نذر یعنی منت ماننے کے مسائل

نذر اپنے اوپرکچھ واجب کرنے کا نام ہے۔ شرعی اصطلاح میں اﷲ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت والے کسی ایسے عمل کو جو اﷲ تعالیٰ نے ضروری نہیں قرار دیا یا کسی بھی جائز عمل کو اپنے اوپر لازم کرنے کو نذر یعنی منت ماننا کہتے ہیں، مثلاً کوئی شخص کہے کہ میں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہر ماہ تین یا پانچ یا سات روزے رکھنے کی نذر مانتا ہوں۔ یا یوں کہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے فلاں مرض سے شفا دیدی تو میں اتنا مال صدقہ کروں گا۔

نذر یعنی منت ماننے کا رواج پہلی قوموں میں بھی تھا حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر نذر کا تذکرہ ملتا ہے۔
اِذْ قَالَتِ امْرَاَۃُ عِمْرَانَ رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطْنِی مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی (سورۂ آل عمران ۳۵)جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے میں نے تیری (عبادت گاہ کی) خدمت کے لئے وقف کرنے کی نذر مانی ہے، تو میری طرف سے قبول فرما۔
فَقُوْلِی اِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْماً (سورۂ مریم ۲۶)تو کہہ دینا کہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے نام کا روزہ نذر مان رکھا ہے۔
وَمَآ اَنْفَقْتُم مِّن نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَعْلَمُہ (سورۂ البقرہ ۲۷۰)تم جتنا خرچ کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اﷲ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے، یعنی اس پر اجر وثواب دیتا ہے۔

نذر کی قسمیں :
نذر اطاعت: اﷲ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت والے اعمال مثلاً نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج اور عمرہ وغیرہ میں سے ایسے کسی عمل کو اپنے اوپر لازم کرلینا جس کو اﷲ تعالیٰ نے ضروری نہیں قرار دیا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کہے کہ میں روزانہ ۱۰ نوافل ادا کروں گا یا ہر ماہ سات یا آٹھ روزے رکھوں گا۔ ایسی منت کو پورا کرنالازم ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: وَلْےُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ (سورۂ الحج ۲۹) اپنی نذروں کو پورا کرو۔ نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ نَذَرَ اَن ےُّطِےْعَ اللّٰہَ فَلْےُطِعْہ (بخاری ومسلم) جس شخص نے اﷲ کی اطاعت کے لئے کوئی منت مانی تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی نذر کو پورا کرو ۔ (بخاری) نذر پوری کرنے والوں کی تعریف خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمائی ہے: ےُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ۰۰۰۰۰۰ (سورۂ الانسان ۷) وہ اﷲ کی اطاعت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرہ کی منت مانتے ہیں اور اس کو پورا کرتے ہیں....... اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نذر پوری کرنے والوں کو نیک لوگوں میں شمار کیاہے۔

قسم کا کفارہ:
اگر کوئی شخص نذر (منت ) ماننے کے بعد اس پر عمل کرنے سے رکنا چاہے تو اسے قسم کے کفارہ کی طرح کفارہ ادا کرنا ہوگا۔

دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دینا یا غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔
نذر مقید: نذر کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی خاص شرط کے پورے ہونے پر منت مانی جائے، مثلاً اگرمیری تنخواہ میں اضافہ ہوا تو میں ۱۰۰ ریال غریب کو دوں گا۔ یامیرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک بکرا ذبح کروں گا۔۔ اس طرح کی شرط کے ساتھ نذر ماننا جائز تو ہے، البتہ شریعت اسلامیہ نے اس نوعیت کی نذر ماننے کو چند وجوہات کی وجہ سے پسند نہیں فرمایا ہے مثلاً :
٭ کبھی کبھی نذر ماننے والا منت پورا نہیں کرپاتا اور پھر گناہ گار ہوتا ہے۔
٭ لوگوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوتا ہے کہ نذر ماننے سے تقدیر بدل جاتی ہے۔
٭ لوگوں میں یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ ان کی نذر کی وجہ سے یہ چیز حاصل ہوئی ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے اس طرح کی نذر کے متعلق ارشاد فرمایا: نذر ماننے سے کوئی خیر نہیں آتی بلکہ اس کے ذریعہ صرف بخیل کا کچھ مال خرچ ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
مسئلہ: اگر کوئی شخص اس طرح کی مقید نذر مان لے تو شرط پائے جانے پر نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔ اگر شرط پائے جانے کے باوجود کسی وجہ سے نذر پوری نہ کرسکے تو اسے قسم کے کفارہ کی طرح کفارہ ادا کرنا ہوگا۔

تنبیہ: نذر مثل نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ایک عبادت ہے اور عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے جیسا کہ نماز کی ہر رکعت میں ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں: اِےَّاکَ نَعْبُدُ وَاِےَّاکَ نَسْتَعِےْنَ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)۔ لہذا اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی بزرگ یا ولی کے نام سے نذر یعنی منت ماننا ناجائز وحرام ہے اور اس نذر کو پورا نہ کرنا واجب اور ضروری ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَا نَذْرَ فِی مَعْصِےَۃِ اللّٰہِ (بخاری ومسلم) اﷲ کی نافرمانی میں کوئی نذر معتبر نہیں ۔

مسئلہ: اگر کسی شخص نے کسی گناہ کرنے کی یا کسی بزرگ یا ولی کے نام سے نذر مانی تو اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ، اس نذر کا ختم کرنا واجب اور ضروری ہے۔ البتہ کفارہ کے وجوب میں علماء کا اختلاف ہے، احتیاط قسم کے کفارہ ادا کرنے میں ہے۔

مسئلہ: اگر کسی شخص نے چند نذریں مانیں مگر اب ان نذروں پر عمل کرنا مشکل ہورہا ہے، تو وہ اپنی تمام نذروں کو ختم کرسکتا ہے۔ البتہ ایک قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا یا جتنی نذریں مانی تھیں اتنے ہی کفارے ادا کرنے ہوں گے، اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ ہر نذر کا الگ الگ کفارہ ادا کرے۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 164534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.