے ساتھ کرتے
ہیں اور یہ بھُلا دیتے ہیں کہ اس جنگ میں کئی مقام ایسے آئے جہاں پاکستان
سے کئی گنا بڑے بھارت کو عسکری، جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ شکستَ
فاش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔جنگ کا پہلا محاذ لاہور ہی ہندوستان کے مذموم
ارادوں کی ناکامی کا محاذ بن گیا۔ عالمی مبصروں نے میدانَ جنگ سے ہندوستانی
جنرل جوکہ اس وقت لاہور پر حملہ آور ہونے والی ١٥ انفنٹری ڈوژن کی کمانڈ کر
رہے تھے کے میدانَ جنگ سے جان بچا کر فرار ہونے کی خبروں کی تصدیق کی اور
پھر پاک فوج نے ہندوستان کی ٣۔جاٹ ریجمنٹ کا لاہور میں جو حال کیا اُس پر
ہندوستانی تجزیہ کاروں نے بھی گواہی دی اور ہندوستانی فوج پر تشویش کے بادل
منڈلانے لگے لیکن ہندوستان نواز تجزیہ کاروں کو بھارت کی یہ واضح ناکامیاں
دکھائی ہی نہیں دیتیں۔
جنگَ ستمبر میں بھارت کو پاکستانی فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کے لیئے کیے
گئے حملے میں بھی شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور چونڈہ بھارتی شرمن اور
سنچورین ٹینکوں کا قبرستان بن گیا گو کہ بعد میں بھھارت نے اصل اُتر نامی
جنگ میں جو کہ امرتسر کے قرب و جوار میں لڑی گئی پاکستان سے اس شکست کا
بدلہ لینے کی کوشش کی۔ بہر حال چونڈہ کی ٹینکوں کی جنگ دوسری جنگَ عظیم کے
بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی جس کے سامنے اصل اُتر نامی جنگ کوئی معنے
نہیں رکھتی۔
بھارت کو فضائی جنگ میں بھی اپنے سے کئی گُنا چھوٹے مُلک کے ہاتھوں شرم ناک
شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ٍضائی جنگ میں بھارت اپنے سو سے زیادہ لڑاکا
تیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بھارت کے کچھ لڑاکا پائلٹس کو زندہ گرفتار بھی
کیا گیا۔ ایم ایم عالم اور سرفراز رفیقی کے بھارت کی بنیادوں کو ہلا دینے
والے حملوں کو آج بھی جنگوں کی تاریخ میں سنہری حروف میں یاد کی جاتی ہیں ۔
بھارت نے فضائی جنگ میں اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لیے مؤقف اختیار کیا کہ
اُس کے جہاز چین کی طرف سے متوقع حملے کے پیشَ نظر دوسرے محاذوں پر تھے
لیکن فضائی جنگ کے ماہر بھارت کے اس استدلال کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے
زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
بحری جنگ میں بھی پاکستانی آبدوز غازی نے تنَ تنہا دوارکا کی ناکہ بندی
کرکے بھارت کی بحری طاقت مفلوج کر کے رکھ دیا اور یوں بھارتی بحری جہازوں
کو بحرہء ہند میں نبرد آزما دیکھنے کی دُنیا کی حسرت حسرت ہی رہ گئی۔
المختصر یہ سترہ دنوں کی اس جنگ میں بھارت پر یہ بات واضح ہو گئی کہ جنگیں
حجم اور اسلحے سے نہیں اللہ کی مدد اور وطن کی محبت کی طاقت سے لڑی جاتی
ہیں جس میں بھارت پاکستانی افواج اور عوام کا عُشرَ عشیر بھی نہیں تھا اور
انہی دو عناصر کی کمی ١٩٧١ کی جنگ میں پاستان کی شکست کا باعث بنی کیوں کہ
١٩٦٥ سے ١٩٧١ کے عرصے کے دوران بھارتی مفکروں نے پاکستان کی انہ ہی دو
طاقتوں کو ختم کرنے پر اپنی تمام طاقتیں خرچ کیں۔ |
|