مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دنوں
بھارتی ہائیکورٹ نے ڈوگرہ دور کے اس قانون پر عملدرآمد کا حکم جاری کیا جس
کی رو سے بیل کے ذبح کرنے پر پابندی ہے اور اس فعل کی سخت سزا ہے۔اس کے
خلاف مقبوضہ کشمیر میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا اور کئی جگہوں پر کھلے عام
بیل ذبح کرتے ہوئے بھارتی حکومت اورعدالت کی اس پابندی کو مسترد کیا
گیا۔عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے لئے بیل ذبح کرنے کے خدشے سے بھارت کی
انتہا پسند ہندو تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگر
عید کے موقع پر خاص طور پر بیل ذبح کئے گئے تو مقبوضہ وادی کی اقتصادی ناکہ
بندی کی جائے گی۔اسی صورتحال کے تناظر میں بھارتی حکومت نے عید کے موقع پر
مقبوضہ کشمیر میں تین دن کے لئے انٹر نیٹ کی سروس بند کر دی ۔عیدا لا ضحی
کے دن بھارتی میڈیا میں یہ خبر گونج رہی تھی کہ عید کے موقع پر سرینگر میں
پاکستان اور’’ داعش‘‘ کے جھنڈے لہرائے گئے۔جبکہ حقیقت میں عید کے دن نماز
عید سے پہلے اور بعد میں ہونے والے بھارت مخالف آزادی کے حق میں ہونے والے
مظاہروں کے دوران پاکستان کے جھنڈے تو ضرور لہرائے گئے لیکن داعش کے جھنڈے
عید کے موقع پر لہرائے جانے کے بھارتی دعوے میں صداقت نظر نہیں آتی۔
چند دن قبل ہی امریکہ اور بھارت کے ایک مشترکہ بیان میں داعش کو جنوبی
ایشیا کے لئے بھی خطرہ بتایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چند ماہ کے دوران
چند مرتبہ داعش کے نشان والے جھنڈے لہراتے دیکھے گئے۔اس کا بھارتی میڈیا کی
طرف سے ذرا نوٹس لیا گیا تو بھارتی حکام نے داعش کی کشمیر میں موجودگی سے
انکار کیا۔اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں داعش کا ڈول
ڈالتے ہوئے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف ایک نئی سازش پر کام ہو رہا
ہے۔مقبوضہ کشمیر میں عشروں سے جاری جدوجہد، آزادی کی تحریک ہے ۔کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی کے خلاف مخالف قوتیں مختلف انداز میں حملہ آور رہتی ہیں۔یہ
بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے سے پہلے مغرب میں
کشمیریوں کی تحریک کو جدوجہد آزادی کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا لیکن لال
قلعے اورانڈین پارلیمنٹ کی طرح کے حملوں نے کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد
آزادی کو دنیا میں دہشت گردی کے طور پر سامنے لایا۔سرینگر میں داعش کے نشان
والے کپڑے لہرانے والے علامتی طور پر ہی سہی،آلہ کار کے طور پر ہی سہی ،
لیکن موجود تو ہیں!یہ کون سے عناصر ہیں جو تحریک آزادی کشمیر کی صفوں میں
فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے فروغ کے لئے استعمال ہو رہے ہیں؟حریت رہنماؤں
اور کشمیر کے عوامی حلقوں کو بھی اس بارے میں صورتحال اور عوامل کا جائزہ
لینا چاہئے۔
داعش کے بارے میں مسلمانوں میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ مسلمانوں کے مفادات
،سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور
جو کام طالبان سے بھی نہ لیا جا سکا،وہ کام داعش سے لیا جا رہا ہے۔داعش کی
جہالت ،اس کے قتل و غارت گری کے غیر انسانی طریقے اور اسی طرح کے دیگر
انداز نے مسلمانوں کو داعش سے متنفر کیا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے خلا ف
آپریشن سے پاکستانی طالبان کو کمزور تر کر دیا گیا ہے جبکہ افغانستان کے
طالبان کا معاملہ محض طالبان ازم کا نہیں بلکہ افغانستان میں پختون علاقوں
کو حکومت سے الگ رکھنے جیسے امور بھی کار فرما ہیں ۔اسی تناظر میں افغان
طالبان سے مزاکرات کے ڈول ڈالے جاتے ہیں۔یوں جنوبی ایشیا میں داعش کو ایک
ایسے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو خطے میں قتل و ٖغارت گری اور مسلح
لڑائیوں ،جنگوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔امریکہ اور بھارت نے جس طرح اپنے
مشترکہ بیان میں داعش کو جنوبی ایشیا میں ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے اس سے
خطے میں داعش کے خطرات میں اضافے کے رجحان کا عندیہ ملتا ہے۔دوسرے الفاظ
میں کہ ’’ جب داعش پر امریکی ڈالر کا ریٹ بڑھے گا تو جنوبی ایشیا میں داعش
کے خطرات خود بخود پیدا ہو جائیں گے‘‘۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان نہایت گہرے تعلقات کی بنیادیں تعمیر ہو رہی ہیں
اور دونوں ملک مختلف امور اور موضوعات پر مل کر کام کرنے کے معاہدے کر چکے
ہیں۔امریکہ اور بھارت کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعاون سمیت قریبی تعلقات
کوئی نئی بات نہیں ہے،امریکہ تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی بھارت کی ہر طرح سے
مدد و حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر امریکہ نے مسئلہ
کشمیر کے حل کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے ہمیشہ اس مسئلے کو
پاکستان اور بھارت کے درمیان کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اس دیرینہ مسئلے کے
حل میں کشمیریوں کے خلاف بھارتی ظلم و جبرکی حمایت کا اظہار کیا ہے۔سات
عشروں کے تجربات کے پیش نظر پاکستان کے لئے امریکہ پر کلی انحصار کی پالیسی
تبدیل کرنا وقت کے اہم تقاضے کے طور پر درپیش ہے۔امریکہ جس طرح اپناتمام
وزن بھارتی’ پلڑے ‘ میں ڈالتے ہوئے جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی غیرجانبداری
کی پالیسی کی نفی کر رہا ہے اور خطے کے تنازعات کو’’ بھارتی عینک‘‘ سے دیکھ
رہا ہے،امریکہ کا یہ انداز کشمیریوں بلکہ جنوبی ایشیا کے لئے مہلک خطرات
لئے ہوئے ہے۔واشنگٹن میں سٹریٹیجک اور تجارتی شراکت پر دو دنوں تک جاری
رہنے والی ملاقات کے بعد امریکہ اور بھارت نے پہلی بار دہشت گردی کے خلاف
ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں دونوں ہی ملکوں نے پاکستان سے ممبئی پر
ہوئے حملے کے’’ گناہ گاروں ‘‘کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی
وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ گذشتہ چھ برسوں میں امریکی خفیہ اداروں نے
اتحادی ملکوں، خاص طور سے بھارت کے ساتھ مل کر کوشش کی ہے کہ حملوں کو
انجام دینے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔ممبئی حملوں کے بعد اس طرح کی کوششیں
تیز ہوئی ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ آسان کام نہیں ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہی
ہے کہ ہم ان حملوں کو پہلے ہی روک سکیں۔اس مشترکہ بیان میں گرداس پور اور
اودھم پور میں گذشتہ دنوں ہوئے حملوں پر بھی سخت تنقید کی گئی۔امریکہ اور
بھارت نے دولت اسلامیہ تنظیم کو ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کو شکست
دینے کے لیے مل کر کام کرنے کی بھی بات کی۔امریکہ کی بھارت کے حق میں
پاکستان مخالف پالیسیاں دیکھتے ہوئے ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ پاکستان کی
طرف امریکہ پر کلی انحصار کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے،لیکن ہمارے ارباب
اختیا ر بھی کیا کریں کہ بقول غالب،
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے |