1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم
کا فیصلہ کیا اور اسکے پچپن فیصد حصہ پر ایک آزاد شیطانی ریاست کے قیام کا
فارمولا پیش کیا گیا، 1948 میں بن گوریان نے اسرائیل کی آزادی کا اعلان
کردیا اور اس طرح پہلی مرتبہ دنیا میں یہ ناسور وجود میں آیا، اور دیکھتے
ہی دیکھتے نہتے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے ناپاک عزائم سے
انسانیت نواز طبقہ کو آگاہ کرا یا، بے شمار غریب افراد ان دجالیت کے
پرستاروں کے ظلم و ستم سے تن تنگ آکر ارض فلسطین سے ہجرت کر کے مختلف عرب
ممالک میں قیام پذیر ہو گئے،، 1947 میں قائم کی گئی شیطانی سلطنت اسرائیل
اب دنیا کے طاقتور ممالک میں شمار کی جا رہی ہے ۔
اسرائیل کا وجود در اصل امریکہ اور برطانیہ کا مرہون منت ہے، برطانوی
سامراج کے زمانہ میں ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں بسانے
کا عمل شروع کر دیا گیا تھا، کیونکہ یہ ممالک یہودیوں کے مکر و فریب سے
واقف تھے اور یہ انہیں اپنے ملک میں بسانے کی غلطی نہیں کر سکتے تھے،
چنانچہ اس آباد کاری کو مذہبی رنگ دیدیا گیا اور تاریخ سے انحراف کرتے
ہوئے ہیکل سلیمانی کا رنگ چڑھا دیا گیا، برطانوی حکومت نے ان دجالیت کے
پرستاروں کو بسانے کے بعد مکمل طور پر انہیں فوجی مشقیں کرائی اور انہیں
معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے فن سکھائے، غریب فلسطینیوں کے
بالمقابل انہیں مالی مدد دیکر ان کی معاشی حالت کو مستحکم کیا، اور ہر طرح
سے اہل فلسطین کو کمزور سے کمزور تر بنانے کی کوشش کی گئی، زندگی کے تمام
وسائل یہودیوں کے قبضہ تصرف میں دیدیا گیا، تاکہ کوئی شیطان کے ان پجاریوں
کی سلطنت میں کمند ڈالنے والا باقی نہ رہے، نتیجہ میں آج تک اسرائیل مسلسل
اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہا ہے، اسرائیل نے فلسطین پر صرف
قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کی ایک ایسی تاریخ مرتب کردی جسے چنگیز خان کی
درندہ صفت فوج بھی سن کر شرما جائے، وہ تو صحرا بیاباں میں رہتے تھے جو
انسانی دنیا کے اخلاق و عادات سے ناواقف تھے لیکن یہ درندے انسانی دنیا کے
ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں، خود کو تہذیب و تمدن کے خالق تصور کرتے ہیں۔ ہٹلر
کیوں ان یہودیوں کا قتل عام کیا تھا وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے ان مکار
فریب یہودیوں کی شیطانیت دیکھ کر۔
1948 کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے فلسطین کی بستیوں پر ٹینک چلادیے اور نہتے
فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور جو باقی زندہ بچ گئے انہیں بندوق کی
نوک پر ملک چھوڑنے کیلئے مجبور کیا گیااور چار سو سے زائد عرب دیہاتوں کو
مکمل طور پر کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا 1967 کی جنگ میں اسرائیلی درندوں
نے عرب کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا بعد ازاں 1977 میں دوبارہ یہودیوں کی
آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں زبردستی کئی ہزار اہل فلسطین بے
گھر کر دئیے گئے 1982 میں دجال کے ان پجاریوں نے ایک فلسطینی کیمپ پر اندھا
دھند فائرنگ کر کے ایک ہزار سے زائد افراد کو شہید کر دیا، اور اب تک ظلم و
ستم کا بازار گرم ہے اور کوئی بھی ان بے سہارا فلسطینیوں کی مدد کیلئے تیار
نہیں ہے، ہر دو سے چار سال بعد دجال کے پجاری معصوم فلسطینیوں پر ہیلی
کاپٹر، ٹینک اور جدید قسم کے اسلحہ سے تیار ہو کر حملہ آور ہو تے ہیں،
دنیا کے چند ممالک میں صداء احتجاج بلند کی جاتی ہے، ہنگامی طور پر اقوام
متحدہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے امریکہ اور اس کے حوارین دجال کے پرستاروں
کے حق میں بولتے ہیں اور پھر ثالثی کا ڈرامہ شروع کیا جاتا ہے، چند قرارداد
پیش کی جاتی ہے، کچھ نئے منصوبے بنتے ہیں،؛ دو چار کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے
اور کانفرنس کا اختتام ہو جاتا ہے فلسطین میں جاری یہ جنگ عالم انسانیت کی
سب سے عجیب جنگ ہے، ایک طرف جنگی ہتھیاروں سے لیس شیطانی لشکر ہے، دوسری
طرف نہتے، لاچار اور غریب عوام ہے جو خدا وحدہ لاشریک لہ کے پرستار ہیں،
ایک طرف میزائل، ٹینک، مشین گن، اور حفاظتی وردی میں ملبوس خدا کے دشمن ہیں
تو دوسری طرف غلیل، پتھر اور اینٹ کو ہتھیار بناکر لڑنے والے دجالیت کے
منکر ہیں، ایک طرف سے بم برسائے جاتے ہیں تو دوسری طرف سے ارض فلسطین کے
ننھے منے گلاب معصوم چہرے والے بچے فتح و شکست کی رسم دنیا سے بے نیاز پتھر
لیکر بموں کے مقابلے کیلئے آجاتے ہیں، نہ جانے کب تک یہ کھیل کھیلا جاتا
رہے گا ، کب تک معصوم فلسطینیوں کے گھر بار اجاڑے جائیں گے، کب تک خون میں
لپٹی معصوم بچوں کی لاشیں ہمیں رلائیں گی۔ کیا یہ سلسلہ یوںہی چلتا رہے گا
یا پھر اس کی روک تھام کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، امریکہ اور اس
کے حواریین یا پھر اس کی زرخرید لونڈی اقوام متحدہ کے پاس اس مسئلہ کا صرف
ایک ہی حل ہے اور وہ ہے عظیم تر اسرائیل کا وجود جہاں بیٹھ کر دجال کے
پجاری پوری دنیا میں حکومت کر سکے موجودہ فلسطین ہر طرح سے قابل رحم ہے اور
آزاد دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ ہے، جسے یہودیوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا
ہے، ان آزاد انسانوں پر جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے، اور
یہودیوں نے مسلسل ظلم و ستم کی آڑ میں بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا ہے،
مسلمانوں کو آئے دن نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے، مصلیوں پر طرح طرح کے
الزامات لگا کر زنداں کی تاریک کوٹھریوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، زیر زمین
کھدائی اور مسلسل گولی باری اور بمباری کی وجہ سے اقصیٰ کی دیواریں کمزور
سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے، غریب و نادار فلسطینی آج بھی اپنا سب کچھ
اقصیٰ کی حفاظت کی خاطر لٹانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، لیکن جن کے پاس دفاع
کیلئے کوئی مضبوط بند نہ ہو وہ محض قوت ارادی و اعتمادی کی بنا پر کب تک
قائم رہے گی، جو خود برباد کر دئیے گئے ہیں وہ دوسروں کو کب تک آباد رکھیں
گے، پھر بھی یہ محض ایمانی حرارت ہے کہ مسلسل سات دہائیوں سے فلسطینی آج
بھی دیوار آہنی بنے ہوئے ہیں، اور اقصی کی حفاظت اپنے آخری سانس تک جاری
رکھنے کا عزم کرچکے ہیں اقصی سے مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے، یہی وہ مقام
ہے جہاں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر معراج کی شروعات کی تھی،
چودہ سو سالہ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں نے اقصی کی حفاظت کی ہے اور مسلمان
ہی؛ ہی اس کے ذمہ دار رہے ہیں، مسلمان ہونے والے یہ وہی فلسطینی ہیں جو کئی
ہزار سال سے اقصی کے ارد گرد آباد ہیں، اس طویل عرصہ میں صرف نوے سال کا
عرصہ گزرا ہے جس میں صلیبیوں نے اقصی پر قبضہ کر لیا تھا جس کی سرکوبی
کیلئے صلاح الدین ایوبی کو30/35 سال تک مسلسل جنگ کے میدان میں رہنا پڑا
اور اب ایک مرتبہ پھر صلیبیوں کی ہی مدد سے دنیا کی ذلیل ترین قوم اور دجال
کے پجاری حملہ آور ہیں جن کی سرکوبی کی خاطر پھر اقصی کی دیواریں ایوبی کو
صدائیں دے رہی ہے۔ چیخ چیخ کر پکار رہی ہے … اے مسلمانوں آئو اقصی کی
بیٹیوں کی چادریں چھنی جارہی ہیں … مسجد اقصی میں انہیں بے حرمت کیا جارہا
ہے معصوم بچے ننھے ننھے ہاتھوں میں غلیل و پتھر لیے ہماری کی حفاظت پر
مامور ہیں … کیا اب بھی ہم اقصیٰ کی ٓاواز پر لبیک نہیں گے ؟ کیا ہمارا فرض
نہیں بنتا کہ ہم ان کے حق میں آواز اٹھائیں۔ لیکن ہمیں کیا فرق پڑتا ہے
مسجدوں کے شہید ہوجانے سے ارے ان سے پوچھو اقصی کی حقیقت کیا ہے جو آئے دن
صحن اقصی میں غاصب یہودیوں سے پنجہ آزمائی کرکے جام شہادت نوش کرتے ہیں ہم
سے تو اپنی بابری مسجد بچائی نہ گئی ہم اقصی کی کیا خبر لیں گے … اے
مسلمانو یاد رکھو… اسی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے اور دعا کرتے رہے تو
تاریخ گواہ ہے اللہ کسی ایسی قوم کو مسلط کردے گا تم پر جو تمہیں تارتاریوں
کی طرح تہہ تیغ کردیں گے اور پھر ان ہی میں سے کسی کو پاسباں منتخب کریں
گے… آزمائش اور عذاب کے فرق کو سمجھو…حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے
اپنے اندر تبدیلی لائیں اقصی کی بازیابی کے لئے تن من دھن سے اٹھیں خدا قسم
یہودی بڑی ذلیل قوم ہے اللہ ہمیں اس پر غلبہ عطا فرمائیں گے… ان شاء اللہ۔
اے فلسطینی شیر دل مجاھدو ہم مجبور ہیں لیکن تمہارے غم میں برابر کے شریک
ہیں اقصی صرف تمہارا ہی قبلہ اول نہیں بلکہ ہم تمام کا ہے ان شاء اللہ اس
پہ کوئی گزند نہ آنے دیں گے… اور مجھے آپ کے اس داودی پتھر پہ پورا یقین
ہے کہ وہ پتھر ان کافروں کو تہہ تیغ کردے گا ان شاء اللہ۔ حالیہ ایک ہفتہ
سے یہودی سال نو کے موقع پر ایک بار پھر اقصیٰ کی دیواریں لہو لہان ہیں
کھڑکیاں توڑی جارہی ہیں گیٹ اکھاڑے جارہے ہیں لیکن پورے عالم اسلام سے کسی
بھی مسلم حکمراں کے آواز فلسطین کے حق میں نہیں اُٹھ رہی ہے کل کچھ
فلسطینی بچیاں اسلامی ممالک کا جھنڈا لیے ہوئے قبۃ الصخرا کے مین گیٹ پر
بیٹھی ہوئیں تھیں اس آس پر کہ کوئی تو ہماری دادرسی کرے وہ تو بھلا ہو
اردگان کا جو ڈٹ کر ہر محاذ پر ہر ممکن طریقے سے مدد کرتے ہیں اور اللہ
جزائے خیر دے شاہ عرب شاہ سلمان کو جنہوں نے اس قضیہ پر اپنی خاموشی توڑی
ہے اور اسرائیل کے خلاف سخت نوٹس لینے کا اشارہ دیا ہے۔ یاد رکھیں اقصی یہ
صرف اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے ہر کلمہ گو
مسلمان پر ضروری ہے کہ اقصی کی حفاظت کیلئے سعی کریں، خصوصاً اہل عرب جو
مکمل طور پر اسلامی ممالک کہلاتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ بحیثیت مسلم
قائد ہونے کہ اہل فلسطین کو ظالموں کے شکنجہ سے بچائے اور اقصی کی حفاظت کی
خاطر ایوبی کا عزم پیدا کر کے دنیا ئے ظلم و ستم پر حملہ آور ہو، بصورت
دیگر وہ دن دور نہیں جب ہم اقصی کا نام تو سنیں گے لیکن اقصی کا نام و نشان
ختم ہو چکا ہو گا اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی ہوگا اور اقصی کے آنسوؤں کے
سیلاب میں ہم تمام گناہگار ہوں گے۔ |