بالادستی' زورزبردستی اور دھکہ شاہی کے لیے' گیارہ قسم کے
ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔
1- مال و منال کی فراوانی
2- کہو کچھ کرو کچھ
3- باسلیقہ سچ مارنے کا ڈھنگ
4- سنے اور جانے بغیر' فیصلہ یا معقول جواب دینے کا علم
5- باجواز اپنی منوانے کی شکتی
6- بااعتماد اور فرض شناس مخبر میسر ہوں
7- لوگوں کے معاملہ میں' ضرورت سے زیادہ بےحس اور اپنے معاملہ میں' ضرورت
سے زیادہ باحس ہوں
8- میں نہ مانوں' کے گر خوب جانتے ہوں
9- سو کے مقابلہ میں ایک سو دس جواذ ملکیت میں رکھتے ہوں
10- بدعنوانی کو عنوانی اور ان کے کارناموں کے گن لکھار اور ڈگاگزار موجود
ہوں
11- چپ اور متواتر چپ کی چادر اوڑھے رکھنا کے ہنر سے بہرہ ور ہوں۔
اس طور کے گیارہ پتے' اگر ہاتھ میں ہوں گے تو مات کھانے کا' سوال ہی نہیں
اٹھتا۔ مات اسی وقت ہو گی' جب ان میں سے' دو ایک کی کمی ہو گی یا وہ کم زور
ہوں گے۔ حال کیا' ماضی کے حکمرانوں اور ان کی بغل بچہ منشی شاہی' ان اعلی
اور بااصول خصوصیات کی حاملہ رہی ہے۔ لہذا یہ سب روایت میں چلا آتا ہے۔ آج
کی منشی گاہیں کوئی نیا نہیں کر رہیں۔
پردھان منشی نگر کے باسیوں کے پاس' روز اؤل سے یہ گیارہ ہتھیار موجود رہے
ہیں۔ وقت کے ساتھ' انہیں جلا ملتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھنے خاں سے پھنے'
ان کے سامنے کسکتا تک نہیں۔ پیٹھ پیچھے تو لوگ' شاہوں کے بھی گنہگار ہوتے
رہتے ہیں۔ بات تو تب ہے' جب کوئی منہ کے سامنے اپنا ان دھوتا منہ کھولے۔
یوں قلہ بازیاں کھائے گا' جیسے مکی کے دانے' کڑاہی میں پھڑکتے اور تڑپتے
ہیں' بلآخر پھلا ہو کر رہتے ہیں۔
ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق' ماتحت چھوٹے بڑے منشی ہاؤس' بڑی
دیانت داری اور اصول پرستی سے' پردھان منشی نگر کے اصول ہائے ہائے زریں
۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے کتابت کی غلطی ہے' اسے اصول ہا پڑھا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر عمل درامد کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ان گیارہ ہھتیاروں کو چمکا کر' گرہ میں
رکھتے ہیں۔ ملک کی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی میں' جہاں اور عناصر کا
ہاتھ ہے' وہاں کاغذی کاروائی میں' ان اداروں کی' شبانہ کپتی روز خدمات اور
محنت کو' نظر انداز نہیں کیا جا سکتا' جو آلو کو الو بنا دینے میں' کمال کی
مہارت رکھتے ہیں۔ مخبرین دس باغیوں کے ساتھ' نوے اپنے مخالفیں کو بھی' پھٹے
چڑھاتے آ رہے ہیں۔ چلو جو بھی سہی' حقی سچی بات تو یہی ہے' کہ اس مقدس اور
عزت مآب نگر اور دیگر ہاؤسز کے' دس باغی تو ٹھکانے لگاتے ہیں۔
ان کے کار ہائے نمایاں کی فہرست بڑی لمبی چوڑی ہے' اسے رقم کرنے کے لیے'
اگر آسمان کاغذ' سمندر سیاہی اور موجود ارض ہا کے درخت' قلم بن جائیں' تو
بھی رقم نہ ہو پائیں گے۔ ہر کارنامہ اپنے باطن میں' شوخی اور چٹانی سختی
رکھتا ہے۔ چوری خور مورکھ' زیادہ تر شاہوں کی' خصیہ اٹھائی میں مصروف رہا
ہے۔ ادھر اس کی بہت کم توجہ گئی ہے۔ اسی طرح ماہرین لسانیات نے بھی' انہیں
بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ بدقسمتی سے' میں ماہر لسانیات نہیں' ورنہ اپنی
بقیہ سانسیں' ان کی تحریررات کے لسانی مطالعہ میں گزارتا۔
نامہ بر سے' لوگوں کو گلہ ہی رہا ہے۔ غالب ایسا فراخ دل اور سمندر فکر'
تحفظات کا شکار تھا۔ اب دیکھیے' کہاں میں جدید عہد کا آدمی' جس کی گھڑی پر
چھے اور عملی طور پر' آٹھ بج رہے ہیں۔ آج سرکاری پترکدے بڑے جدید ہو گیے
ہیں۔ اس کے باوجود' لوگوں کی ترجیح میں غیرسرکاری پتر گاہیں ہیں' حالاں کہ
وہ سرکاری کی نسبت کہیں رقم دراز ہیں۔
یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے' مجھے ردی کاغذوں میں' ایک تحریر ملی' جس پر
مرقوم ہے
محترم پوسٹ ماسٹر صاحب
اسلام آباد
.................
از راہ کرم پٹرول پمپ کے سامنے لیٹربکس کو قفل تو لگائیے تا کہ خطوط محفوظ
رہ سکیں۔
مخلص
..... وقار
ڈی۔ 85' جی۔ 6-4
اسلام آباد
9 فروری 1967
یہ خط ' اسلام آباد کے کسی غیر مصروف' بےفضول نکتہ چیں اور دفتر شاہی کے
صدیوں پر محیط مزاج سے ناآشنا' شخص کا لگتا ہے۔ خط کھلا لانے کا گلہ تو بہت
پرانا ہے۔ بازور اور باحیثیت لوگ یا مہذب اور مستعمل زبان میں' وڈیرا کہہ
لیں' ٹیل اٹھائیکر ساتھ رکھتے تھے۔ اب چوں کہ ٹیل رکھنے اور اسے چکنے کا
دور نہیں رہا۔ دوسرا آج ٹیل کیئر یعنی ٹی سی کی معنویت ہی بدل گئی ہے۔ اب
تفاخر کے اظہار کے لیے' گلا کھلا اور ٹانگیں چوڑی کرکے' چلنے کا رواج ترکیب
پا گیا ہے۔ پوسٹ بکس کا بلا تالہ ہونا اور پٹ کھلے ہونا' محکمہ ہذا کی بلند
اطواری اور باحیثیت مزاجی کا غماز ہے۔
اس خط یا درخواست کے آخر میں' سرخ روشنائی میں کوئی حکم تو درج نہیں ہاں
البتہ' اسی تاریخ میں
lock applied
درج ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ پوسٹ بکس کو تالا لگایا گیا یا درخواست گزار کی
زبان بند کر دی گئی۔
1967
میں بازوری کی کیفیت' آج سے قطعا مختلف نہ تھی۔ وہ لوگ بھی' درج بالا
ہتھیاروں سے' لیس تھے۔ آج کو' درج بالا ہتھیار وراثت میں ملے ہیں۔ مشین گن
اور سٹین گن 1914 میں استعمال میں آئی تھیں۔ مشین گن کے لیے' پان سات لوگ
ہوا کرتے تھے۔ یہ جدید اور ٹیڈی ہو گئی ہے' اس لیے اسے اٹھانے کے لیے' ایک
آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ گویا مشین گن کل بھی تھی' آج بھی ہے۔
نامہ ہاؤس سے' میرا خادمی و مخدومی کا تعلق' کل بھی تھا' آج بھی بھی ہے۔
میں نے' ان کی کوتاہی کو اپنی کوتاہی سمجھ کر درگزر کی کٹیا میں' پناہ لی
ہے۔ ایک بار' درخواست گزاری کی حماقت' مجھ سے بھی سرزد ہوئی۔ ہوا یہ کہ میں
نے' اپنے بیٹے کو کچھ اشیاء کا پارسل' وزنی تین کلو آٹھ سو نوے گرام'
سرکاری ڈاک سے' اسٹریلیا بھجوایا' رولتا کھلتا' میرے پاس بلاخریت آ گیا۔
سلیز ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اسٹریلین ڈاک ہاؤس یا اس سے متعلقہ کسی اتھارٹی کی'
مہر ثبت نہ تھی۔ میں نے ڈاک پر خرچ آنے والے 2685 روپے کی' واپسی کے لیے
بڑے ہی مودبانہ اور عاجزانہ انداز میں' درخواست گزاری۔
پارسل کھولا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔
اس میںبھیجے گیے سامان کی بجائے بانٹیوں' سلانٹیوں' گولیوں وغیرہ کے خالی
کور اور پنے پائے گیے۔ نہایت بوسیدہ اور پرانے مردانہ کپڑوں کے جوڑے دستیاب
ہوئے۔ میں نے الله کا لاکھ شکر ادا کیا کہ یہ پارسل میرے بیٹے' بہو اور
پوتی تک نہیں پہنچا۔
پیرہ نمبر 4
درخواست بنام پوسٹ ماسٹر جنرل
مورخہ 13-5-2011
میں نے دوبارہ سے سامان خریدا اور
LEOPRDS COURIER SERVICES PVT. LTD
سے اسی ایڈریس پر بھیجا۔ پارسل پوری خیر خریت کے ساتھ' تھوڑے ہی دنوں میں'
منزل مقصود تک جا پہنچا۔ میں نے الله کا شکر ادا کیا۔ چوں کہ یہ پرائیویٹ
سروس تھی اور مجبورا زیادہ پیسے بھرے تھے' اس لیے الله کا شکر ادا کیا'
ورنہ سرکاری شکریہ' مجھے شرک کی دہلیز کے اس بار کر دیتا۔
دو سرکاری چھٹیاں ملیں۔
ڈویژنل سپرنٹڈنٹ پوسٹل سروسز کے آخری جملے میں مشورہ دیا گیا
It is requested to kindly take up the matter with the Ausralian postal
Authorities, for this purpose, if admissionable as per rules.
اس جملے کو لائق توجہ نہ سمجھا گیا۔ آفس آف دی کنٹرولر آئی ایم او لاہور نے
کچھ یوں کاروائی فرمائی
As regards the sender claim regarding booking charges, it is also not
justified from any angle. As the booking charges were paid by the sender
for the transmission of the parcel to Australia and our department has
no fault for return of this parcel from Australia
گویا سرکاری ڈاک سے' عدم رابطہ کے سبب' بیرون ملک پارسل بھجوانا' کھلی
حماقت سے کم نہیں۔ میری سادگی دیکھیے' میں سرکاری چٹھیوں کو' اپنے نام سمجھ
رہا تھا اور یہی سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار نمبر11 پھیکتے ہوئے' پہلی
درخواست پر کاغذی کاروائی بھی کی ہے اور درخواست کا جواب بھی دیا ہے۔ ہاں
البتہ' دوسری درخواست کو ہتھیار نمبر 11 سے بلا تکبیر ذبح کر دیا گیا ہے۔
جب غور کیا تو معلوم ہوا مجھے تو کبھی جواب ہی نہیں دیا گیا۔ یہ سب تو ان
کی اپنی گٹ مٹ تھی۔ مجھے تو محض اطلاعی نقول بھیجی گئی تھیں۔ ہتھیار نمبر
11 کی عزت' احترام اور وقار' پورے پہار کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ ہاں
البتہ حسب ضابطہ اور قانون چپ کے تحت میں بلا تکبیر ذبح ہو گیا تھا۔ |