امریکی صدر کے ایلچی کارل رود کا بیان تھا کہ :
ہم اب ایک بادشاہت ہیں۔ ۔۔ہم اپنی حقیقت خود بناتے ہیں۔" we're an empire
now we create our own reality "جبکہ امریکی صدر جارج بش نے2001ء میں جب
دہشت گردی کے خلاف جنگ (war on terror )کی اصطلاح استعمال کی تو اسی جنگ کو
صلیبی جنگ (Crusade war) کہاگو کہ بعد اس اصطلاح سے اجتناب برتا گیا اور
کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔
2009ء میں جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کیلئے میرین
بریگیڈ روانہ کیاتو اس کے بعد سے آج تک قتل و غارت کا نہ رکنے والا ایک
سلسلہ جاری و ساری ہے۔ٹریڈ سینٹر امریکہ میں گرا لیکن اس کے ملبے سے پوری
ملت اسلامیہ دب گئی۔دنیا بھر سے مسلمانوں کو اغوا کرکے کیوبا کی خلیج
گوانتانامو میں واقع امریکی فوجی اڈے کے زندانوں میں قید کئے جانے لگا ،
امریکہ جیسے اپنے نظام انصاف پر بہت ناز ہے لیکن یہ زندان خانے امریکی نظام
انصاف کے ماتحت ہونے کے بجائے براہ راست اامریکی فوج اور اسکے خفیہ ادادرے
سی آئی اے چلائے جاتے رہے ۔ اس کے علاوہ سی آئی اے نے یورپ کے مما لک اور
بحری جہازوں میں ایسے اذیت خانے قائم کئے جو حکومتی مداخلت سے آزاد و خود
مختار تھے ۔،"پانی تختہ" کی اذیت کی اجازت امریکی حکومت کے بالائی ایوانوں
نے دی۔صلیب احمر ( ریڈ کراس) سمیت ایف بی آئی کے کارندوں نے گوتانمو میں
امریکی فوجی اور سی آئی اے کے ہاتھوں ہونے والے تشدد پر ایک ملف کھولا جس
کا عنوان " جنگی جرائم "تھا۔عالمی سیاست میں terrorاور terroristکے الفاظ
امریکہ اور مغربی طاقتوں کا عملی طور پر نشان تجارہ بن چکے ہیں کہ جس کو
چاہیے "دہشت گرد"قرار دے دیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں پر
عرصہ حیات تنگ کئے جانے لگا اور اس ضمن میں مغربی ذرائع ابلاغ کی بھرپور
حمایت بھی حاصل تھی۔ جامعات کے پروفیسر جھوٹے مقالات پر مبنی مقالے لکھ رہے
تھے بقول جارج سمتھ کے"A significant and noticeable part of the US and
European academy of terrorism studies is like a shark. If it stops
swimming forward, it dies."امریکی اور یورپی اکادمی ِ مطالعہ دہشت ایک
شارک کی ماند ہے ، اگر یہ آگے کی طرف تیرنا بند کردے تو مَر جاتی ہے۔"
اسی طرٖ ح حزب اختلاف نے بھی افغانستان جنگ میں امریکی پالسیوں کی کھل کر
حمایت کی ۔ عدالتوں میں مسلمانوں کے خلاف قوانین کو سخت سے سخت انداز میں
استعمال کئے جانے لگا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کے خلاف عام
مسلمانوں میں نفرت کے جذبات ابھرنے لگے اور جب پاکستان اس جنگ میں زبردستی
شامل کرادیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج نے پاکستانی معیشت کی بنیادیں ہلا
دیں۔جہاں ایک طرف پاکستان کی معیشت تباہ و برباد ہوئی تو دوسری جانب دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کی عوام کو "جہاد"کے نام پر اس
طرح استعمال کئے جانے لگا کہ طالبان کی اصطلاح صرف پختونوں کیلئے مختص ہو
کر رہ گئی۔عسکری قوت کی جانب سے آپریشن راہ راست ، راہ نجات ، خیبر ون ، ٹو
اور آپریشن ضرب عضب میں ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں دہشت گرد بڑی
تعداد میں موجود اور خطے میں امن کی فضا کو خراب کرنے کے درپے تھے ۔گڈ
طالبان اور بیڈ طالبان نے ایسی کنفوزیشن پیدا کردی کہ پاکستان کی عوام کو
بھی کچھ سمجھ نہیں آنے لگا کہ یہ سب کیا ہے ۔
بکھری اور منتشر قوم کو کراچی ائیرپورٹ حملے اور پھر آرمی پبلک اسکول کے
بچوں کی شہادتوں نے یکجا کردیااور قبائلی علاقوں میں کھلی جنگ شروع ہوگئی
تو دوسری جانب ان عناصر کے خلاف سہولت کاروں کی ممکنہ مالی و سیاسی امداد
کو روکنے کیلئے بھی کراچی تا خیبر ایک آپریشن شروع کردیا گیا۔ اکیسویں صدی
کے آغاز سے جس طرح مغربی ممالک میں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھے جانے لگا
اسی طرح شمال، مغربی سرحدی علاقوں میں رہنے والے بھی اسی نفسیات کا شکار
بننے لگے۔ لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہوئے ، گولہ باریوں کے نتیجے میں
جہاں گناہ گار ہلاک ہوئے تو یقینی طور پر بیگناہ بھی اس کی زد میں آجاتے
ہونگے، امریکی ڈرون حملوں میں جب خبیر پختونخوا میں بقول امریکہ ، دہشت
گردوں کو نشانہ بنایا جاتا تو غیر ملکی غیر جانبدار ذرائع ابلاغ اس بات کی
تصدیق کرتے کہ ان حملوں میں بچوں ، عورتوں اور معصوم بے گناہ افراد کی بہت
بڑی تعداد بھی ہلاک ہوجاتی ہے۔کراچی میں لسانیت کے نام پر پختونوں پر عرصہ
حیات تنگ کردیا گیا اور’ را ‘کے ایجنٹوں نے معاشی شہ رگ کو مفلوج بنانے
کیلئے پختونوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ
پختونوں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔خیبر پختونخوا میں خود کش بم
دہماکے ہوں یا پھر پلانٹ بم ، اس کا نشانہ بھی بد قسمتی سے پشتو بولنے والی
قوم بنی اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ عوام دہشت گردوں کا نشانہ بنی۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے پختونوں نے تمام تر مصائب و
مشکلات میں جہاں دہشت گردوں کے مظالم برداشت کئے اور سوات کے گرین چوک کو
خونی لال چوک میں بدلتے اور ہر روز وہاں کسی نہ کسی فرد کی لاش کو لٹکتے
دیکھا ، سر کٹے جسموں اور سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کے ظلم کو برداشت
کئے ، روزگار کیلئے آنے والے یا مستقل آباد کراچی ، بلوچستان میں یا پھر
خیبر پختونخوا کے پشاور ، کوہاٹ ، بنوں وغیرہ کی عوام ہوں ۔ ان سب میں ایک
بات قدر مشترک دیکھی گئی کہ ان تمام مصائب ، خوف ودہشت اور پھر پاکستانی
عسکری طاقت کو سپورٹ کرنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والوں
نے کبھی پاکستان کے خلاف نعرے بلند نہیں کئے ، کسی نے بڑے سے بڑے لیڈر کی
شہادت یا خود کش حملے میں شہید ہونے والے کارکنان و عوام کی آڑ لیکر بیرونی
ملک دشمن قوتوں کو اپنی مدد کیلئے نہیں پکارا اور علیحدگی پسند تحریک شروع
نہیں کی۔
اگر ہم پاکستان کی سر حدی صورتحال کا طاہرانہ جائزہ لیں تو ہمیں با آسانی
سمجھ میں آجاتا ہے کہ سندھ کے ساتھ ان کی ثقافت و روایات کے رہنے والے ہی
سینکڑوں سال سے آباد ہیں ۔پنجاب میں رہنے والے مذہب کے فرق کے باوجود ایک
ہی تہذیب سے وابستہ ہیں۔بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی صورتحال بھی مختلف
نہیں ۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی سرحدی صورتحال کے ساتھ سینکڑوں سال کی ثقافت
و روایات کے ساتھ آج بھی ان کے درمیان خون کے رشتے بھی قائم ہیں۔پنجاب میں
اگر ہم دیکھیں تو فرقہ واریت کی فضا اور وسائل کی فروانی سمیت پاکستان کے
ساٹھ فیصد رقبے کی ملکیت کے حوالے سے پنجاب ہمیشہ متنازعہ رہا ہے اور چھوٹے
صوبے بڑے بھائی کی وجہ سے ناراض ہی رہے ہیں ۔ بلوچستان کے پاکستان سے الحاق
کے بعد سے علیحدگی پسندوں نے پاکستان سے الگ جداگانہ مملکت کا مطالبہ کرتے
ہوئے بھارت و پاکستان دشمن قوتوں کی سرپرستی میں فوج کے ایک حصے کو مستقل
مصروف رکھا ہوا ہے اور پاکستانی سیاست دان و عسکری قوت بلوچستان کو قومی
دھارے میں لانے کیلئے ہر جتن کر رہے ہیں۔سندھ میں ایک بڑی سیاسی شخصیت کی
ہلاکت کے بعدسندھو دیش کے نعرے میں شدت پیدا ہوئی اور’ پاکستان نہ کھپے‘ کے
نعروں کے ساتھ ، سندھ کے شہری علاقوں میں ملک دشمن عناصر سے مدد کئی بار
طلب کی گئی اور کئی سنگین نوعیت کے ملزمان گرفتار بھی ہوئے۔لیکن خیبر
پختونخوا میں اس قسم کے کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور سینکڑوں سال سے آباد
قوم نے پاکستان کو اپنا وطن اور اپنی ماں سمجھ کر اس کی حفاظت کیلئے ہر قسم
کی قربانی کی تاریخ رقم کی۔ جہاں کبھی برٹش گورنمنٹ کے قدم علاقوں میں نہ
پڑے تھے وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ پاکستان کے تمام صوبوں نے آئی
ڈی پیز کو اپنے صوبوں میں داخلے سے روکنے کیلئے حکمت عملیوں پر سختی سے عمل
درآمد کرایا۔ہڑتالیں تک ہوئیں لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی
سے لیکر ٹارگٹ کلنگ یا فوجی سخت سے سخت آپریشن اور امریکہ کی جانب سے
پاکستانی حکومت کی جانب سے ڈرون حملوں کی اجازت دینے کے باوجود شمال، مغربی
سرحدی علاقوں کی عوام نے پاکستان مخالف تحریک نہ بنائی اور نہ ہی ان کی
جانب سے کوشش ہوئی۔آج کراچی سمیت پورے پاکستان میں اپیکس کے فیصلوں کے تحت
دیہاتوں ، قصبات ، شہروں ، مدارس میں ٹارگٹڈ آپریشن کئے جا رہے ہیں لیکن
پاکستان سے اصل حب الوطنی کا یہ واضح ثبوت ہے کہ کسی پختون نے " را"سے مدد
طلب نہیں کی اور نہ ہی اپنے اصلی وطن افغانستان کو مداخلت کیلئے کہا۔یہ
تقلید تما م علیحدگی پسندوں کیلئے مشعل راہ ہے کہ اگر پاکستان میں رہنا ،
جینا ، مرنا ، کھانا پینا اور اپنا سب کچھ نچاور کرنا ہے تو اسے پاکستانی
بن کر اپنی ملکی سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوگی۔امریکی
جارحیت ، بھارت کی اشتعال انگیزیاں ، اسرائیل کی ریشہ دوانیاں ہوں یا کوئی
بھی صورتحال ہو ہمیں با حیثیت مسلمان اپنے اﷲ پر یقین ، اس کے دیئے گئے
نظام اسلام کے حقیقی تصورات کے لئے کوشش ، لسانیت فرقہ واریت اور صوبائیت
سے پاک اﷲ تعالی کی زمین پر اﷲ تعالی کا نظام نفاذ کرنا ہوگا۔ہمیں اپنی قوت
منقسم کرنیکے بجائے فلاح انسانیت پر مرکوز کرنا ہوگی۔ |