مدثر جمال تونسوی
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ عسکری کاروائیوں سے افغان طالبان
کو اب تک کمزور نہیں کیا جا سکا، اس لیے طالبان کی سینئر قیادت سے مفاہمت
کا یہ وقت مناسب نہیں، کوئی بھی ڈیل اس وقت ہونی چاہیے جب طالبان کو اپنی
فتح کے بارے میں شکوک پیدا ہو جائیں، فی الحال یہ وقت ابھی نہیں آیا۔
امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان جہاں اپنی شکست خوردگی اور نہتے طالبان کے
سامنے عاجزی و درماندگی کا اظہار کر رہا ہے وہاں ایک طرح سے خود فریبی کا
بھی مظہر ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری اب اس فیصلے کے قریب پہنچ چکے ہیں کہ
انہیں بہت جلد افغانستان سے پسپا ہونا ہے اور پھر افغانستان کا نقشہ موجودہ
صورتحال میں اُس پوزیشن پر چلا جائے گا جس طرح امریکہ کی جارحیت سے قبل تھا۔
کہنے کو تو امریکی یہ باور کراتے ہیں کہ ہم خود طالبان سے مذاکرات کرنا
نہیں چاہتے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکہ تو طالبان سے مذاکرات کرنے
کے کتنے جتن کر چکا ہے اور خود پردے کے پیچھے رہتے ہوئے متعدد ایسے منصوبوں
کا نتیجہ بھی دیکھ چکا ہے مگر طالبان نے مذاکرات نام کے تمام امریکی
منصوبوں اور مذاکرات کے شہد میں بچھی زہر کو اپنی بہترین حکمت عملی اور
پختہ عزم و بے مثال استقامت سے ناکام بنا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے
متعدد مرتبہ ایسی پیش کش ہوئیں مگر طالبان نے امریکی انخلاء سے کم کسی بات
پر رضا مندی پر سودا نہیں کیا۔ حالیہ دنوں میں طالبان کے علاوہ حزب اسلامی
جو اب تک خود کو امریکی جارحیت کیخلاف نبرد آزما اور مزاحمت پر کاربند
رکھنے کے تصور پر قائم تھی اب وہ بھی مختلف پہلوﺅں سے مذاکرات کے فارمولے
کے لیے تخت کابل پر جبہ سائی کر رہی ہے لیکن امریکہ انہیں کوئی وقعت دینے
پر تیار نہیں۔ اس کی بنیادی اور واضح وجہ یہی ہے کہ افغان عوام کے مؤقف کی
صحیح نمائندگی اگر کوئی مزاحمتی تحریک کررہی ہے تو وہ افغان طالبان ہیں
کیونکہ افغان عوام اپنی فطرت سے ہی حریت پسند ہیں، تاریخ شاہد ہے انہوں نے
کبھی بھی کسی کافر متسلط کو قبول نہیں کیا۔ اسی بنا پر طالبان کے خلاف سخت
گیر ہونے کے پروپیگنڈے کے باوجود وہاں کی عوام انہیں ہی اپنا اصل نمائندہ
تصور کرتی ہے اور موجودہ صورتحال سے یہ بات صاف آشکارا ہو رہی ہے کہ
افغانستان کا مستقبل طالبان کے ہاتھوں میں ہے اور افغانستان کی باگ ڈور
دوبارہ طالبان ہی کے ہاتھ آنی ہے اور اس حقیقت سے کوئی عقل رکھنے والا شخص
انکار نہیں کر سکتا کیونکہ فی الوقت جب کہ خود امریکہ اپنے تمام اتحادیوں
سمیت طالبان کے مقابل صف آراء ہے، ایک نام نہاد کٹھ پتلی افغان حکومت بھی
موجود ہے مگر آدھے سے زائد صوبوں میں اصل عملداری طالبان کی قائم ہے۔
امریکی یا کٹھ پتلی افغان حکومت کو وہاں کوئی پوچھتا نہیں، خود مخالف
طالبان قوتوں کا اعتراف ہے کہ ان علاقوں میں طالبان کا آرڈر کام کرتا ہے۔
اس سے اندازا لگانا مشکل نہیں اور خود طالبان دور اور گزشتہ آٹھ سالہ دور
کا موازنہ اس حقیقت کو مزید پختہ بنا دیتا ہے کہ افغان عوام امریکی پسپائی
کے بعد انہی کو قبول کریں گے۔ یوں افغانستان کا روشن مستقبل طالبان قرار
پاتے ہیں اور یہی وجہ اصل پریشانی ہے امریکہ اور اس کے حواریوں کی۔
امریکہ اور اس کے حواری قطعاً یہ نہیں چاہتے کہ دوبارہ طالبان برسراقتدار
آئیں جس میں قطع نظر مغرب کی اسلام دشمنی کے، اس کیلئے یہ کتنا ڈراؤنا خواب
ہوگا کہ جہاں اس نے 9سال تک جارحیت کی تمام حدیں عبور کیں اور اپنے مخالفین
کا نام ونشان مٹانے کے ڈھکوسلے دعوے کیے، اپنی معیشت برباد کرائی، اپنے
سافٹ امیج کو بری طرح خراب کیا، اپنے ہزاروں فوجی موت کی وادی میں دھکیلے،
مگر نتیجہ! سوائے ذلت و خواری اور شکست فاش کے کچھ نہ نکلا، اس لیے اب
امریکہ عسکری کاروائیوں سے زیادہ ایسی سازشوں میں مصروف ہے جس کا بنیادی
ہدف یہ ہے کہ افغانستان کا مستقبل طالبان نہ ہوں اور اگر یہ ہدف مکمل طور
پر حاصل نہ ہو تو جتنا بھی ممکن ہو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ جس کی مختلف
شکلیں ہیں مثلاً طالبان کو افغان عوام میں زیادہ سے زیادہ متنازع بنانا،
انہیں اسلامی ممالک سے کاٹنا اور جن ممالک سے پہلے سے خوشگوار تعلق رہے ہیں
اب ایسی صورتحال پیدا کرنا جس سے وہ خوشگوار تعلقات دوبارہ قائم نہ ہو سکیں،
ان علماء ومذہبی رہنماﺅں کے اثر کو ختم کرنا جن کی فکر و نظر نہ صرف طالبان
کی سوچ و فکر سے مماثلت رکھتی ہے بلکہ ان کے باہمی خوشگوار تعلقات بھی قائم
رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کا خاکہ کچھ یوں ترتیب
پاتا ہے۔
(۱)اسلامی ممالک کو آگے رکھ کر ایسی پالیسی وضع کی جائے جو اپنے دباﺅ سے
امریکی خواہش کے مطابق افغانستان کا مستقبل طے کرے۔
(۲)اگر کوئی اسلامی ملک طالبان کو سپورٹ کرنے اور ان کی حمایت پر تیار ہو
تو اسے اس حمایت سے دستبردار کیا جائے۔
(۳)طالبان کی سوچ اور فکر سے اتفاق رکھنے والے مذہبی لیڈروں کو ختم کیا
جائے یا متنازعہ بنا کر ان کے گرد کم سے کم مسلم نوجوانوں کو جمع ہونے دیا
جائے۔
(۴)ایسے مذہبی سکالر سامنے لائے جائیں جو اپنی ظاہری مذہب پسندانہ اور جرات
مندانہ گفتگو سے ”جہادی مزاج“ یا ”مجاہدین پسند“ رجحان رکھنے والے
مسلمانوں، خاص کر مسلم نوجوانوں کو اپنے گرد جمع کریں۔
(۵)ایسے مذہبی سکالروں کو ہر سطح پر سپورٹ فراہم کی جائے اور انہیں ہر ممکن
تعاون فراہم کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو علماء حق اور مجاہدین اہل حق سے کاٹ
کر ان ”باتونی مجاہدوں“سے وابستہ رکھ کر امت مسلمہ کے اس عظیم سرمائے کو
غیر محسوس انداز سے اپنے تابع بنا لیا جائے۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت عالم کفر
کو مجاہدین اسلام سے جس بری شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ اس کیلئے بڑا
ڈراﺅنا خواب بنا ہوا ہے اور یہ بھی کہ عالم کفر اپنی تمام تر شکست کے
باوجود اپنی کوششیں، مختلف روپ میں ہی سہی بہر حال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان
کوششوں میں عالم کفر خود کو پس پردہ رکھ رہا ہے کیونکہ اپنے نو سالہ مقابلے
کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اس لیے اب وہ اس کوشش میں ہے کہ اپنے
غلامانہ ذہن رکھنے والے مسلمانوں کو بطور مہرہ استعمال کر کے ان سے اپنے
مقاصد کی تکمیل کرائی جائے اور اب وہ ان مہروں کو استعمال میں لا رہا ہے
ابھی حالیہ دنوں پاکستانی وفد کی امریکہ پہنچنے پر جس طرح پذیرائی ہوئی اور
سر و چشم وا کیے گئے، یہ مہربانیاں کسی محبت و الفت کی بنا پر نہیں بلکہ اس
نئی چال کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو ان سازشوں سے محفوظ رکھے۔
طالبان مجاہدین اہل حق کی ہر قسم کی اندرونی بیرونی سازشوں سے حفاظت
فرمائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دوبارہ اہل اسلام کا عروج ہوا چاہتا ہے اور
ظلمتوں کے بسیرے چھٹنے والے ہیں کیونکہ
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے |