عید پر گائے کا گوشت کھانا کیوں ضروری ہے ؟
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف
کی 2004 کی پاکستان بھارت کرکٹ ڈپلومیسی کے دوران اگرچہ بھارت میں کانگریس
کی حکومت تھی تاہم نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسند ہندو مذہبی جنونی
بھارتی ریاست گجرات میں برسر اقتدار تھے۔کرکٹ ڈپلومیسی کے دوران مجھے نئی
دہلی میں قیام کا موقع ملا۔انضمام الحق کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم
فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں بھارتی ٹیم سے مقابلے کے لیے تیار تھی ۔ ہماری
بس فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک پر رواں دواں تھی، ایک
جگہ اچانگ بس رک گئی، بس کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو اور بھی کئی گاڑیاں رکی
ہوئی تھیں، ٹریفک کی کوئی بد انتظامی تھی اور نہ ہی کوئی اشارہ پھر بھی
گاڑیاں رکنے پر حیرت ہوئی ،غور سے دیکھا تو گائے کی قیادت میںسڑک پر سے کچھ
جانور گزر رہے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ذھن میں پہلا خیال یہ آیا کہ
گاڑی سے اتر کر ایک منٹ کی محنت کی جائے ، جانوروں کو ہانک کر سٹرک سے بھگا
لیا جائے اس طرح راستہ صاف ہونے پر ٹریفک بھی بحال ہو جائے گی اور ہمارا
سفر بھی ۔ پاکستان ہائی کمشن نئی دہلی کے اس وقت کے پریس منسٹر رائے ریاض
حسین میری رائے سے متفق نہیں تھے ۔ بولے ، اوہ میرے بھائی دنگے فساد کراو
گئے کیا؟ اگر جانوروں کے ایسے گروپ جس میں ماتا جی (گائے )بھی موجود ہوں کو
جبرا سڑک سے ہٹایا جائے، لاٹھی سے مار کر راستہ صاف کرنے کی کوشش کی جائے
توہندو مذہبی جنونی اس عمل کو ماتا جی کی توہین تصور کرتے ہیں، سمجھ لیجیے
دنگے فساد شروع ہوگئے ۔ اس لیے انتظار کریں ماتا جی اپنے ساتھیوں کے ساتھ
سڑک سے گزر جائے گی تو ٹریفک بھی بحال ہو جائے گی۔ بھارت میں کئی حیران کر
دینے والی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ مذہبی جنون سے سرشار ہندو
گائے کو ماتا جی یعنی ماں قرار دیتے ہیں، حیرت ہے ما ں کی محبت سے سرشار
ہندو باپ کے کردار سے ہی نالاں ہیں۔ حالانکہ ان سب کو پتہ ہے کہ ما ں نہ
ہوتی تو باپ بھی نہ ہوتا۔فرض کر لیجیے اگر ہم پری موکش سیٹھ ( ڈپٹی
ایڈووکیٹ جنرل جموں و کشمیر) کو ہی لیںتو وہ گائے کو اپنی ماں ( ماتاجی )
تسلیم کرتے ہیںگائے اگر ان کی ماں ہے توان کی اصلی ماں اس کی بہن لگے گی
اور اس لحاظ سے اصولا گائے کا بیٹا ان کا بھائی ہونا چاہئے ۔ اصول تو یہ
بھی ہے کہ اس نظریہ سے بیل پری موکش سیٹھ کا والد ہونا چاہیے۔ حیرت ہے پری
موکش سیٹھ گائے کو تو ماں تسلیم کرتے ہیں بیل کو باپ بنانے پر تیار
نہیں۔پری موکش سیٹھ نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں دائر اپنی عرض داشت میں
بھی اپنی ماں کے حقوق کی بات کی باپ کی شان میں ایک جملہ تک نہیں لکھا۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس دھیرج سنگھ کوتوال اور جسٹس جنک راج کوتوال
پر مشتمل بنچ نے انصاف کا بول بالا کرتے ہوے رنبیر پینل کوڈ کی دفعہ 298الف
کے تحت گائے، بیل کو ذبح کرنے پر پابندی لگادی خلاف ورزی پر 10سال کی سزا
قید اور جرمانہ بھی یاد دلایا۔ دو تین دھائی پہلے تک ہمارے ہاں بھی ہندوانہ
رسوم کا رواج عام تھا ۔ عورتین مکئی کے دانے سکھانے اور محفوظ کرنے کے لیے
زمین پر پہلے گائے کی گوبر سے لپائی کرتیں تھیں ان عورتوں کے خیال میں دانے
سکھانے اور محفوظ کرنے کے لیے انہیں گوبر پر رکھ کر سکھانا ضروری ہوتا ہے۔
حالات بدلتے گئے اور دیہاتی عورتوں کو پتہ چلنے لگا کہ گوبر کی لپائی اور
سورج کی گرمی کا کوئی تال میل نہیں ہے ۔گوبر کی لپائی نہ بھی کی جائے تو
سورج کی تپش میں فرق نہیں پڑتا۔ ان دنوں ہم بہت چھوٹے تھے اسکی وجہ ہمیں
سمجھ میں آسکی اور نہ کسی نے بتائی ۔ گائے کی گوبر کی لپائی کرنے والی بزرگ
خواتین نے یہ عمل تقسیم سے پہلے اپنے ہندوو پڑوسیوں سے سیکھا ہوگا۔ اب وہ
بزرگ خواتین ہیں نہ ہندوانہ رسوم مگر ایسے بچے ضرور موجود ہیں جو فیشن کے
طور پر ویجیٹیرین ( سبزی خور) کہلاتے ہیں وغیرہ ۔ کیپٹن حسین خان شہید
پونچھ خطے کے بڑے عسکری کمانڈر تھے انہوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح جدوجہد
شروع کی تھی، ڈوگروں کو اس خطے سے مار بھگانے میں ان کا ناقابل فراموش
کردار ہے ۔ کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کی محرک گائے بھی تھی۔
ان دنوں ایک بار پھر گائے کے تنازعے نے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر
میں ہیجان برپا کر دیا ہے ۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے بڑے جانوروں
کو ذبح کرنے پر پابندی کے حکم نے ریاست کی مسلمان اکثریت کو اشتعال دلا دیا
ہے ۔۔ مہاراجہ رن بیرسنگھ نے کشمیر میں رن بیر پینل کوڈ متعارف کرایا تھا
جس کے تحت گاوکشی کی سزا 10 سالہ قید مقرر تھی۔1932 میں ہری سنگھ نے اس
قانون کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھا۔۔ کشمیر میں رائج رن بیر پینل
کوڈ یا آر پی سی مذہبی جنون سے سرشار مہاراجہ رن بیرسنگھ کی ہی دین ہے۔۔
مہاراجہ کے قانون کے تحت ریاست میں گائے اور دوسرے بڑے جانوروں کو ذبح کرنے
پر پابندی لگا دی گئی تھی ، تقسیم برصغیر کے بعد کشمیر کی ریاست بھی تقسیم
ہوگئی ، ریاست کا ایک حصہ بھارت کے قبضے میں آگیا۔بھارتی آئین کی دفعہ
370کے تحت بھارتی کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی ۔کشمیر میں رنبیر پینل کوڈ
کا قانون بھی رہنے دیا گیا ور بھارتی پینل کوڈ بھی متعارف کرایا گیا۔۔ چند
ایک کے علاوہ قوانین ایک جیسے ہیں۔ سٹیٹ سبجیکٹ ایکٹ کے تحت غیر ریاستی
افراد کی مستقل سکونت پر پابندی ہے جبکہ رنبیر پینل کوڈ کی دفعہ 198اے کے
تحت ریاست میں جانوروں کے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ 1947 میںتقسیم کشمیر کے
ساتھ ہی ڈوگرہ شاہی کا صد سالہ دور ختم ہوگیا مگر ڈوگرہ شاہی قانون برقرار
رہا۔ اس قانون کے خلاف کشمیر میں تحریکیں چلیں ،احتجاج ہوے چنانچے قانون
ختم تو نہ کیا گیا اس پر عمل درمد معطل کر دیا گیا ۔اب83سال بعد جموں
وکشمیر ہائی کورٹ نے گاو کشی قانون پر عمل درمد کا حکم دیا ہے ۔گائے ہندو
مذہبی سیاست بازوں کے نزدیک محترم بلکہ ہندووں کی ماں ہے، ہمارے ہاں اس کی
اہمیت یہ ہے کہ گائے دودھ دینے والا گھاس خور جانور ہے اس کا دودھ گھی دہی
اور گوشت کھانا جائز ہے۔ گائے ایک ایسا جانور ہے جو انسان کو غذا فراہم
کرتا ہے۔ اگر بات صرف ماتا جی کے احترام تک ہوتی تو ہمیں کوئی اعتراض نہ
تھا مگر اب تو ہندو مذہبی سیاست بازوں نے گائے کے پیشاب کو بھی تریاق سمجھ
لیا ہے ، اسے شوگر اور دوسری بیماریوں کا تریاق سمجھ کر پی رہے ہیں۔ ہوسکتا
ہے کل جموں و کشمیر میں عدالت کے ہندو جج یہ بھی حکم صادر کردیں کہ کشمیری
بیماریوں سے بچنے کے لیے اس تریاق کا استعمال کریں ۔ہمارے ہاں کچھ روشن
خیال مہاراجہ کے دور کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اس وقت ریاست ایک اکائی
کی صورت میں موجود تھی مگر ایسی آکائی کا کیا فائدہ جس میں اکثریتی آبادی
کو مذھبی آزادی اور اپنی مرضی کے رسم و رواج کا اختیار نہ ہو۔اس ساری صورت
حال کے تناظر میں اس دفعہ میں نے گائے کی قربانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
گائے کی قربانی سے جموں وکشمیر کے مسلمانوں سے یک جہتی ہوگی ۔میرے خیال میں
اس دفعہ عید پر گائے کا گوشت کھانا اسی لیے ضروری ہے۔ |
|