افغان طالبان نے پیر کے روز علی الصبح حملہ کر کے قندوز
شہر کی سیکورٹی فورسز کو حیران و پریشان کرتے ہوئے انہیں بھاگنے پر مجبور
کر دیا۔ طالبان قندوز شہر پر قبضے کی کوشش میں چار مختلف سمتوں سے شہر میں
داخل ہوئے۔ افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر مکمل قبضہ کیا تو افغان فورسز
نے فوری طور پر شہر خالی کر دیا۔ افغان طالبان نے قندوز کی جیل پر حملہ
کرکے لگ بھگ 600 جنگجوﺅں کو رہا بھی کروا لیا۔ شہر کے زیادہ تر سرکاری
اہلکار، اقوام متحدہ کا غیر ملکی عملہ اور این جی اوز کے کارکنان شہر سے
پیر کی دوپہر تک نکل گئے۔ اقوام متحدہ کے دفاتر پر قبضہ کر کے آگ لگا دی،
افغان انٹیلی جنس ایجنسی (این ڈی ایس) کے صوبائی ہیڈ کوارٹرز، پولیس ہیڈ
کوارٹرز، مرکزی بینک، ہسپتال اور یونیورسٹی پر بھی قبضہ کر لیا۔ طالبان کا
کہنا تھا کہ انہوں نے گورنر اور اہم صوبائی دفاتر پر بھی قبضہ کیا ہے۔
افغان طالبان نے شہر کے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ گھروں سے باہر نکلنے سے
گریز کریں۔ پیر کو رات گئے اپنے ایک بیان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا
اختر منصور نے کہا کہ قندوز میں عوام کے جان ومال کو نقصان نہ پہنچایا
جائے۔ کابل سے 250 کلو میٹر دور قندوز کے ایک قبائلی بزرگ نے نام نہ ظاہر
کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ طالبان نے شہر کے ایک ضلع کا کنٹرول حاصل
کیا ہے۔ قندوز شہر کی پولیس سربراہ کے ترجمان سید سرور حسینی نے برطانوی
خبر ایجنسی کو بتایا کہ طالبان جنگجوﺅں نے پیر کی صبح مقامی وقت کے مطابق
تین بجے چار مختلف سمتوں سے شہر پر چڑھائی کر دی۔ عینی شاہدین کے مطابق
طالبان پیر کے روز اپنے بڑے حملے کے بعد حکومتی فورسز کے چیک پوائنٹس اور
پوسٹوں پر قبضہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ قندوز کے ایک
صحافی نے خبررساں ادارے ایجنسی فرانس پریس کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر
بتایا کہ وہ ہر طرف طالبان کو گشت کرتے دیکھ رہا تھا۔ قندوز کے قبائلی جرگے
کے ایک سینیئر لیڈر کا کہنا تھا کہ طالبان نے قندوز کے ایک انتظامی حصے پر
مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ افغان طالبان نے کئی سرکاری عمارتوں پر قبضے
کے بعد انہیں جلادیا اور مرکزی علاقے میں سرکاری عمارتوں پر اپنے پرچم بھی
لہرادیے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ان کے جنگجوﺅں نے علی الصباح
قندوز پرحملہ کیا اور گورنر ہاﺅس اور پولیس ہیڈکوارٹرز پر قبضہ کرلیا۔ ذبیح
اللہ مجاہد نے پیر کو رات گئے ایک بیان کے ذریعے قندوز میں کام کرنے والے
غیر ملکی امدادی کارکنوں سے کہا کہ وہ بغیر کسی تعطل کے اپنا کام جاری
رکھیں اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ان تنظیموں کو کسی طرح کی مشکلات
کا سامنا ہے تو ان کے حل میں مدد کی جائے گی۔ افغان وزارت داخلہ اور پولیس
ترجمان نے قندوز کے بڑے حصے پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی۔ طالبان سربراہ
ملا اختر منصور نے قندوز پر قبضے پر اپنے جنگجوﺅں کو مبارک باد پیش کی اور
افغان سیکورٹی فورسز کو خبردار کیا کہ انتقامی کارروائیوں یا قندوز پر قبضے
کی کوشش سے باز رہیں۔ اپنے بیان میں ملااختر منصور کا کہنا تھا کہ وہ کسی
قتل وغارت گری کے بارے میں نہیں سوچ رہے، بلکہ امن کے پیغام کے ساتھ میدان
میں آئے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کے خلاف ہیں جو حملہ آوروں اور کٹھ پتلی
حکومت کے لیے کھڑے ہیں، اگر وہ اپنے سابقہ اعمال پر معافی مانگیں اور
مخالفین کے ساتھ روابط ترک کردیں تو ان کے لیے معافی کے دروازے کھلے ہیں۔
جبکہ قندوز پر طالبان کے قبضے کے بعد منگل کے روز تادم تحریر صوبہ بغلان کے
2 علاقوں میں بھی افغان فورسز اور طالبان کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔
افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں امریکی فورسز نے منگل کو فضائی
کارروائیاں کی ہیں، جب کہ افغان فورسز نے زمینی آپریشن شروع کر دیا۔
افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے مشن کے ترجمان کرنل برین ٹریبس کے مطابق
منگل کی صبح کی جانے والی فضائی کارروائیاں فورسز کو درپیش خطرے کے خاتمے
کے لیے کی گئیں۔ تاہم شہر میں بین الاقوامی افواج کے اہلکار موجود نہیں
ہیں۔ ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ مزید ایسی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی
یا نہیں۔ ادھر افغان فورسز نے بھی قندوز سے طالبان کا قبضہ چھڑانے کے لیے
زمینی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔
چودہ سالہ جنگ میں قندوز جیسے بڑے اسٹریٹجک شہر پر طالبان کا سب سے خطرناک
حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ افغان طالبان نے افغانستان کے اسٹریٹیجک لحاظ سے
اہم شہر قندوز پر قبضہ کیا ہے۔ قندوز شہر کا شمار افغانستان کے بڑے اور
خوشحال شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، کیوں
کہ یہ پاکستان اور چین کو وسطی ایشیا سے ملانے والے راستے پر واقع ہے۔
قندوز شہر افغانستان کی چار مختلف سمتوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس شہر سے
مزار شریف، کابل اور تاجک سرحد پر دریائے پنج کے کنارے واقع خاصی اہمیت کے
حامل شہر شیر خان بندر کی جانب شاہراہیں جاتی ہیں۔ قندوز پہلا شہر تھا جو
طالبان کے ہاتھوں سے اس وقت گیا جب امریکا نے ستمبر 2001 کے بعد افغانستان
میں کارروائی کی، جس کے بعد افغان طالبان کا اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
14سال کے بعد اب تک ملک کے کسی بھی بڑے شہر پر افغان طالبان کا یہ پہلا
قبضہ ہے۔ قندوز پر قبضے کے لیے کئی ماہ سے طالبان اور فوج میں جھڑپیں ہورہی
تھیں۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں میں طالبان کی طرف سے ہونے والے حملوں
میں قندوز حملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے کابل حکومت مزید دباﺅ
کا شکار ہوسکتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے نامہ نگار داؤد اعظمی کا کہنا
ہے کہ 14 سال میں قندوز پر طالبان قبضہ افغان حکومت کے لیے سب سے بڑا دھچکا
ہے، تاہم طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج قندوز پر قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔
طالبان کے شہر میں داخلے کو خواہ وہ عارضی مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو، لیکن
نیٹو کی تربیت یافتہ پولیس اور فوج کے لیے ایک نفسیاتی دھچکا قرار دیا
جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے افغان طالبان قندوز پر اپنا
قبضہ برقرار نہ رکھ سکیں، لیکن انہوں نے قندوز پر قبضہ کر کے جہاں افغان
حکومت اور اس کی سیکورٹی کی مضبوطی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، وہیں اپنی
طاقت بھی منوالی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ افغانستان کی ایک بڑی طاقت
ہیں، جن کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کے بغیر
افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
دوسری جانب نیو یارک میں امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے چیف
ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا کہ ہماری حکومت ملک میں قیام امن
اور عوام کے تحفظ میں ناکام ہوگئی، عوامی توقعات پوری نہیں کر سکے، حالیہ
دنوں میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان
پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، تاکہ پاکستان ایمانداری سے افغانستان میں
مکمل امن بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان
عوام طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ
کیا جانے والا غیر منصفانہ سلوک ہے۔ اگر حکومت ہر افغان باشندے کو اس کا حق
عدل وانصاف کے ساتھ تول کر دیتی آج یہ حالت نہ ہوتی۔ قومی یکجہتی کی بنیاد
پر بننے والی مشترکہ حکومت کو ایک سال پورا ہو چکا ہے، مگر حکام ابھی تک ان
مسائل میں غلطاں وپیچاں ہیں، جو اس حکومت کے آغاز ہی میں حل ہوجانے چاہیے
تھے۔ سب کچھ ناکامی کی جانب جارہا ہے۔ حالات اور وقت خود بخود طالبان کی
دوبارہ آمد اور ان کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کررہے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی
کے مطابق قندوز کے رہائشی سابق افغان رکن اسمبلی نے کہا ہے کہ مقامی افراد
حکومت کی کرپشن سے تنگ ہیں، اس لیے شہر کے سیکڑوں باسیوں نے اس لڑائی میں
طالبان کا ساتھ دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق طالبان کے حملے نے افغان سیکورٹی
فورسز کی مضبوطی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور یہ شگاف جلد بھرنے والا
نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک ترجمان کے
ذریعے طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان میں”اختلافات کو پرامن
طریقے سے حل کرنے“ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ امسال افغان حکومت افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے میں
بری طرح ناکام رہی ہے۔ افغان فوج اور پولیس طالبان کا مقابلہ کرنے کی سکت
بھی کھوتی جارہی ہیں اور افغان طالبان دن بدن افغانستان میں اپنے حملے تیز
کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز قندوز شہر پر طالبان کے قبضے سے افغان حکومت کی
کمزوری کھل کر سامنے آگئی ہے، لیکن افغان حکومت اپنی کمزوری کا ملبہ
پاکستان پر گرانا چاہتی ہے۔ گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا افسوس ناک عمل ہے۔ حالانکہ یہ سب افغان
حکومت کی ناکامی اور ان پر عوام کے عدم اعتماد کا ثبوت ہے۔ جس کا اظہار بہت
پہلے امریکی انٹیلی جنس کرچکی ہے۔ گزشتہ سال ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ
میں دعوی کیا گیا تھا کہ امریکی فوج کی محدود موجودگی کے باوجود 2017 تک
افغانستان میں طالبان اور دوسرے جنگجو گروپ غلبہ حاصل کر لیں گے۔ رپورٹ میں
مزید دعوی کیا گیا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں جو
فوائد حاصل کیے ہیں، وہ طالبان اور دوسرے جنگجو گروہوں کے بتدریج بااثر
ہونے کی وجہ سے 2017 تک ضائع ہو جائیں گے اور کابل کی مرکزی حکومت رفتہ
رفتہ ملک کے بیشتر حصوں پر اپنا کنٹرول اور اثر و رسوخ کھوتی چلی جائے گی
اور صورتحال ماضی جیسی ہو جائے گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حقائق کے بعد
افغان حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی واقعہ کا الزام پاکستان پر
دھرے۔ افغانستان کے حالات کی ذمہ دار افغان حکومت ہے۔ |