نواب زادہ نصر اﷲ خاں۔بابائے جمہوریت

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تابندہ نام نوابزادہ نصر اﷲ خان کا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا نام اُن کے کردار کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ایک ایسی شخصیت کہ جنہوں نے رب کی عطا کردہ زندگی کو کسی مقصد کی خاطر بسر کیا۔ ونسٹن چرچل کو اپنے لیے رول ماڈل سمجھنے والے نوابزادہ نصر اﷲ ایک ایسی شخصیت تھے کہ اُنھوں نے شائد یہ حلف اُٹھا رکھا تھا کہ ہر حال میں جمہوریت کی ہی حفاظت کر نی ہے۔ اتنی مرنجان مرنج شخصیت کہ ہر اپنے غیر کے لیے اُن کے دروازئے کھلے تھے۔ بائیں بازو اور دائیں بازو کے گروہ بھی اِ ن کو اپنا سیاسی مُرشد مانتے تھے۔پچاس سال تک سیاست کے ریگزاروں میں ملک و ملت کی رہنمائی فرمائی تقریباً گیارہ سلا کا عرصہ پابندِ سلاسل بھی رہے۔ نوابوں کی اولاد ہونے کے باوجود ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے اور اِن کی جائیداد بڑھنے کی بجائے کم ہی ہوتی چلی گئی۔ وقت کے آمروں نے نوبزادہ نصر اﷲ کو مختلف حیلے بہانوں سے خریدنے کی کوشش کی لیکن اُنھیں اِس حوالے سے سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔1916 میں خان گڑھ پنجاب میں پیدا ہونے والے نواب صاحب نے ایچیسن کالج سے تعلیم حاصل کی بعدازاں اپنے خاندان کے فیصلے کے برعکس انگریزوں کی بجائے پاکستان بننے کی حمایت کی وہ روزنامہ آزاد کے ایڈیٹر بھی رہے اور سیاسی سفر کا آغاز مجلسِ احرارِ اسلام سے کیا۔ وہ 1940 میں منٹو پارک میں ہونے والے جلسے میں بھی شریک تھے جس میں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی۔نوابزادہ نصر اﷲ خان مسلم لیگ میں بھی رہے۔ صوبائی وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ایوب خان کی مخالفت اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت میں پیش پیش تھے۔1953 کی تحریک ختم نبوت میں لازوال کردار ادا کیا۔اُن کی ساری زندگی کا نصب العین اصولوں کی پاسداری اور ملک میں حقیقی آزادی تھا۔ بہت سے لوگ اُن کی طرز سیاست سے نالاں بھی رہے لیکن جب بھی اُن میں سے کسی کو رہنمائی کی ضرورت پڑتی تو وہ پھر نوابزادہ صاحب کے دروازئے پر آن کھڑ ا ہوتا۔2003 میں وفات سے پیشتر وہ مشرف کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔شعر وشاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انسانی اقدار کے اعلیٰ ترجمان تھے۔ دوسروں کی بات سننا اور اپنی بات کرنا گویا اُن کے اندر تحمل برداشت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جن معاشروں میں انسانی آزادیوں کے حوالے سے گھمبیر صورتحال ہے اُن معاشروں کے لیے نوابزادہ صاحب جیسی شخصیت ایک بہت بڑی غنیمت تھے۔ چونتیس سال تک اپنا دفتر نکلسن روڈ لاہور میں بنائے رکھا۔ صبح سویرئے نماز کے لیے اُٹھتے تھے۔ وہ اسلامی اقدار کے چاہنے والے تھے۔ اپوزیشن کی علامت سمجھے جانے والے جناب نوابزادہ صاحب کبھی مایوس نہیں رہے۔ 1946 میں شیور لیٹ گاڑی خریدنے والے اپنے آخری ایام میں ایک پرانی گاڑی اُن کے زیر استعمال تھی۔ حقہ اُن کی نشانی تھی۔ نوابزادہ صاحب پان بھی کھاتے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ میرئے ننھیال میں لوگ کھاتے تھے اِس لیے میں نے بھی کھانا شروع کر دیا۔ ترکی ٹوپی شروع سے پہنتے تھے ۔گھر سے باہر جاتے وقت شیروانی میں ملبوس ہوتے۔ آپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ جائیداد بکتی چلی گئی ۔ نوبزادہ صاحب کلاسیکی موسیقی کو پسند کرتے مہدی حسن ، اقبال بانو، غلام علی کو پسند کرتے تھے۔ جگر کا ایک شعر ایک مرتبہ اُنھوں نے شاعروں کی پسندیدیگی کے حوالے سے سنایا۔ حسن جس رنگ میں ہوتا ہے اہل دل کے لیے سرمایہ جان ہوتا ہے۔ عرصہ سے دوپہر کو قیلولہ فرماتے۔ خاندانی ملازم نذیر سال ہا سال سے اُن کا حقہ گرم کرتا رہا۔جیل کی سزا کے حوالے سے فرمایا کرتے کہ اگر قید کسی مقصد کے لیے ہو مقصد خلوص پر مبنی ہو تو کوئی مشکل نہیں۔ترکی ٹوپی پہننے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اقبال ؒ بھی ٹوپی پہنتے تھے۔مسلسل جدوجہد سے گھبرانے والے نہیں تھے بلکہ فرماتے کہ اگر مقصد نیک ہو تو گھبرانا کیسا ۔ہمیشہ اپنی سیاسی زندگی میں مختلف سیاسی مکاتب فکر سے رابطے رکھے۔وہ دریچے بند کر نے کے قائل نہ تھے۔اُنھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں گیارہ اتحاد بنائے۔اُن کے مطابق آئی جے آئی میں وہ شامل نہ تھے۔نوبزادہ صاحب کا استدلال یہ تھا کہ میں نے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کیے رکھنے کو اپنا مشن بنائے رکھا ۔ مقصد ملک کی بہتری سامنے رہی پارٹی کی نہیں۔اﷲ پاک اُن کی مغفرت فرمائے۔آمین
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430373 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More