قرآن کریم کی آیات (سورہ مائدہ
۸۹، سورہ البقرہ ۲۲۵، سورہ آل عمران ۷۷) واحادیث شریفہ کی روشنی میں قسم
کھانے سے متعلق چند ضروری واہم مسائل‘ علماء کرام نے اس طرح بیان فرمائے
ہیں :
٭ اﷲ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا جائز
نہیں ہے (مثلاً تیری قسم، تیرے سر کی قسم)۔ نبی اکرم ا نے ارشاد
فرمایا: جوشخص قسم کھانا ہی چاہے تواسے چاہئے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کے نام
ہی کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے (بخاری ومسلم)۔
نیز نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: جس نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم
کھائی ، گویا اس نے کفر وشرک کیا (ترمذی، ابوداؤد ، صحیح ابن
حبان، بیہقی ، حاکم)۔ لہذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہئے ، اگر
ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اﷲ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔
٭ جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ مثلاً کسی شخص نے کوئی کام
کرلیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے ، اور پھر جان بوجھ
کر قسم کھالے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔ اس طرح کی جھوٹی قسم کھانا بہت
بڑا گناہ ہے اور دنیا وآخرت میں وبال کا سبب ہے۔ ایسے
شخص کے لئے اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔ جھوٹی قسم انسان کو
گناہ اور وبال میں غرق کردینے والی ہے اس لئے اس قسم کو
یمین ِغموس کہا جاتا ہے۔ یمین کے معنی قسم اور غموس کے معنی ڈبا دینے والے
کے ہیں۔
٭ کسی گزشتہ واقعہ کو اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے اور حقیقت میں وہ
غلط ہو، مثلاً کسی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص آگیا ہے ،
اس پر اعتماد کرکے اس نے قسم کھالی ، پھر معلوم ہوا کہ وہ نہیں آیا ہے۔ اسی
طرح بلا قصد زبان سے قسم کے الفاظ نکل جائیں جیسے لا واﷲ،
بلی واﷲ، قسم خدا کی۔ اس طرح کی قسم کھانے کو یمین لغو کہا جاتا ہے۔ ایسی
قسم کھانے پر گناہ تو نہیں ہے، البتہ آداب گفتگو کے خلاف ہے
لہذا اس طرح کی قسم کھانے سے بھی حتی الامکان بچنا چاہئے۔
٭ آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کو یمین
منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے توڑنے کی صورت
میں کفارہ واجب ہوتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے قسم کھائی کہ میں فلاں کام نہیں
کروں گا، پھر وہ کام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے،
جس کی تفصیل یہ ہے :
= دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا۔
= یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا۔
= یآْ ایک غلام آزاد کرانا۔
= اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو
قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔
٭ اگر کسی شخص نے ناجائز امر مثلاً نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی تو اس کی
قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، لہذا اس کو نماز پڑھنی ہی ہوگی البتہ کوئی
کفارہ
اس کے ذمہ نہیں ہوگا۔ |