سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل
الجبیرکے تازہ بیان ـ’’کہ شامی صدر بشار اسد کو جانا ہوگا،نہیں تو وہ طاقت
کے ذریعہ ہٹنے کیلئے تیار ہوجائیں‘‘ان کا یہ بیان حج سیزن کے خاتمہ پر
سامنے آیاہے، جس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے، ان کے اس بیان کو عالم ِدنیا
مجبوری کی علامت مان رہی ہے، موجودہ شامی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے
کیلئے داعش کی شکل میں ایک اسلامی حلیہ فوج کیسٹوں میں تیار کی گئی تھی،اس
کی موجود گی عراق میں درج کرائی گئی تھی،اس کے ذریعہ ایک یلغار ملک ِشام پر
کرائی گئی تھی، اور داعش کے پھیلاؤ کیلئے یعنی رسّی کو سانپ بنانے کیلئے
امریکی ذرائع ابلاغ سے اس خوب تشہیر بھی گئی،اس کا ایک خونخوار اور خطرناکی
چہرہ دنیا ئے عوام کے سامنے رکھا گیا،پھر داعش کو ختم کرنے کے نام پر
امریکی ہوائی بمباری کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن جہاں اس کی اصل موجودگی درج
کرائی گئی تھی،اس کے ٹھکانوں پر تو کوئی بمباری نہیں ہوئی بلکہ ملک ِ شام
پر زبردست بمباری کرا دی گئی،اس طرح ایک رعب ڈالاگیا، جس سے بشار الاسد کو
اقتدار چھوڑ نے پر مجبور کیا جاسکے،اور جس سے یہ بھی ظاہر کیا جاسکے، کہ
شام پر بمباری امریکہ نہیں بلکہ داعش کررہی ہے، امریکی مفادات کی تکمیل
کیلئے اسلامی حلیہ میں بنائی گئی داعش کی حکمت عملی جب امریکی مقصد کے حصول
میں بُری طرح ناکام ہوئی تو پھر سعودی حکومت کو جنگجو بننے پر مجبور کیا
گیا، اس سے اپنی پڑوسی پر حملہ کرادیاگیا، لیکن شام کے مسئلہ پر ٹالمٹول کا
عتاب (مزکورہ تازہ بیان سامنے آنے کے بعد)اب ایسا لگتا ہے، کہ دنیائے عالم
کے حجاج کرام کو بھگتنا پڑا ۔۔؟، امریکہ کی اسلامی حلیہ داعش اپنے کام میں
مصروف میں ہوگئی،حرم میں کرین اور منیٰ میں بھگدڑ سے سعودی حکومت کو مجبور
کیا کہ وہ بشار الاسدکو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اپنے مکمل تعاون دینے
کیلئے تیار ہوجائے،جس سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے، یہ حادثات بطور دھمکی کے
استعمال ہوئے،جس میں کوئی بھی سعودی باشندہ ان دونوں حادثوں کے چپیٹ میں
نہیں آیا؟ تو پھر کیا سعودی وزارتِ خارجہ کو کسی حادثہ کی پہلے سے کوئی
جانکاری تھی ؟ موصوف وزیر کے شام کے معاملہ پر لب کشائی کرنے سے بہت سارے
سولات کھڑے ہوگئے ہیں،ان کو لب کشائی کے بجائے حرم و منیٰ رونما سانحہ کی
زمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہئے تھا، رونما
حادثوں پرسے توجہ ہٹانے کیلئے اس طرح کا بیان کیوں دیا جارہا ہے ،
مقام حیرت کہ جب سعودی عرب میں ایک ریتیلا طوفان رونما ہوا، تو حرم کے آس
پا س تو دس سے زیادہ کرینیں کھڑی تھیں، تو طوفان سے ایک کرین ہی کیوں
گری،کیا وہ اس لئے گری کہ اس کوحرکت دی گئی تھی،جبکہ منیٰ میں تمام لوگ ایک
ہی لباس میں تھے، ان میں کچھ شرارت پسند بھی ہوں گے، جو بھگدڑ کی نیت سے
بھیجے گئے ہوں گے،اس لئے شام میں حکومت کون کرتا ہے کون نہیں، اس سے سعودی
حکومت کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے یہ وہاں کے عوام کا نجی معاملہ ہے،
سعودی وزیر خارجہ آخر امریکی دباؤ میں شام میں مداخلت کرنے کو کیوں تیار
ہوئے،
فی الوقت شام میں اسلامی حلیہ میں تیارکردہ مصنوعی ڈھانچہ داعش جس کو شام
کی بشار الاسدکو حکومت ختم کرنے کیلئے استعمال لایا جارہا ہے، ایسی طرح کا
مصنوئی ڈھانچہ اسلامی حلیہ میں القاعدہ و طالبان نام سے بھی تیار کیاگیا
تھامگر افغانستان پر ْقبضہ جمانے کے بعد اس کی اہمیت ختم سی گئی، بلکل اُسی
طرح نیا ڈھانچہ اسلامی حلیہ میں داعش کی شکل میں تیار کیا گیاہے، چونکہ اس
ڈھانچہ سے وہ کامیابی ہاتھ نہیں لگی، جس کی امید کی گئی تھی، تو بشار الاسد
کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی حکمت عملی تبدیل کری گئی ہے، اس مصنوئی ڈھانچہ
یعنی اسلامی حلیہ میں داعش کو ختم کرنے کیلئے روس نے بھی اپنی کمر کس لی ہے،
جس سے عالمی سطح پر ایک بوکھلاہٹ دیکھی جارہی ہے، ایسی لئے یہ جنگ سیاسی
مفاد کا حصہ بن کے رہ گئی ہے،یہ جنگ کو ن جیتے گا اور کون ہارے گا، یہ تو
بعد میں پتہ چلے گا، مگر اس ساز ش کا جو تازہ شکار ہوئے وہ دنیائے عوام کے
تقریبا ً ڈھائی ہزار کے قریب مقد س لوگ عازمین حج و حجاج کرام تھے جس میں
ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بنی اور ایک ہزار لوگ ابھی ابھی زخمی حالت میں میں
اورموت و زندگی کی کشمش مبتلا ہیں، حرم میں کرین حادثہ اور منیٰ میں بھگدڑ
کا سانحہ یقینا بین الااقوامی سازش کا نتیجہ ہی معلوم پڑتا ہے یا اس کے کچھ
اور بھی پہلو ہوسکتے ہیں۔۔۔۔! سعودی وزیر خارجہ کو دوسرے کے معاملات میں
مداخلت کرنے، دوسروں کا آلہ کار بننے کے بجائے فقط اپنے ملک میں رونما
واقعات پر ہی توجہ مرکوز کرنی چاہئے، پہلے اس بات پتہ لگا نا چاہئے کہ سو
سے زائد ملکوں کے ڈھائی ہزار مقدس لوگ کیو ں بین الااقومی سازش کا شکار بنے؟
ْ |