کہتی ہے تجھ کوخلقِ خُدا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
جانے کیوں خیالات کی امربیل نے جکڑرکھا ہے ۔عشروں پہ محیط زندگی کے سفرکا
ایک ایک منظرنظر کے سامنے ، یوں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ وہ چٹکتے غنچے ،مہکتی
کلیاں ،لہکتاسبزہ دمکتی شبنم ، سبزکمخواب بُنتی کھیتیاں ،سونااُگلتے کھلیان
،فلک بوس چوٹیاں ،جنت نظیروادیاں ،گنگناتے جھرنے ،بل کھاتی ندیاں ،جھومتی
گھٹائیں ،معطرفضائیں ،نکھرتے منظر ،بدلتے موسم ،کوئل کی کو کو ،پپیہے کی پی
کہاں ،چڑیوں کی چہکار ،بوستانوں کی مہکار اورسب سے بڑھ کراٹوٹ رشتوں میں
بندھی زندگی۔بخدایہ الفاظ کی میناکاری ہے نہ لفظی بازیگری ،یہ سب نظارے
میرے دیس کے تھے اورہیں ،یہ الگ بات کہ اب یہ نفرت وکدورت ،منافرت ومنافقت
اورلسانیت و فرقہ واریت کی دُھن میں گُم ۔یہ تاریخ کہ نوزائیدہ پاکستان
اتنی تیزی اورتیزرفتاری سے ترقی کی راہ پہ گامزن کہ دنیاانگشت بدنداں ۔کوریا
نے ترقی کاراز پانے کے لیے وفد بھیجا ،اقوامِ عالم ایک ابھرتی ہوئی اسلامی
طاقت کے تخمینے لگاتی رہی لیکن ہوایہ کہ
ساری دنیا کو تلقین کرتے رہے ، ذوقِ تعمیر کی حسنِ تدبیر کی
خود تباہی کی جانب رہے گامزن ، ہائے دیوانہ پَن ہائے دیوانہ پَن
ہم نے اتنی ترقیٔ معکوس کی کہ دنیاایک بارپھر انگشتِ بدنداں، آمریتوں نے
ڈیرے ڈالے ،ملک دولخت ہوااور ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ کوسوشلزم اورسیکولرازم
کاگھُن چاٹنے لگا۔رہی سہی کسردائیں اور بائیں بازو کی تفریق نے یوں پوری کی
کہ ہم اپنوں کے خلاف ہی سینہ سپر، باہم دست وگریباں۔ ہماری دعائیں بھی
مستجاب نہیں کہ ہماراخُداسے تعلق کسی بگڑے بچے کی مانند۔ واﷲ یہ ’’جَگ بیتی‘‘
نہیں’’ہَڈبیتی‘‘ ہے جس کی پوری قوم گواہ کہ جس نے
یہ جو کچھ ہے جہاں میں اِس کے بیش و کم کو یکھا ہے
ہمیں کیا دیکھتے ہو ، ہم نے اِک عالم کو دیکھا ہے
ساراقصور آمریتوں کا بھی نہیں کہ سلطانیٔ جمہورکے دعویدار بھی آمریت کے
علمبردار۔ پتہ نہیں یہ سلطانیٔ جمہورکی کونسی قسم ہے کہ دلیل کاجواب الزام
اورالزام کابَدزبانی ،بَدکلامی اورکبھی کبھی گالی بھی۔ لفظ توموتیوں کی لڑی
ہوتے ہیں لیکن ہمارے مہربانوں کے ہاں لفظ خنجر، لفظ نشتر ۔جنوں تو بس ایک
کہ اقتدارکی مسندِ زرنگار ہاتھ آجائے ،باقی سب جائے بھاڑمیں۔ کششِ اقتدارکا
یہ عالم کہ درِ آمرپر زانوئے تلمذ تہ ۔بھٹو مرحوم، ایوب خاں کی اٹھارہ رکنی
کابینہ کے واحد سول وزیر، ایوب خاں کو ’’ڈیڈی‘‘کہنے والے ۔میاں نواز شریف
ضیاء الحق کو اتنے محبوب ومرغوب کہ اُس نے دعادی ’’خُداکرے کہ اسے میری
عمربھی لگ جائے‘‘۔ بی بی بینظیر کوپاکستان آنے کے لیے آمرمشرف کے این آراو
کی چھتری کا سہارالینا پڑا ۔
پرویزمشرف کو دَس باروردی میں منتخب کروانے کے دعویدار گجرات کے چودھری ۔
نیاپاکستان بنانے اورقوم کی تقدیر بدلنے کے بلندبانگ دعوے کرنے والے عمران
خاں نے آمرکے جھنڈے اٹھائے ،اُس کے ریفرنڈم کی حمایت میں گلی گلی ڈھول
بجائے ،مقصدپھر وہی کہ اقتدارکا ہماسَر پہ بیٹھ جائے ۔جب اقتدارمقدرنہ
ٹھہرا توآمریت کی مکروہات یادآنے لگیں ۔کچھ’’ شرپسندوں‘‘ نے دوبارہ
اقتدارکا جھانسادے کرورغلایاتو پھرامپائر کی انگلی کی یادستانے لگی، یہ تک
نہ سوچاکہ احتجاجی سیاست اوردھرنوں سے ملک وقوم کوکتنا نقصان ہوگا۔ ایم
کیوایم ہرآمر کی ’’بی ٹیم‘‘ رہی کہ اسے اپنی وحشتوں اور دہشتوں کے لیے کسی
ایسے ہی سہارے کی ضرورت ۔حقیقت ،تلخ حقیقت یہی کہ اُدھرآمریت مسلط ہوئی
اوراِدھر میرجعفر وصادق تھوک کے حساب سے ۔یہ صرف سیاستدانوں پہ ہی موقوف
نہیں، اِس حمام میں تو سبھی ننگے۔ عدلیہ نے بھی ہرآمر کے اقتدار کودوام
بخشنے کے لیے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ پیداکیا ،کسی کوآئین یادآیا نہ قانون البتہ
صرف چندلوگ جو ضمیر کی آوازپر گھربیٹھ رہے یاپابندِ سلاسل۔چنددیوانوں کے
سوامیڈیا بھی دست وبازو کہ آتشِ شکم کی سیری کے لیے یہ لازم ۔مکررعرض کہ
ساراقصور آمریتوں کا نہیں، ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانکناہو گا۔
اب البتہ فضاؤں میں دِل خوش کُن سرگوشیاں کہ تیرگی کے مہیب جنگل میں اِک
شمع فروزاں ہو گئی جس کی ضیاء سے خودرو گلوں پرسبک روتتلیاں محوِرقص، خزاں
رسیدہ اشجارپر اُمیدکی کونپلیں پھوٹنے لگیں ،زعفرانی مہک کے آثارنمایاں۔
منادی ہے یہ اِس امرکی کہ بہار کے پلٹ آنے کاموسم قریب آن لگا کیونکہ جراحِ
وقت نے اپنے عزمِ صمیم کے نشترسے ارضِ وطن کی نَس نس میں بھرے موادِبَد کی
جراحی کاارادہ کرلیا۔ اب عرشِ رعونت کے خداؤں کی خدائی اِس خوف سے لرزاں
بَر اندام کہ فرعونی دستاروں کی طرف اٹھتے ہاتھ اب رُک نہ پائیں گے۔
ہماراایمان کہ یہ سعادت بحکمِ ربی چیدہ وچنیدہ لوگوں کے حصّے میں ہی آتی ہے۔
یقین ہوچلا کہ
کوئی ہو موسم تھم نہیں سکتا رقصِ جنوں دیوانوں کا
زنجیروں کی جھنکاروں میں شورِ بہاراں باقی ہے
برگِ زرد کے سائے میں بھی جوئے ترنم جاری ہے
یہ تو شکستِ فصلِ خزاں ہے ، صوتِ ہزاراں باقی ہے
یہ اعجازہے اُس افہام وتفہیم کاجو پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بارسول
اورملٹری قیادت کے مابین دیکھی جارہی ہے۔ تجزیہ نگارلاکھ کہیں لیکن حقیقت
یہی کہ ’’شریفین‘‘ ایک صفحے پر، اُن کا مقصد ایک اورمنزل بھی ایک۔ نوازلیگ
نے اپنے منشورمیں کرپشن کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے کاقوم سے وعدہ کیا لیکن
’’طریقۂ واردات‘‘ انوکھااور نرالا۔ سبھی جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی کچھ
مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگرنوازلیگ کرپشن کے مگرمچھوں پر براہِ راست ہاتھ ڈالتی
توگلی گلی شوراُٹھتا، جلسے ہوتے ،جلوس نکلتے ، دھرنے دیئے جاتے ۔شایداسی
لیے ’’باہمی مشاورت‘‘ سے یہ سعادت سپہ سالارکے حصّے میں آئی، اُن کے آہنی
ہاتھ بلا امتیازکرپشن کے مگرمچھوں کے گریبانوں پر، پھربھی کوئی شورنہیں ،سبھی
گُم سُم اوراینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کرنے والے مفرور۔
|
|