کہا جاتا ہے کہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہوتے ہیں یہ
اصطلاح بھی اپنی جگہ سو فیصد درست ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ بھی غلط نہ ہے کہ لا
قانونیت کی تاریکی بھی مجموعی معاشرتی اندھیرے کا اسم ثانی ہے وہ اس لیے کہ
لا قانونیت بھی جہالت کے زمرے میں متصورہے۔۔۔۔ اسی طرح جہالت اکثر اوقات اس
قدر وسعت اختیار کرلیتی ہے کہ بااثر افراد ،گروہ نے جیسا کہ موجودہ ( فی
زمانہ ) حالات و واقعات کی روشنی میں ارد گرد دیکھا جائے تو ذاتی منفعت کے
قانون بنا رکھے ہیں دوسرے لفظوں میں سیاستدانوں یعنی قانون سازوں نے اپنے
سرمائے ،دولت اور جائید ادوں کے تحفظ کے لیے دستور ترتیب دے کر نافذ کررکھے
ہیں ہمارے مجوعی معاشرے میں یہ لا قانونیت ،لاقانونیت تصور نہیں کی جاتی ہے
بلکہ ان بااثر سیاسی اشرافیہ جو مقد س جیسی اصطلاح سے بظاہر پہچانے جاتے
ہیں کو ہر قانون سے ماورا ء قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ چند جملے قبل عرض کر
چکا ہوں کہ جہالت کا اندھیرا سوسائٹی میں منفی رحجانات کو فروغ دیتا ہے اسی
طرح لا قانونیت بھی کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتی بلکہ معاشرتی تخریب کا
با عث بنتی ہے جس سے ہر عام شخص بالخصوص اور بالعموم ( کبھی کبھی ) خواص
بھی شدید متاثر ہوتے ہیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز کے بندوق و
بارود برادر قانون سازوں ، آرمی کے افسران و اہلکار ان اور پولیس اور دیگر
انتظامیہ کے افسرا ن کو قتل کردیتے ہیں ۔ بینظر بھٹو ،سلمان تاثیر ،شہبا ز
بھٹی کی ہلاکتیں انہی حقاق کو ظاہر کرتی ہیں ۔یہ ونگز دراصل نادیدہ قوتوں
کے آلہء کار کے طور پر کام کرتے ہیں یہ نادیدہ قوتیں میڈیا اور انٹرنیٹ کے
دور میں ایک کھلا راز ہیں ۔مصلحتا ًیا خوف کی بنیاد پر ان کا نام نہیں لیا
جاتا۔ جنرل ضیا ء الحق کا حادثہ اسی زمرے میں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔یہاں یہ وضاحت
بھی ضروری ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سو
فیصد متضاد مفاہم رکھتی ہے اب پریشانی یہ لاحق ہے کہ پاکستان جسے جمہوری و
اسلامی مملکت ہونے پر فخر ہے۔۔۔۔۔ ایک جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو
کو باقاعدہ عدالتی احکام پر پھانسی دے دی گئی تھی ۔اس پھانسی کو بعد کے کم
و بیش ہر دور میں عدالتی قتل قرار دیاگیا ۔اب اس مبینہ ہلاکت کے بارے میں
یہ تاثر قائم کرلیا جائے کہ اس وقت کی عدالتیں جناب ضیا ء الحق کے لیے ایک
طرح سے عسکری ونگز کے طورپر استعمال ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اظہار رائے
پر پابندی اور کسی بھی قسم کی مثبت مشاورات کو Reject کردینا بھی حکام ِوقت
کی آمریت کی حدود میں آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں ابلاغ پر جاری پابندیوں کی توسیع
کا سلسلہ پہلے سے کہیں جا رحانہ انداز میں جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی 1980 ء کی
دہائی تھی کہ قلم کاروں کو کوڑے مارے جاتے تھے اس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا
جائے کہ فی زمانہ سچ کے پیمام بروں کو معاف کیا جاتاہے بلکہ پہلے سے ہزار
ہادرجہ زیادہ تکلیف دینے کا عمل جاری ہے۔۔۔۔میرے نزدیک قانون فطرت میں یہ
سب عوامل لا قونیت کے طورپر لیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جب بھی ایک فلسفی منطق پیش
کرتا ہے تو اس کے پیچھے ضروری کوئی نہ کوئی اعلی اور تعمیری پہلو پوشیدہ
ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔جن پر عمل اور ان پہلوؤں کی تقلید میر ی دانست کے مطابق
معاشرے میں امن و قانون کے نفاذ میں یقینا ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے
۔لاقانونیت چونکہ ایک ناسور ہے اس لیے فوری طورپر اس کا علاج تلاش کیا جائے
۔۔۔ورنہ معاشرہ ہر طرح کی بے راہ روی اور برائی کا شکار ہو کر اپنا توازن
کھو دے گا جیسا کہ اس وقت پاکستانی معاشرہ غیر متوازن ہو چکا ہے ۔۔۔۔چنانچہ
ارباب اقتدارسے خصوصا ً عرض گزار ہوں کہ خدار اسوسائٹی کو ایسی سمت کی طرف
مت ہانکیں جہاں سے پسپائی نا ممکن ہو ۔۔۔۔!سو ان حالات میں روشنی کی جستجو
اپنا مقصد ِحیات ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔! |