علامہ سید ابوالحسن علی ندویؒ فرمایا کرتے تھے کہ
جب ایک شخص خود کو نالائق اور نکمہ سمجھتا ہے تو دُنیا کو اسے لائق اور
فائق سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔یہ جملہ کسی فرد کے برعکس اُس پاکستان
پر صادق آتا ہے جس کے ’’پر جوش مذہبی مقرر‘‘آگ برساتے ہو ئے پاکستان کو
دُنیایئے اسلام کا ’’امریکہ‘‘قرار دیتے نہیں تھکتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے
بالکل برعکس دوسرے مسلم ممالک سے مختلف دکھائی نہیں دیتی ہے ۔یہ پاکستان کا
روزِ اول سے المیہ رہا ہے کہ اس کے مذہبی اور جہادی طبقہ پاکستان کو
’’اسلام کا قلعہ ‘‘اور ’’عالمی کفر‘‘کو فتح کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے
ہوئے نہیں تھکتا ہے وہی دوسری جانب ملک کی ’’لبرل اور سیکولر حکمران
طبقہ‘‘معمولی سی چیزوں کے لئے بھیک مانگتاہوا نظر آتا ہے ۔’’بھیک‘‘کا یہ
شرمناک معاملہ اگر امریکہ اور چین ہی تک محدود رہتا توصورتحال کو قابل فہم
قراردیا جا سکتا تھا مگر جب معاملہ بھارت کا آجاتا ہے تو حالات کسی اور
حقیقت کا سراغ دیتے ہیں ۔
بی ،بی ،سی اردو نے 18ستمبر 2015ء کو پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹیم کے
کپتان شاہد آفریدی کایہ بیان شائع کیا ہے کہ’’ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ
کھیلنا نہیں چاہتا تو ہمیں بھی اس کے پیچھے بھاگنے کی قطعاً ضرورت نہیں
ہے‘‘۔شاہد آفریدی کا یہ ردِ عمل ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کرکٹ
بورڈ بھارت کے ساتھ کرکٹ سیریز کھیلنے کی اپنی طور پر تمام تر کوششیں کرنے
کے بعد بی سی سی آئی کو بھیجے گئے آخری خط کے جواب کا منتظر ہے۔شاہد آفریدی
نے لاہور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مختصر تربیتی کیمپ کے دوران انٹرویو میں
کہا کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم بھارت کے پیچھے کیوں بھاگے جا رہے
ہیں؟انھوں نے کہا ’پاکستان کرکٹ بورڈ نے کئی بار انہیں کھیلنے کی دعوت دی
ہے لیکن اگر وہ ہم سے کھیلنا نہیں چاہتے تو دوسری بھی بڑی ٹیمیں موجود ہیں
جن کے ساتھ کھیلنے کے لیے ہم خوش ہیں۔ ہمیں اپنے گراؤنڈز آباد کرنے چاہئیں
اور بنیادی چیزوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘شاہد آفریدی نے کہا کہ پاکستان نے
ہمیشہ بھارتی ٹیم کو یہاں خوش آمدید کہا ہے اور جب بھارتی ٹیم آخری بار
پاکستان آئی تھی تو اس کی ایسی مہمان نوازی کی گئی تھی کہ کسی نے بھی کسی
ٹیم کی ایسی مہمان نوازی نہیں کی ہوگی۔شاہد آفریدی نے کہا کہ اصل مسئلہ
بھارتی حکومت کی اجازت کا ہے۔(بی بی سی اردوڈاٹ کام 18ستمبر2015ء)
پاکستان کا یہ رویہ صرف کھیل ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سیاست
میں بھی اس کا یہ کمزور پہلوباربار سامنے آتا ہے ۔پاکستان کے بہترین دوست
چین کی تمامتر حمایت کے باوجود پاکستان کا حکمران طبقہ مغربی عشق میں اس
قدر مبتلا ہے کہ چین کی ناراضگی مول لینے سے بھی یہ حضرات گریز نہیں کرتے
ہیں ۔پاکستان امریکہ کی تمام تر بے وفائیوں اور دھوکہ بازیوں کے اس کی محبت
سے آزاد ہو نے کا حوصلہ نہیں کر پاتا ہے کہ اب زرداری کے بعد نواز شریف پر
بھی’’ بھارت کے بڑے بھائی کا بھوت‘‘ سوار ہو چکا ہے حالانکہ خود بھارتی
رویہ اور مودی حکومت کے جارحانہ عزائم بھیک کے برعکس حوصلہ مندی کا تقاضا
کرتے ہیں۔نواز شریف جب بھی بین الاقوامی دورے پر جاتے ہیں تو بھارت کا نام
زبان پر آتے ہی ان کے منہ میں گویا پانی آنے لگتا ہے حالانکہ بھارت کی جو
حالت ہے وہ ’’بھیک برائے مذاکرات‘‘کے برعکس اُمتِ مسلمہ کی ترجمانی کا
تقاضا کرتے ہیں ۔امریکہ تھنک ٹینک نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں مودی کے
برسر اقتدار آنے کے بعد مسائل میں ہوشربا اضافہ ہواہے۔پیو ریسرچ سینٹر کے
مطابق مسائل میں اضافے کے حوالے سے گراف بتدریج بلندی کی جانب گامزن
ہے۔امریکی تھینک ٹینک کے سروے کے مطابق گزشتہ ادوار کی نسبت موجودہ بی جے
پی دور حکومت میں جرائم کی شرح میں 93فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال یہ شرح
85فیصد تھی۔بیروزگار ی کی شرح میں گزشتہ سال یہ شرح 79فیصد جبکہ رواں سال
8فیصد اضافے کیساتھ 87فیصد رہی۔مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی کی
شرح بڑھ کر 87فیصد تک جا پہنچی ہے۔بھارت میں اسکولوں کی ناگفتہ بہ صورتحال
میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔گزشتہ دور میں یہ شرح 50سے 57فیصد تک تھی جبکہ بی
جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہوشربا اضافے کے ساتھ 77فیصد تک جاپہنچی
ہے۔ فضائی آلودگی گزشتہ سال 52فیصد تھی جو رواں سال 22فیصد اضافے کیساتھ
74فیصد بڑھ گئی۔امیروں اور غریبوں میں فرق کا میزانیہ گزشتہ سال 70فیصد تھا
جبکہ یہی میزانیہ رواں سال بڑھ کر 74فیصد ہوگیا۔بھارت میں صحت کی سہولیات
نہ ہونے کے برابر ہیں۔کانگریس کے دور میں صحت کی ناکافی سہولیات کی شرح
38فیصد تھی جبکہ یہی شرح مودی سرکار کے مئی 2014ء کے بعد سے دو گنا اضافے
کیساتھ 68فیصد تک جاپہنچی۔
بھارت کی سب سے بڑی کمزوری مودی سرکار میں یہ سامنے آئی ہے کہ اقلیتیں خوف
اور احساس عدم تحفظ کی شکار ہورہی ہیں ۔سنگھ پریوار کے حوصلے اس قدر بلند
ہو چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندؤ بنانے کے لئے ’’گھر واپسی ‘‘کا اعلانیہ
پروگرام تشکیل دیا جاچکا ہے ۔یہ لوگ مسلمانوں کو ’’حقِ ووٹ‘‘ختم کرنے ،دو
بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی لگانے ،مدارس پر تالا چڑھانے اور
دینی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دینے کا پرزور مطالبہ باربار کرتے ہیں ۔مسلمان
بستیوں پر حملے اور مسلم کش فسادات کے معاملات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹال
دیئے جاتے ہیں ۔گجرات کے قتلِ عام کے ہیروز ملک کے ذی عزت مناصب پر فائز
کئے جا چکے ہیں ۔نریندر مودی نہ صرف غیر مسلم ممالک کے دوروں پر دورے کرتے
ہوئے اپنی شبیہ درست کرنے پر مامور ہے بلکہ اب اس نے مسلم ممالک میں
پاکستان کی ’’ناقص خارجہ پالیسی‘‘کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایران،متحدہ عرب
امارات،بنگلہ دیش ،افغانستان اور دیگر کئی ممالک کو اپنے دامِ میں لانے کی
کامیاب کوششیں بھی کی ہیں ۔ایک طرف پاکستان کے حکمران بین الاقوامی سیاست
میں سرگرم رول تلاش کرنے میں تو ناکام ہیں مگر وہی دوسری اُوور وہ بھارت
جیسے ’’برہمن مزاج ملک‘‘کے سنگھی سپاہیوں کے مزاج اور تصورات سے ناواقفیت
کی وجہ سے یہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت کے سوا بھی دنیا کے کئی ممالک
میں ٹماٹر اور پیاز سستے داموں میں دستیاب ہیں اور بھارتی پیاز اور ٹماٹر
جیسی لذت دوسرے ممالک کے پیاز اور ٹماٹر جیسی ہی ہے ۔ہاں یہ بات درست ہے
بھارت کے پاس پھلوں اور سبزیوں کو قبل ازوقت پکانے کی قدیم ٹیکنالوجی
’’پیشاب کا استعمال‘‘وافر مقدار میں موجود ہے جس کا علم یہاں اس قدر عام ہے
کہ بسااوقات پاکیزہ مزاج لوگ ان پھلوں اور سبزیوں کو استعمال کرنے سے
’’تکدر ‘‘محسوس کرتے ہیں ۔
بھارت بڑا بھائی کیوں ہے؟اور پاکستان کو چھوٹا بھائی کس نے بنادیا؟ان الفاظ
کے استعمال سے ہی مزاجوں پر فرق پڑتا ہے۔اگر آبادی کی بنیاد پر بھارت بڑا
بھائی ہے تو چین عالم انسانیت یا کم سے کم بھارت کا باپ کیوں نہیں ؟ کیا
کوئی بڑا بھائی صرف اس لئے بن جاتا ہے کہ اس کی اولادیں زیادہ ہوتی ہیں ۔یہ
تقسیم ہی فکری اورذہنی شکست کی دلیل ہے ۔پاکستان بھارت سے ایک باپ کی دو
اولادوں کی بنیاد کے برعکس ’’عقائد‘‘کے اختلاف پر الگ ہوا تھا اور اس ناسور
نے سب سے زیادہ برباد بھارت کے مسلمان کر ڈالا ہے اور 68برس گذرنے کے
باوجود اس کو مسلمان ہونے کی سزا ہر جگہ مل رہی ہے ۔اگر پاکستان الگ نہ
ہوتا تو شاید مسلمانوں کی حالت بھارت میں اس قدرپتلی نہ ہوتی کہ آٹھ سو برس
تک حکومت کرنے والا ’’مغل زادہ‘‘آج کل بھکاریوں کی طرح ’’زندگی کی بھیک‘‘پر
مجبور ہے ؟پاکستان کی تاریخ ہی عجیب ہے ایک طرف اسلام کا قلعہ تو دوسری
جانب ’’مرعوبیت کی زبان‘‘آخر پاکستان مسلمانانِ عالم کو کیا پیغام دینا
چاہتا ہے ؟پاکستان کی بیروکریسی کو اپنے حالات پر غور کرتے ہوئے سمجھ لینا
چاہیے کہ پاک بھارت علحٰیدگی کی جڑوں میں ایسی ناقابلِ یقین نفرت بھری ہوئی
ہے کہ انھیں جب بھی موقع ملتا ہے تو یہ ایک دوسرے کو زیر کرنے میں کوئی کسر
باقی نہیں چھوڑتے ہیں تو پھر برادری اور برادرانہ تعلقات کیا معنی؟ٹھیک ہے
اگر یہی صحیح تو پھر یہ تبدیلی صرف سفارتی زبانوں پر نہیں بلکہ جانبین کے
تصورات اور مزاجوں پر بھی نظر آنا چاہیے ورنہ اس کا یک طرفہ نقصان صرف
مسلمانوں ہی کو ہوتا ہے ۔ |