اس کی مسیحائی کا ہے رنگ جدا

خرابی کیسے پیدا ہوئی ؟کیسے اس خرابی کو دور کیا جا سکے گا،وقت کتنا لگے گا اور معاوضہ کتنا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو گھر میں ٹیلی وژن سیٹ، فریج یا کوئی اور چیر خراب ہونے پرہم مستری ( مکینک)سے پوچھتے ہیں۔جب ہمارے جسم میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو بھی یہ ساے سوال ضرور پید ا ہوتے ہیں مگر ہم یہ سوال کرسکتے ہیں اور نہ ان کا جواب ملتا ہے ۔ ہمارے ایسے سوالوں کو معالج اپنے علم اور مہارت پر حملہ تصور کرتا ہے۔ سوال نہ جواب ہمارے غمگسار اور راز دار کا معاملہ آسان کر دیتا ہے۔ معاملہ دولت کا ہے اور روپوں کی لالچ کا بھی ہے۔ اسی لالچ نے بے حسی کو جنم دیا ہے حتی کہ انہیں کسی کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ تکلیف کی وجہ دور کیے بغیر درد میں مبتلا لوگوں کو ان دنوں مسیحاوں سے بلا ضرورت بھی صرف دوائی ہی ملتی ہے ۔یہی وہ طریقہ ہے جو دوا ساز کمپنیوں اور مسیحاوں کی ہوس کا مداوا کرسکتا ہے ۔چار سال پہلے اسلام آباد میں ایک کار حادثے کے نتیجے میں میری اہلیہ کا کندھا بے کار ہوگیا تھا، اسلام آباد کے مہنگے ڈاکٹروں کی تسلی اور دوائی سے درد کم ہوا اور نہ تکلیف کی وجہ سامنے آسکی ، تکلیف زیادہ اور درد بڑھتاگیا، کوئی ایسا نہ تھا جو ہماری مشکل آسان کر دیتا۔ پھر یکدم حالات اس وقت بدلے جب کندھے کے ایک ماہر نے فروزن شولڈر کا آپریشن تجویز کیا۔ مسلہ یہ تھا کہ اس آپریشن کے لیے ضروری ساز و سا ما ن موجود تھا اور نہ آپریشن تھیٹر ، اس لیے کہ وہ ماہر سات سمندر پار گوروں کے علاج معالجے سے فرصت پاکر کچھ دنوں کے لیے پاکستان آیاتھا، میرے سمیت کسی کے لیے بھی وہ برطانیہ سے آپریشن تھیٹر ساتھ لانے سے قاصر تھا۔ عید آنے والی تھی، عید کے فورا بعد اس نے واپس جانا تھا، ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انصر ابدالی مجھے تسلی دیتے رہے کہ آپ کا کام ضرور ہوگا۔ ہماری مشکل آسان اس وقت ہوئی جب ان کے ایک دوست نے اس کام کے لیے اپنا آپریشن تھیٹر پیش کر دیا ۔عید سے ایک دن قبل میری اہلیہ کے فروزن شولڈر کا آپریشن ہوا، ایک ہفتے بعد دوائی کی ضرورت رہی اور نہ تسلی کی اس لیے کہ تکلیف باقی رہی اور نہ درد۔ سات سمندر پار جا کر ٹراما اور ارتھوپیڈک کے شعبے میں نام بنانے ہمارے اس غمگسار کا نام پروفیسر ڈاکٹر مقصود ابدالی ہے۔ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ جسم میں خرابی کیسے پیدا ہوئی ؟کیسے اس خرابی کو دور کیا جا سکے گا،وقت کتنا لگے گا ۔ایسے سوا لات کو ابدالی اپنے علم اور مہارت پر حملہ تصور نہیںکرتا ۔ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ مریض کا اعتماد بحال اور اس سے دوستانہ رویہ قا ئم کرکے جسم کی خرابی دور کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ ٹراما اینڈ آرتھوپیڈک سرجری کے ماہر ڈاکٹر مقصود ابدالی ایشیا کے وہ واحد کشمیری نژاد ہیں جنہوں نے آرتھوپیڈک اینڈ ٹراما کے میدان میں غیر معمولی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ابدالی جرمنی، فرانس، امریکا، فن لینڈ، اٹلی ، شام میں ڈاکٹرز کو آرتھوپیڈک سرجری پر لیکچر دیتے ہیں۔ ان کے کئی ریسرچ پیپر شائع ہوچکے ہیں۔ برطانوی لنکن یونیورسٹی کلینکل ڈائریکٹر آف سرجری ڈاکٹر پروفیسر محمد مقصود ابدالی ضلع کوٹلی میںکھوئی رٹہ کے گاں ابدالی کے رہنے والے ہیں۔ ابدالی کی کہانی بڑی دلچسپ اور پر اثر ہے ۔ ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری کے ساتھ ساتھ پانچ طلائی میڈل حیرت زدہ کرنے والی بات ہے ۔ اسی کی دھائی میں اس نوجوان نے حقیقتا ایم بی بی ایس کا میلہ لوٹ لیا تھا۔ اس نوجوان کو پشاور یونیورسٹی بھی وظیفہ پر باہر بجھوانے کے لیے تیار تھی لیکن آزاد کشمیر کے ایک سیاستدان کے سیاسی بیان نے رکاوٹ پید اکردی۔ 1985میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان ایوب میڈیکل کالج کی تقریب میں مہمان خصوصی تھے جب اس کشمیری نوجوان کی کامیابیوں کا ذکر ہوا تو سکندر حیات نے جذبات میں اعلان کر دیا کہ آزاد کشمیر حکومت اس ڈاکٹر کی بیرون ملک اعلی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے گی ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ابدالی نے آزاد کشمیر میں ملازمت اختیار کر لی۔ سکندر حیات کا وعدہ ایفا نہ ہوسکا مگر ابدالی اعلی تعلیم کے لیے چھٹی لے کر برطانیہ ضرور پہنچ گیا۔ برطانیہ میں ابدالی کی اعلی تعلیم ابھی جاری تھی کہ آزاد کشمیر حکومت نے ان کی ملازمت ختم کر دی ، اور یوں ہم ایک شاندار کیریر والے طبی ماہر کی خدمات سے محروم ہوگئے ، ڈاکٹر ابدالی جب بھی پاکستان آتے ہیں ان سے ملاقات کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آتی ہے ۔ اس دفعہ چائے کی میز پرمیں نے پوچھا، ڈاکٹر صاحب آپ کی ہڈیان جوڑنے اور سیدھی کرنے کی مہارت پر کیا صرف گوروں کا حق ہے؟ کہنے لگے کوئی شک نہیں طبی میدان میں میرا ایک بڑا نام ہے ، برطانیہ میں میرے اس نام کی وجہ سے مجھے جو مراعات حاصل ہیں وہ مجھے اپنے وطن میں حاصل نہیں ہو سکتیں تاہم میری ہمیشہ خواہش رہی ہے اپنے وطن میں اپنے لوگوں کے کام آوں، میری مہارت سے اپنے اپنے لوگوں کو فائدہ ہو۔ کئی بار آزاد کشمیر واپسی کی کوشش کی ، 1998 میں وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بلایا اور یہی مسلہ زیر بحث آیا مجھے سیکرٹری صحت کے پاس بھیجا گیا سیکرٹری صحت نے ڈائریکٹر جنرل صحت سے پوچھا ان ڈاکٹر صاحب کا کیا کریں؟ ڈی جی کا جواب تھا ہمیں اس ڈاکٹر کی ضرورت ہے نہ اس کے شعبہ ( ارتھو پیڈک ) کی ۔ ڈاکٹر ابدالی کو آزاد کشمیر واپس آکر اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع نہیں مل سکا تاہم سال میں تین سے چار ہفتے وہ اپنے لوگوں کو ضرور دیتے ہیں، ڈاکٹر صاحب ان کی اہلیہ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں ہر سال اپنے گھر گاں آتے ہیں۔ ان کے گاوں میں طبی کیمپ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب ضرورت مندوں کا علاج اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ ابدالی آزاد کشمیر میں میڈیکل کالجز کے قیام کو سراہتے ہیں ان کی تجویز ہے کہ ان اداروں کی بہتر کارکردگی اور مانیٹرنگ کے لیے ادارہ قائم کیا جائے، ان میڈیکل کالجز کے ذریعے بہترین ڈاکٹر تیار کرنے کیلئے تدریسی عمل بھی بہترین ہونا چاہیے۔ اگر تربیت کا عمل صرف آزادکشمیر کے اندر کے ڈاکٹرز پر ہی محدود رہا تو مستقبل کیلئے بہترین ڈاکٹر تیار نہیں ہونگے اس لیے کہ طبی میدان میں بڑے ڈاکٹرز کے تجربات ریسرچ سے استفادہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ عمل آزادکشمیر میں نہیں پاکستان میں اچھا ہے۔ آزادکشمیر میں میڈیکل کالجز کے قیام کے بعد پاکستان کے میڈیکل کالجز میں کشمیری طلبا کیلئے مختص نشستیں ختم نہیں ہونی چاہئیں اگر ایسا ہوگیاتو یہ خطرناک عمل ہوگا اس لئے کہ ہمارے ڈاکٹر پاکستان کے ماہر ڈاکٹروں کے تجربے اور مہارت سے استفادہ کرنے سے محروم ہوجائینگے۔ ڈاکٹر پروفیسر محمد مقصود ابدالی نے جدید سافٹ ویر کی مدد سے سرجری کے زریعے گھٹنے اور ٹخنے کا کامیاب طریقہ علاج دریافت کیا تھا ان کے نئے طریقہ علاج سے کوئی بھی مریض آپریشن کے چند گھنٹوں بعد چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ انسانی خون انسان کی کئی بیماریوں کی بہترین دوا ہے بالخصوص پٹھوںکے بعض امراض میں انسان کا اپنا خون شفا دیتا ہے ۔ انسان کے اپنے خون کے اندر کئی ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جو اس قسم کی بیماریوں میں مدافعت کا عمل پیدا کرتے ہیں۔ گھٹنے اور ٹخنے کے طریقہ علاج کے لیے میرے ذہن میں یہ خیال ضرور رتھا کہ نئے سرجن کے لیے تربیت کا ایسا بندوبست ہونا چاہیے کہ وہ مریض کو تختہ مشق بنانے کے بجائے پہلے ہی تربیت یافتہ ہوں۔میں نے حال ہی میں نوجوان سرجنز کے لیے ٹریننگ پروگرام فار سرجنز کے نام سے ایک ایسا سافٹ ویئر تیا رکیا ہے جو مریضوں کو قدرے کم تکلیف دئیے بغیر آپریشن میں مدد دیتا ہے ۔ ڈاکٹر ابدالی نے مجھے بھی خبر دار کیا کہ سیگریٹ نوشی کرنے والے لوگوں کے جوڑ دوسرے لوگوں کی نسبت تندرست ہوتے ہوئے زیادہ دیر لگاتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی سے انسانی خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اس لیے اپنے ہی خلیوں کو نقصان پہنچانا عقل مندی نہیں ہے-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55979 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More