مسلم فوبیا۔۔۔۔

یہ واقعہ امریکہ کے ایک شہر ٹیکساس کے ا یک ہا ئی سکو ل میں پیش آتا ہے۔ چودہ سالہ بچے جہاں کرکٹ، ویڈیو گیمز، فٹ بال، ٹی وی کا شوقین ہوتا ہے، وہاں امریکہ کے شہر ٹیکساس کے اس ہا ئی سکول کے احمد محمد نامی چودہ سالہ لڑکا ا یک دلچسپ و عجیب عادت لیئے بیٹھا ہے۔ وہ اس چھو ٹی سی عمر میں گھر کے الیکٹرانکس سامان کی مرمت کرتا ہے اور مختلف گھڑیوں کو اکھٹا کر کے ان کے مختلف سرکٹ بنا نے میں مصروف رہتا ہے۔ یہ ذہین و فطین لڑکا میڈیا کی نظروں میں تب آیا جب اس نے اپنی طرف سے ایک گھڑی بنائی اور اپنے ہمجو لیوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ وہ خو شی خوشی امریکی استاد کو دکھا نے کے لیئے چل دیتا ہے مگر یہ کیا امریکی استاد بجا ئے انعام کے اس ننھے منھے سایئنسدان کو سزا کا مستحق قرار دیتا ہے۔ اور اسے تین دن کے لیئے " سسپینڈ" کیا جاتا ہے۔ اور استاد گھڑی کو بم قرار دیکر پولیس سے رابطہ کر لیتا ہے۔ یوں یہ خبر میڈیا کی زینت اختیار کر جا تا ہے ۔ بعد میں حالات کلیئر ہو نے پر اسے بری کیا جا تا ہے۔ اور امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوبامہ کی طرف سے اسے واشنگٹن ڈی سی بلا نے کی دعوت بھی آجاتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسری مشہور شخصیات کی طرف سے توصیفی کلمات بھی میڈیا پر آجاتے ہیں۔ احمد محمد ایک امریکی مسلم اور گریڈ نو کے طا لب علم ہے ، اس کے والد کا بنیادی تعلق سوڈان سے ہے جو وہ برسوں پہلے آکر امریکہ میں مقیم ہو ئے۔

گو کہ وایٹ ہا وس کی طرف سے اسے بری بھی کیا گیا اور وائٹ ہاوس اس لڑکے کی طرف دار نظر ائی جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہے مگر سو چنے کی بات ہے کہ ایسا کیو ں ہو ا، ایک ننھے سائینسدان کو بجائے انعام کے سزا کا مستحق کیوں گردانا گیا ۔ اسے شک کی نظر سے کیوں دکھا گیا، اسکی حو صلہ افزائی کیوں نی کی گئی ، کیو نکہ وہ ایک مسلم تھا اور ایک مسلم کو مانیٹر کر نا آج کل ضروری سمجھا جا تا ہے۔ اس کی ہر ایک نقل و حرکت پر نظر رکھی جا تی ہے اور انہیں دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے۔ وہ جو بھی کام کریں ، ان پہ شک کا پہلو لا زم تصور کیا جاتا ہے۔ ائیر پو رٹ پر ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، سخت ترین چیکنگ سے گزارا جا تا ہے۔ کیو نکہ مسلمانوں کا تصور دہشت گرد بنایا گیا ہے۔ ہاں ہم اور اپ یہود کی سازش کہہ کر ، امریکہ کو دو تین غلیظ گا لیاں نکا ل کر ، بھارت کو اسکا ساتھی قرار دے کر انگلی کے اشاروں سے امریکہ کو برا بھلا کر بھڑاس نکال دینگے اور بیچ میں میڈیا کو بھی بے لگام کہہ کر حقیْت بیان کر نے کی کو شش کرینگے مگر ایک اور ضروری امر کیطرف شاید سو چینگے بھی کہ نہیں۔

یہ واقعات پیش اتے رہینگے جب تک ہم اپنے شہریوں کو ان کے قید میں رکھنے دینگے اور ان کی رہا ئی کے لیئے کو ئی جامع کو شش بھی نہیں کر ینگے جس سے ایک تا ثر ابھرے گا کہ یہ یتیم لوگ ہے ان کا کو ئی پو چھنے والا ہی نہیں۔ ایسے واقعات کی وجہ ان کے بدمعاشوں ریمنڈ ڈیوسوں کو کھلے عام دہشت پھیلانے پر بھی ان کو بغیر سزا دئیے ان کے حو الے کر نا ہے جس سے تشخص ہما را ہی خراب ہو تا ہے ۔ جس سے یہ لوگ مزید تر احساس برتری میں مبتلا ہو جا یئینگے احساس برتری میں مبتلا تو ہیں ہی ہمیں مزید کمتر شمار کرینگے ۔ ہمیں ایسے واقعات سے پالا پڑتا رے گا، جب تک ہم ایک دوسری کی ٹانگ کھینچنے سے باز نہیں اتے، جب تک ہم ایک مسلم امہ نہیں بن جا تے، جب تک ایک بن کے دکھا تے نہیں۔ ہمیں ایسی ہی شک بھری نگا ہو ں سے دکھا جا ئے گا جب تک ہم ڈالر کے عو ض اپنے ہی شہری بیچنا بند نہیں کر تے۔ یہ سارے کرتوت جو بھی اسلا می ملک کر ے تشخص ایک مسلم کا ہی خراب ہو رہا ہے چا ہے وہ پا کستان کا ہو ، سعودی عرب، ایران، ترکی یا امریکہ کا ہی کیو ں نہ ہو۔ مگر یا د رکھے مسلم امہ کے حکمرانوں اپ نے ہمیں بیچ بیچ کر اپنے لیئے بھی ائر پورٹس پر سکینر کے مراحل کھڑے کر دیئے۔ ایک مسلم ملک کا حکمران ہو کے بھی جو تے اتار کر چیک کیا جاتا ہے۔ جو ہمارے لیئے با عث شرم ہے۔

یہ مسلم فو بیا کیوں پھیل گیا۔ کیا اس کے ذمہ دار ہما رے یہ حکمران نہیں جو ڈالر کے عوض ہمارا سودا کر چکے، جس سے ہمارا تشخص خراب ہو گیا۔ جب تک ہم ڈالر کے عوض بیچتے رہینگے، ایسے واقعات تھمنے کا نام نہیں لینگے اور مسلمانوں کے ہر ایک چیز کو شک کی نگا ہ سے دیکھا جا ئے گا۔ مسلمانوں کا تشخص مجروح ہو تا جا ئیگا کیو ں کہ جس کی اپنی گھر میں قدر نہیں کی جاتی اسکی با قی دنیا کیا قدر کر ے گی، اور ہم اپنے گھروں کے قدردانوں کے ٹھکرائے ہو ئے ہیں۔ جس سے ایک عام مسلمان بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ اور شک بھری نظروں کا مرکز بن گیا ہے۔
MUHAMMAD KASHIF  KHATTAK
About the Author: MUHAMMAD KASHIF KHATTAK Read More Articles by MUHAMMAD KASHIF KHATTAK: 33 Articles with 86286 views Currently a Research Scholar in a Well Reputed Agricultural University. .. View More