داماد نبی ﷺ ، مظلوم مدینہ ، امیر المومنین،سید ناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ

تاریخ اسلام جہاں بہت سی لازوال قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ وہیں پیاسوں کا ایک ایسا قبیلہ بھی ہے جس کی درسگاہ کے پہلے استاد سّید ناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ ہیں۔کامیاب استاد بھی وہی ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کو اصول و معارف سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرکے بھی دکھائے۔تاریخ انسانی کو اس بات کا اعتراف ہے کہ مظلوم مدینہ سّید ناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنے دیئے گئے سبق کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا جس کے اثرات مدینہ کے میدان سے لے کر کرب و بلا کے صحرا تک محسوس کیے گئے ۔

حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ ؓ کے والد کا نام ’’عفان ‘‘تھا۔ پانچویں پشت پر آپ کا سلسلہ نسب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے ۔ آپؓ کا ذر یعہ معاش تجارت تھا۔ قریش کے دولت مند ترین لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔اور اپنی سخاوت کی وجہ سے’’ غنی‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔

آپؓ کی عمر اس وقت چونتیس سال تھی جب اسلام کا ظہور ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے آپ ؓ کے گہرے مراسم تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خصوصی کا وشوں نے انہیں اسلام کی طرف مائل کیا ۔

حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ خود اپنے قبول اسلام کا واقعہ کچھ اس طرح بیان فرمایاکرتے تھے کہ ’’میں اپنی خالہ اروی بنت عبدالمطلب کے پاس اُنکی بیمار پرسی کے لئے گیا ۔ابھی میں ان کے پاس موجود ہی تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ،ان دنوں حضور ﷺکی نبوت کا تذکرہ تھوڑا بہت ہو چکا تھا، میں آپ ﷺ کو غور سے دیکھنے لگا ۔ آپ ﷺ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا ۔!’’اے عثمان ! کیا بات ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’میں اس بات پرحیران ہوں کہ آپ ﷺ کا ہمارے ہاں بڑا مرتبہ ہے ،اور پھر آپ ﷺ کے بارے میں ایسی باتیں کہی جارہی ہیں ‘‘ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا۔ !
’’ لا الہ الا اﷲ ‘‘ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ) اﷲ گواہ ہیں کہ میں یہ سن کر کانپ گیا ۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آ یت تلاوت کی: ۔
’’ اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے، تو یہ آسمان اور زمین کے مالک کی قسم یہ قابل یقین ہے ،جس طرح تم بات کرتے ہو ۔ (الذریات)
پھر حضور ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے ، میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے چل دیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکردست نبوت ﷺ پر اسلام قبول کر لیا ۔ (حیاۃ الصحابہ)

جن دنوں پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا سیّدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺاپنے گھر میں تشریف فرما تھے اور میں انکے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی ۔اسی دورا ن حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اجازت لے کر اندر تشریف لے آئے ،پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اجازت لے کر اندر تشریف لے آئے ، پھر حضرت سعد بن مالک رضی اﷲ عنہ اجازت لے کر اندرتشریف لے آئے ۔اس دوران رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم گفتگو میں مصروف تھے اور آپ ﷺ کی پنڈلیاں کھلی ہوئیں تھیں۔ اتنے میں حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ اجازت لے کر اندرتشریف لائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے اندر تشریف لانے پررسول اکرم ﷺ نے اپنی ٹانگوں پر کپڑا ڈال لیا۔ اور سیّدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ سے فرمایا ! ذرا پیچھے ہٹ کر بیٹھ جائیں۔ جب سب حضرات حضور ﷺ کی محفل سے اٹھ کر چلے گئے تو سیّدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی ! میرے والد اور دوسرے صحابہ اندر آئے تو آپ ﷺ نے نہ پنڈلیوں پر کپڑا ڈالا اور نہ ہی مجھے پیچھے ہونے کاکہا اور جب حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے پنڈلیوں پر کپڑابھی ڈال لیا اور مجھے بھی پیچھے ہونے کاحکم ارشاد فرمایا اس کی کیا وجہ ہے؟۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا:۔
’’ کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں؟ جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ۔فرشتے عثمان سے ایسے حیاء کرتے ہیں جیسے اﷲ اور اﷲ کے رسول سے۔اگر وہ اندر آتے اور تم پاس بیٹھی ہوتی تو نہ وہ بات کرسکتے اور نہ واپس جانے تک سر اٹھاسکتے‘‘ ۔ (حیاۃ الصحابہ)

پیکر حیاء حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے جہاں اور بہت سے اعزازات تھے وہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیاں آپؓکے نکاح میں آئیں ۔ سب سے پہلے حضرت رقیہ ؓ کا نکاح حضرت عثمان غنی ؓسے ہوا ۔ جب وہ انتقال فرما گئیں تو اﷲ رب العزت کے حکم سے حضور نبی کریمﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمان ؓ سے کردیا۔ چنانچہ جب انکا بھی انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اگر میری اور کوئی بیٹی ہوتی تو میں اسکا نکاح بھی عثمان سے کردیتا‘‘۔
چونکہ حضور ﷺ کی دونورِ نظر یکے بعد دیگرے آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں ۔ اسی لئے آپ ؓ کو ذوالنورینؓکے لقب سے نوازا گیا۔ تاریخ الخلفاء میں علا مہ جلال الدین سیوطی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
حضرت عثمان ؓ کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دوبیٹیاں آئی ہوں۔

آپ ؓ نے جس طرح داماد رسول ﷺ ہونے کا اعزاز دو مرتبہ پایا اسی طرح ہجرت کا شرف بھی دو مرتبہ حاصل کیا ۔جن اصحاب نے مشرکین و کفار کے ظلم و جبر سے تنگ آ کر ہجرت کی ان میں آپؓ اپنی زوجہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ شریک تھے۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لوط ؑ کے بعد عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل بیت کے ہمراہ ہجرت کی۔دوسری ہجرت آپ ؓنے مدینہ طیبہ کی طرف کی۔اس طرح آپ ؓ ’’ذوالنورین ‘‘کے ساتھ ساتھ’’ ذوالہجرتین ‘‘بھی ہوئے۔

خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروقؓ کی شہادت کے بعد سیدنا عثمان غنی ؓآنحضرت ﷺ کے جانشین مقرر ہوئے۔آپ کے دور خلافت کے پہلے چھ سال انتہائی پر امن گزرے۔مشرق و مغرب میں ہزاروں مربع میل رقبہ عہد خلافت میں مملکت اسلامی کا حصہ بنا ۔اور سندھ سے لے کر جبرالٹر تک اسلام کا علم آپ کے عہد میں لہرایا۔البتہ آخری چھ سالوں میں نفاق سے لبریز تحریکیں زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔حضرت مرہ بن کعب ؓ روایت فرماتے ہیں کہ’’ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے اور انکا قریب ہونا بیان فرماتے سنا۔پھراُ دھر سے ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے گزرا۔ (آپ ﷺ نے اشارہ کر کے) فرمایا !اس دن یہ ہدایت پر ہوگا، میں نے اٹھ کر ان کو دیکھا تو وہ عثمان بن عفانؓ تھے۔میں نے ان کا چہرہ آنحضرت ﷺ کے سامنے کرکے عرض کی کہ ’’یہی ہیں؟‘‘ فرمایا ’’ہاں!‘‘ یہی ہیں۔ (ترمذی)

آخر کار وہ وقت بھی آیا جب باغیوں نے اپنے ارادوں پر عمل کرتے ہوئے امام مظلوم ؓ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔

سب سے پہلے آپؓ کا مسجد میں خطبہ بند کیا گیا، پھر باجماعت نمازکی ادایئگی بھی جبراً بند کر دی گئی، مگر اتنے پرہی بس نہیں ،یہاں تک کہ آپ ؓ کو گھر میں محصور کر کے رکھ دیاگیا ،اور مدینہ کی گلیوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں کہ عثمان(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) تک نہ تو کوئی شخص کھانا پہنچائے گا ، اور نہ ہی پانی ۔ ۔ ۔!

حضرت علی ؓ نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح پانی حضرت عثمانؓ تک پہنچایا جائے مگر باغی آڑے آگئے اور مشکیزہ چھین کر پانی گرا دیا۔بالاخرحضرت علیؓ بطور یقین دہانی اپنا عمامہ وہاں چھوڑ کر واپس چلے آئے تا کہ ’’محبتِ عثمانؓ ‘‘کا حق ادا ہو جائے۔

جب باغیوں نے حضرت عثمان ؓ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو حضرت علیؓ نے اپنے جگر گوشوں حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ کوامیر المومنین سیدنا عثمان ؓ کے دروازے پر پہرہ دینے کا حکم بھیجا۔اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ تم دونوں عثمانؓ کے دروازے پر پہرہ دو ،اور کسی بھی باغی کو حجرہِ عثمانؓ تک مت پہنچنے دینا۔چنانچہ دونوں شہزادے بیت عثمانؓ کی طرف چل پڑے۔گویا امام علیؓ کا اپنے شہزادوں کو یہ تربیت دینا مقصود تھا کہ ’’درِعثمانؓ‘‘ پر کھڑے ہو کر یہ سبق حاصل کرو ۔!
کس طرح بھوکے رہ کر قرآن پڑھا جاتا ہے۔
کس طرح چالیس دن تک پیاسے رہ کر تلاوت کی جاتی ہے۔
کس طرح بھوکے پیاسے رہ کر سجدے کئے جاتے ہیں ۔
ایک دن آئے گا کہ تمہیں بھی یہی سبق کربلا کی سر زمیں پر دہرانا پڑے گا۔

امیر المومنین حضرت عثمان ؓ نے باغیوں کو متعدد با ر سمجھانے کی کوشش کی ۔ایک دن دوران محاصرہ آپؓ اپنے گھر کی چھت پر تشریف لائے اور باغیوں کو مخاطب کر کے فرمانے لگے ۔
’’اے لوگو ! وہ وقت یاد کرو جب مسجد نبویﷺ کی زمین تنگ تھی اور رسول کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ! کون ہے جو اﷲ کے لئے اس زمین کو خرید کر مسجد کے لئے وقف کرے گا اور جنت کا وارث بنے گا۔ ۔ ۔ وہ کون تھا ؟ جس نے اﷲ کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل کی تھی۔؟
سب نے بیک آواز ہو کر کہا ۔ ۔ ۔ آپ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)نے تعمیل کی تھی۔
پھر فرمایا! میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تم وہ وقت یاد کرو جب مدینہ میں بیئر رومہ کے سوا میٹھے پانی کا کنواں نہ تھا ، تمام مسلمان روزانہ قلت آب کی وجہ سے تکلیفیں اٹھاتے تھے۔ وہ کون تھا کہ جس نے رسول اﷲﷺ کے حکم سے کنوئیں کو خرید ا اور تمام مسلمانوں پر وقف کر دیا۔؟
سب نے بیک آواز کہا ۔ ۔ ۔آپ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)نے وقف فرمایا تھا۔
حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ آج اسی کنوئیں کے پانی سے تم مجھے روک رہے ہو۔
پھر فرمایا ! لشکر عسرت کو ساز و سامان کس نے آراستہ کیا تھا ؟
لوگوں نے کہا ۔ ۔ ۔آپ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)نے۔

پھر فرمایا کہ میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ہے جو اﷲ کے لئے حق کی تصدیق کرے اور یہ بتائے کہ جب ایک دفعہ رسول اﷲ ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ہلنے لگا تھا، پھر آپﷺ نے اس پہاڑ کو ٹھہرا دیا اور فرمایا ۔۔۔!
اے اُحد ۔ ۔ ۔ ٹھہر جا! اس وقت تیری پیٹھ پر ایک نبی ، ایک صدیق، اور دوشہید کھڑے ہیں ، اور میں اس وقت رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھا۔؟
سب نے بیک آواز کہا ۔ ۔ ۔سچ فرمایا ۔
پھر فرمایا ۔اے لوگو ! خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ جب رسول اﷲﷺ نے مجھے حدیبیہ کے مقام پر اپنا سفیر بنا کر قریش کے پاس بھیجا تو کیا واقعہ پیش آیا تھا۔؟
کیا یہ صحیح نہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے خود اپنی بیعت لی تھی۔؟
لوگوں کے مجمع سے آوازیں آنے لگیں کہ آپ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)نے سچ فرمایا۔

لیکن افسوس کہ بلوائیوں کے پسماندہ دماغوں سے بد نیتی کا خمار چھٹ نہ سکا۔اور انہو ں نے چالیس روز ہ پیاس سے بے حال ، پیکر صبر و حیا، امیرالمومنینِ وقت، سیدنا عثمان غنی ؓ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
سرکار دوعالم ﷺ حضرت عثمانؓ کے متعلق شہادت کی پیش گوئی بھی فرما چکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمانؓ نے بلکل بھی مزاحمت نہ کی۔بلکہ خاموشی سے اﷲ کے نبی ﷺ کی گئی وصیت کی تکمیل کا انتظار فرماتے رہے۔۱۸ ذی الحجہ اور جمعہ کا دن تھا۔آپؓ روزہ کی حالت میں تھے ۔اسی صبح آپ ؓنے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے ہیں، آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ حضرت عثمانؓ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ عثمان! جلدی آؤ ہم یہاں افطاری کے لئے تمہارے منتظر بیٹھے ہیں‘‘۔آنکھ کھلی تو آپؓ نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ’’میری شہادت کا وقت قریب آگیا ہے، باغی مجھے قتل کر ڈالیں گے‘‘۔انہوں نے کہا ! امیر المومنین ایسا نہیں ہو سکتا۔ ارشاد فرمایا کہ’’ میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں ‘‘۔پھر منگوا کر وہ لباس زیب تن کیا جو پہلے نہیں پہنا تھا۔اپنے بیس غلام آزاد کئے۔اوراپنے گھر کا دروازہ باغیوں کے لئے کھول کر تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو گئے۔گویا اب شہادت کا انتظار تھا اور صرف انتظار ہی نہیں بلکہ شدید انتظار تھا۔کیونکہ شہادت کے رنگین پردہ و حجاب کے پیچھے محبوب سے ملاقات متعین تھی۔

آخر کار وہ گھڑی بھی آن پہنچی باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا ۔حضرت امام حسنؓ جو کہ دروازے پر متعین تھے باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہوگئے۔چار باغی دیوار پھلانگ کر چھت پر چڑھ گئے ۔حضرت عثمانؓ نیچے کے مکان میں تن تنہا قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے۔اتنے میں ایک بلوائی نے حضرت ِعثمان غنیؓ کی ریش مبارک کو پکڑ کر زورسے کھینچا ۔کنانہ بن بشیر نے پیشانی مبارک پر لوہے کی سلاخ سے درد ناک ضرب لگائی کہ آپؓ پہلو کے بل گر پڑے اور زبان سے ’’بسم اﷲ توکلت علی اﷲ‘‘ نکلا۔سودان بن حمران نے دوسری ضرب لگائی جس سے خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔بدبخت عمرو بن الحمق سینہ پر چڑھ بیٹھا اور جسم کے مختلف حصوں پر پے در پے ۹ زخم لگائے۔ایک اور بے رحم نے تلوار کا وار کیا تو آپؓ کی اہلیہ حضرت نائلہؓ نے آگے بڑھ کر روکنا چاہا توہاتھ کی تین انگلیاں کٹ کر الگ ہو گئیں ۔اسی کشمکش کے دوران جمعہ کے دن عصر کے وقت ’’ذوالنورین ‘‘کی شمعِ حیات ہمیشہ کے لئے بجھتی چلی گئی ،اور آپؓ نبی کریم ﷺ کی بشارت کے مطابق شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے ۔( انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
شہادت کے وقت جب تلاوت فرما رہے تھے تو ایک حملہ آور کے وار سے آپؓ کے خون ناحق نے جسم اطہر سے جدا ہو کر قرآن کی جس آیت کو اپنا مسکن بنا کر بوسہ لیا وہ یہ تھی۔
’’فسیکفیکھمُ اﷲ و ھو السمیع ُالعلیم‘‘
’’خدا کی ذات تم کو کافی ہے، وہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘
دو دن تک آپ ؓ نعش مبارک بے گور کفن پڑی رہی،تیسرے دن چند خوش قسمت مسلمانوں نے سرخ پھولوں کی بجائے سرخ خون سے ڈھکی ہوئی میت کو کندھا دیا۔محبوبﷺ کی گلیوں سے جب عاشق ِمظلوم کا لہولہان ، زخموں سے چور چور، لاشہ گزرا ہوگا تو کیا عجب منظر ہوگا۔
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
محبوب کی گلی میں ذرا گھوم کے نکلے
یقینا فرشتوں کے گل پاشی کی ہو گی ۔کیوں کہ یہ کسی عام شخص کا نہیں بلکہ ۔ ۔ ۔
داماد مصطفیﷺ کا جنازہ تھا۔
ذوالنورین کا جنازہ تھا۔
امیر المومنینِ وقت جنازہ تھا۔
مظلومِ مدینہ کا جنازہ تھا ۔
محسن ِاسلام کا جنازہ کا تھا۔

حضرت زبیر بن مطعم ؓ نے آپکی ؓ نماز پڑھائی اور صرف سترہ مسلمانوں نے آپؓ کی نمازِجنازہ پڑ ھی اور کتاب اﷲ کے سب سے بڑے خادم ،سنت رسول اﷲﷺ کے سب سے بڑے عاشق ، محسنِ اسلام کو جنت البقیع کے گوشہ میں ہمیشہ کے لئے سلا دیا گیا۔
Umar Qasmi
About the Author: Umar Qasmi Read More Articles by Umar Qasmi: 16 Articles with 19549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.