سیاسی زلزلہ سے نبر دآزما نیپال کا مستحسن فیصلہ

ہندوستان اور چین کی سرحدوں کے درمیان واقع جنوبی ایشا کا پہاڑی ملک نیپال قدرتی طوفان سے نجات پانے کے بعد ان دنوں ایک سیاسی طوفان سے نبرد آزما ہے ۔تقریبا سترہ سالوں کی جدوجہد کے بعدنیپال کی شاہی حکومت کے جمہوری نظام میں تبدیل ہوجانے کے بعد بھی سیاسی زلزلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ حالیہ دنوں میں بھی ایک ایسی ہی کوشش ہندو شدت پسندوں کے جانب سے کی جارہی تھی ۔ نیپال کے آئین سے سیکولر لفظ ہٹانے کا مطالبہ مسلسل بڑھتا جارہا تھا ۔ وہاں کی انتہاء پسند راشٹریہ پرجنتراپارٹی نے آئین سے سیکولر کا لفظ ہٹانے کاپروپوزل دے رکھاتھا۔جگہ جگہ پرتشدد مظاہر ہ کیا جارہا تھا۔ہندوستان کی نئی بی جے پی حکومت بھی اس سلسلے میں موئثر کردار اداکررہی تھی ۔ حکومت بننے کے فورا بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا سب سے پہلے نیپال جانا ،وہاں کی مندروں میں پوجا پاٹ کرنا، موقع بہ موقع نیپال کے وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کرنا اور پھر کئی وزرا کا خفیہ دورہ اسی تناظر میں تھا ۔ نیپال میں آئے بتاہ کن زلزلہ کے دوران ہندوستان نے اپنی امداد کی تشہیر جس انداز سے کرائی تھی اس سے بھی صاف ظاہر ہورہاتھا کہ نیپال ل پر یہ احسان بے مقصد نہیں ہے ؛لیکن ان تمام دباؤ کے درمیان وہاں کی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے آئین کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیااور ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کردیا کہ نیپال ایک سیکولرملک رہے گا ۔

نیپال دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جس کی تاریخ مختلف نشیب وفراز رکھتی ہے ۔147,181 مربع کیلومیٹر پر مشتمل اس ملک کی سرحد یں شمال میں چین اور بقیہ تین اطراف جنوب ، مغرب اور مشرق میں ہندوستان سے ملتی ہیں ۔ نیپال رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا 93 واں سب سے بڑا اور آبادی کے اعتبار سے 41 واں سب سے بڑا ملک کہلاتا ہے ۔ یہاں کی کل آبادی 27 ملین نفوس پر مشتمل ہے جس میں 81.3 فیصد ہندو، 9 فیصد بڈھشٹ ،4.5 فیصد مسلمان ،3 فیصد کراٹزم اور 1-4 فیصد عیسائی شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نیپال کا لفظ نیوار قوم کے معنی رکھتا ہے، جو ان کی زبان نیواری کے لفظ’’نیپا‘‘سے مشتق ہیـ نیوار قوم وادی کھٹمنڈو میں پائی جاتی ہے اور نیپا اس قوم کا لقب ہیـ نیپال میں صرف 30 فیصد آبادی نیواری بطور مادری زبان بولتی ہے۔

نیتھولک تحقیق کے مطابق ہمالیائی خطے میں تقریبا 11 ہزار سال سے آنسان آباد ہیں تاہم یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ نیپال میں گذشتہ2500 سالوں سے مستقل انسانی آبادی پائی جاتی ہے جو کرات قبیلہ پر مشتمل تھا ۔ بعد میں آرین سماج اور ڈراویڈن کے لوگوں نے ہندوستان سے یہاں ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ 1768 میں پرتھوی نارائن شاہ نے نیپال کی از سر نو تنظیم کی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکھری سلطنت کو ایک ساتھ ملاکر گورکھ شاہی سطلنت کی بنیاد ڈالی ۔ جب سے 2008 تک یہاں اسی شاہ فیملی کا رائج کردہ شاہی نظام قائم رہا ۔اس دورا ن گورکھ شاہی نظام کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں جس میں 1960 کی تحریک قابل ذکر ہے تاہم کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکی البتہ 1885 میں اقتدار نارائن شاہ کے خاندان سے منتقل ہوکر رانا فیملی میں آگیا یہ الگ بات ہے کہ دونوں کا تعلق راجپوت ذات سے تھا۔

1990 کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے نئے جو ش اور نئے ولولہ کے ساتھ آمریت کے خلاف ایک نئی تحریک شروع کی جس کو دبانے میں نیپال کی شاہی حکومت ناکام رہی۔1992 میں نیپال میں پیدا شدہ شدید اقتصادی بحران کے دوران نیپال میں کئی گروپوں نے مل کر حکومت کی پالیسی کے خلاف ایک مشترکہ احتجاج کیاجس کے بعد جگہ جگہ ملک بھر میں فسادات کے واقعات پیش آئے۔ عوام اور پولس کے درمیان جھڑ پیں ہوئیں ۔فروری1996 میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال نے ملک کی پارلیمانی شاہی حکومت کو نئی عوامی جمہوری حکومت میں تبدیل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر تحریک شروع کردی ۔ڈاکٹر بابورام بھٹاریہ اور پشپا کمال ڈھاکی قیادت میں یہ تحریک دن بہ بڑھتی رہی اور نیپال کے کئی علاقوں میں موادیوں نے وفاقی جمہوری نظام قائم کردیا۔ جس میں رولپا ،روکم ،ججارکوٹ ،گورکھ اور سندھولی جیسے اضلاع شامل ہیں۔یکم جون 2001 کو نیپال میں تاریخ کا ایک المناک واقعہ پیش آیا ، شہزادہ ڈیپنڈرا نے ایک تقریب کے دوران شاہی فیملی کے نوافراد کا قتل کرکے خود بھی خود کشی کرلی ۔ مرنے والوں میں بادشاہ برنڈرا اور ملکہ ایشوریا بھی شامل تھے۔ اس کے بعد برنڈر ا کے بھائی جینندر نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا اور نظام حکومت میں بڑی تبدیلی کردی ۔ لیکن ملک کو جمہوری بنانے کی جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ تھمی نہیں ۔ یکم فروری2005 میں جینندرا نے ایمرجنسی نافذ کردی لیکن جمہوریت کے پروانوں کی کوششیں جاری رہی ۔ 2006 میں تقریبا سات پارٹیوں نے متحد ہوکر جینندر سے تمام اختیارات سلب کرکے نظام تبدیل کرنے پر مجبور کیا بالآخر24 دسمبر 2007 کو برسراقتدار جماعت اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال سمیت کل سات پارٹیوں نے نیپال کے برسوں پرانے شاہی نظام کے خاتمہ اور جمہوری وفاقی نظام کے قیام پر اتفاق کیا ۔10 اپریل 2008 میں منعقدہ انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال نے سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد نیپال کے نظام کو وفاقی جمہوری نظام میں تبدیل کردیااور 28 مئی 2008 کو نو منتخب اسمبلی نے 240 سالہ قدیم نظام کا بالکلیہ خاتمہ کرتے ہوئے نیپال کو وفاقی جمہوری سیکولر ملک (Federal Democratic Republic) نامزد کردیا اور اس طرح دنیا کا واحد ہندو ملک بھی سیکولر بن گیا ۔ وفاقی جمہوریہ سیکولر نیپال کے رام باران یادو پہلے صدر اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کے سربراہ ڈاکٹر پشپا کمال ڈھااولین وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔
حالیہ دنوں میں آئین سے اسی سیکو لر لفظ کو ہٹانے کی کوشش بہت تیز تھی جس میں سب سے زیادہ دراندازی سر حد پار سے کی جارہی تھی تاہم اس میں کامیابی نہیں ملی اور 14 ستمبر 2015 کو ہوئی ووٹنگ میں دوتہائی سے زائد ممبران اسمبلی نے ہندوراشٹر کے مطالبہ کو مستردکرتے ہوئے نیپال کو سیکولر اسٹیٹ برقرار رکھنے کی حمایت کی۔ 564 اراکین پر مشتمل قانون ساز اسمبلی میں سے صرف 21 نے نیپال کو ہندو راشٹر بنانے کی تائید کی بقیہ تمام مخالفت کرتے ہوئے بیک زبان ہوکر کہاکہ ملک کو سیکولرم کا تمغہ بڑی قربانیوں کے بعد ملا ہے اس لئے ہرگز میں اس کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ۔ قانون ساز ادارے کے اس فیصلہ کے بعد نیپال میں شد ت پسندوں نے جگہ جگہ فساد برپا شروع کردیا ہے ۔ مختلف مقامات پر پولس کے ساتھ تصادم کیذہ واقعات پیش آئے ہیں ۔

برسبیل تذکرہ نیپال میں اسلام کی تاریخ کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں ۔چھٹی صدی عیسوی میں یہاں جنوبی اور شمالی ہند ، غربی کشمیر اور شمالی تبت کے راستے اسلام داخل ہوا۔شاید اسی وجہ سے اس ملک میں تین مختلف ثقافث کے مسلمان ملتے ہیں۔سب نیپالی مسلمان ہونے کے باوجود بھی کلچر ، تہذیب ، زبان اور تعلیم کے اعتبارسے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔یہ اختلاف کبھی کبھی ان کے درمیان تلخی کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔نیپال کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اسلام کے بارے میں جاننا تو ممکن نہیں پر یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ 14ویں صدی میں اسلام نیپال میں داخل ہواجس میں صوفیاء کرام کا بڑا دخل ہے۔ اس کی ایک اہم دلیل حضرت شاہ غیاث الدین کے مزار کا شاہی محل کے نزدیک ہونا اور اس سے سوکیلو میٹر کے فاصلے پر ان کی بنائی ہوئی مسجد کشمیری مسجد کا ہونا ہے ۔ہندوستان سے ملحق اضلاح میں دینی مدارس کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔ جنک پور ، روٹہٹ اور گور کے علاقوں میں اردو کا بھی بول بالا ہے ۔ بلکہ یوں کہئے نیپال کے یہ علاقے اپنی زیادہ تر ضرورت ہندوستان سے ہی پوری کرتے ہیں ۔اور وہاں کی ثقافت تقریبا شمالی ہند کے مانند ہے ۔نیپال اور ہندوستان کے کچھ علاقے حغرافیائی طور پر اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ دونوں کے درمیان امتیاز کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ مثال کے طور پر کنہواں شمسی بہت ہی مشہور ہے ۔ جبکہ دونوں لفظ دو مختلف گاؤں کا نام ہے لیکن دونوں کو ایک ساتھ بولاجاتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ کنہواں ہندوستان کا گاؤں ہے اور شمشی نیپال کا لیکن ایک کے بغیر دوسرے کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے اور براہ راست ذہن کی رسائی نہیں ہوپاتی ہے ۔ ان دونوں گاؤں میں کئی اہم دینی درس گا ہ بھی ہے جس میں ہندوستان کی سرحد پر واقع کنہواں گاؤں کا مدرسہ جامعہ عربیہ اشر ف العلوم اپنی شہرت کی انتہاکو پہچ چکا ہے ۔ اس ادارے کے قیام کو تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور اس کا یہ سوسالہ سفر انتہائی روشن و تابناک ہے ۔ عربی درجات میں بہا ر میں کوئی اور مدرسہ اس کا ثانی نہیں ہے ۔ لب لبا ب اس گفتگو کا یہی ہے کہ نیپال میں مسلمانوں کو ہر طرح کی مذہبی اور فکری آزادی حاصل ہے ۔ مدا رس ، مکاتب اور مساجد بکثرت موجود ہیں ۔ دیگر تمام اسلامی احکامات پر وہ عمل کرتے ہیں لیکن کچھ شدت پسند ہندؤوں کو یہ چیزیں پسند نہیں تھی اس لئے وہ ملک نیپال کے آئین سے سیکولر کا لفظ ہٹاکر مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے فراق میں تھے ۔ وہ دین اسلام کی راہ میں کانٹے بچھانے کی ناپاک سازشیں کررہے تھے جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

خلاصہ یہ کہ نیپال کے قانون ساز ادارے کے رہنماؤں نے ہند و راشٹر کے مطالبہ کو ٹھکرا کر آئین میں سیکولر لفظ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کر کے دنیا کے شدت پسندوں کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب شدت پسندی اور مذہب کے نام پر تفریق کرنے کادور ختم ہوچکا ہے ۔ جمہوریت اور سیکولزم کو اپنانے میں ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیپال کے قانون ساز ادارے نے تمام دباؤکو بالائے طاق رکھ کر جس انداز میں مضبوطی کے ساتھ سیکولرزم کی حمایت کی ہے اسی انداز میں جمہوریت اور سیکولرزم کے تقاضے پر بھی عمل کریں گے یا پھر ہندوستان کی طرح وہاں بھی اکثریت و اقلیت کا پیمانہ نافذ کیا جائے گا ۔ اقلیتی طبقہ کے ساتھ بھید بھاؤ اور تفریق برتی جائے گی ۔ سیکولر کا لفظ صرف آئین کا حصہ بنارہے گا اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جائے گا۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180852 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More