وزیر اعظم پاکستان میاں نواز
شریف نے اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران بھارت کو دیئے گئے چارنکاتی امن
فارمولے میں کشمیر اور سیاچن سے بھارتی افواج کے انخلاء کا بروقت اور برحق
مطالبہ کیا ہے کیونکہ کشمیر جہاں آج تک کئی انسانی المیے جنم لے چکے ہیں
بھارتی فوج کے ظلم و ستم کے تناظر میں کشمیر ایک انسانی اور سیاچن فوجی
نہیں بلکہ موسمیاتی مسئلہ بھی ہے۔
سیاچن کو عام طور پر ایک فوجی مسئلے اور تنازع کے طور پر ابھارا گیا ہے
لیکن سچ تو یہ ہے کہ سیاچن ایک بہت بڑا موسیمیاتی مسئلہ بھی ہے جو کہ عالمی
برادری کے لئے گہری تشویش کا باعث ہے۔ کیونکہ گلیشیئرسردیوں میں پانی کے
ذخیرے کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ میدانی علاقوں میں گرمیوں میں پانی کی
دستیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز انڈیا، پاکستان، چین اور
نیپال کے لئے پانی کا ایک بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ ورلڈ وائیڈ لائف فنڈ
(WWF) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے گلیشیئر کا 67 فیصد خطرناک حد تک پگھل
رہے ہیں۔ ڈاکٹر کیٹرینا Dr Catarina(ہیڈ آف ڈبلیو ڈبلیو ایف۔ یو کے کلائمیٹ
چینج پروگرام) کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں ہمالین گلیشیئر کے پگھلاؤ سے
دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ سیلاب کا باعث بنے گا جبکہ بعد میں انہی
دریاؤں میں خشک سالی دیکھنے میں آئے گی جس کے نتیجے میں برصغیر کے ممالک
اور چین میں حقیقی معنوں میں اقتصادی نقصان سامنے آئے گا۔ کیونکہ یہاں
توانائی کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہائیڈرو بجلی پر ہے۔ سیاچن گلیشیئر کے
ایک ہوائی جائزے پر مبنی ایک رپورٹ ’’گارڈین اخبار‘‘ شائع کرچکا ہے۔ 25
جنوری 2010ء کو دی ورلڈ گلیشیئر مانیٹرنگ سروسز(WGMS) کی رپورٹ کے مطابق
دنیا بھر میں گلیشیئر اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس صدی کے
وسط تک یہ گلیشیئر غائب ہو جائیں۔
المیہ یہ ہے کہ صنعتی ممالک کی طرف سے موسمیاتی تغیریاتی سائنس کو بین
الاقوامی طور پر سیاست کی نظر کردیا گیا ہے کیونکہ صنعتی ممالک اپنی صنعتی
ترقی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی انسانوں کے
پیدا کردہ مسائل اور قدرتی آفات کا سامنا سیلاب کے دوران دیکھنے میں آ چکا
ہے۔ سیاچن پر بھارتی افواج کی سرگرمیاں پگھلاؤ کے عمل میں اضافے کا سبب بن
رہی ہیں جس سے انڈس بیسن میں پانی کا بہاؤ متاثر ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں
بلکہ موسمیاتی پیٹرن متاثر ہونے سے 2010-11ء میں پاکستان کو سیلاب کا بھی
سامنا کرنا پڑا۔ گلیشیئر کا پگھلاؤ اور اس کے پانی کے بہاؤ پر اثرات سے پاک
بھارت آبی تنازعات مزید پیچیدہ ہو جائینگے۔
انڈین فور انجینئرنگ کور کی طرف سے سیاچن میں کی جانے والی ہزاروں میٹر
گہری کھدائی سے پاکستان کے لئے پانی کے بھاری ذخائر تیزی سے ختم ہونے کے
خطرات پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ جیوتھرمل توانائی کیلئے سیاچن پر
بھارتی فوجی ڈرلنگ نہ صرف انٹارکٹک ٹریٹی 1959ء، میڈرڈ پروٹوکول اور ریو
کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ تنازع سیاچن کے حل میں بھی بھارتی فوج سب
سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 11 اور 12 جون کو دفاعی سیکرٹریوں کے درمیان سیاچن کو غیر
متنازع علاقہ بنانے کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات بھی ناکام رہی۔ دونوں
ممالک کی فوجی سرگرمیوں سے سیاچن کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ماضی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھارت کے ساتھ تمام مسائل کو پُرامن
طریقے سے حل کرنے اور سیاچن کو ’’غیر فوجی علاقہ‘‘ قرار دینے کی تجویز پیش
کی تھی لیکن جنرل کیانی کی تجویز کا نئی دہلی کی طرف سے کچھ زیادہ گرمجوشی
سے جواب نہیں دیا گیاتھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے کہا
تھا کہ بھارتی فوج کی سیاچن میں موجود پوزیشنوں سے انخلاء کے بارے میں سوال
قبل از وقت ہے اور اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے مطابق
جنرل کیانی کی طرف سے پُرامن حل کی تجویز کوئی نئی بات نہیں تھی اور اس کے
ساتھ جنرل سنگھ نے سیاچن سے بھارتی فوج کے انخلاء کو مسترد کردیا۔ سابق
بھارتی وزیر دفاع انتھونی کے مطابق ’’ایک ایسا مسئلہ جو ہمارے سلامتی کے
لئے بہت اہم ہے اس پر کسی بھی ڈرامائی اعلان یا فیصلے کی توقع نہیں کی جانی
چاہئے‘‘۔ اس سے ایک دن پہلے سکیورٹی پر بھارتی کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس میں یہ
فیصلہ کیا گیا جو بعد میں اخبارات کو بھیجا گیا کہ نئی دہلی سیاچن میں اپنی
فوجوں کی پوزیشن کو تبدیل نہیں کریگا۔
سیاچن پر قابض بھارت کا موقف غلط اور فوجی سرگرمیاں ماحول دشمن ہیں۔پاک فوج
کے ٹو اور چین سے پاکستان کو کاٹ دینے کے بھارتی منصوبے کو ناکام بنائے
ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی فوج نے 1983ء سے سیاچن میں پہلے ہی
ایک ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ 120 کلو میٹر لمبے
سالٹرو رینج کی طرف پیش قدمی کرچکا ہے اور بالترو رینج کی طرف مزید پیش
قدمی کرکے کے ٹو اور چین سے پاکستان کو کاٹ دینا چاہتا ہے۔ 29 سال سے
پاکستانی فوج سیاچن میں بھارتی فوجی پیشقدمی اور عزائم کیخلاف سینہ سپر ہے۔
جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ سیاچن میں کیا رکھا ہے؟ ان کے لئے یہی کافی
ہے کہ سیاچن پاکستان کے لئے سب سے بڑا پانی کا منبع اور واٹر بنک ہے۔ اپریل
1984ء میں بھارت کی طرف سے ’’میگھ دوت‘‘ نامی فضائی آپریشن کے ذریعے اہم
چوٹیوں اور پھر سالترو رینج کے ساتھ زمین سے بلند تقریباً تمام مقامات پر
قبضے سے قبل تک 70کلومیٹر طویل سیاچن کے بارے میں یہ تصور بھی محال تھا کہ
انسانی رسائی سے دور یہ گلیشیر دنیا کا ایسا بلند محاذ جنگ بن جائیگا جہاں
دو ملکوں کی فوجیں برس ہا برس سے ایک دوسرے کے مقابل موجود ہیں۔ شاید اسی
لئے 1948ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کئے گئے
معاہدے کشمیر کے جنوب مشرق کے ان علاقوں میں کسی سرحدی پٹی کا تعین یا
حدبندی نہیں کرتے۔ جولائی 1949ء میں کئے گئے کراچی معاہدے میں ایک جنگ بندی
لائن تشکیل دی گئی تھی جو 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد معمولی تبدیلیوں سے
لائن آف کنٹرول بن گئی۔ یہ پٹی سیاچن گلیشیئر کے جنوب میں گرڈ ریفرنس
NJ9842 سے موسوم مقام تک گئی۔ اس سے آگے کے علاقے کی حدبندی اس لئے
غیرضروری سمجھی گئی کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ علاقے کی بدلتی
ہوئی جنگی حکمت عملی اور تزویراتی کیفیت اسے متنازع بنا دیگی۔ اسی لئے دنیا
بھر میں چھپنے والے نقشوں میں اسے پاکستان کا علاقہ قرار دئیے جانے اور کوہ
پیماؤں کو سیاچن کے ویزے اسلام آباد سے جاری ہونے پر بھارت سمیت کسی کو بھی
اعتراض نہیں ہوا۔ تاہم 1983ء میں گلیشیر کی چوٹیوں پر بھارتی قبضے اور
بعدازاں اس کی پیش قدمی روکنے کے پاکستانی فوجی اقدامات کے بعد تنازع کے
سفارتی حل کی کوششیں کی گئیں۔ سیاچن سے یکطرفہ انخلاء سے پاکستان ہزاروں
کلو میٹر سرزمین سے محروم ہو جائیگا جبکہ یکطرفہ طور پر انخلاء بھارتی فوجی
قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔28 سال پرانے تنازع پر پاک
بھارت مذاکرات کے 13 دور ہو چکے ہیں۔ حالیہ مذاکرات بھی مئی 2011ء میں ہونے
والے مذاکرات کی طرح بے نتیجہ رہے ہیں۔ یہ مذاکرات اپنے منطقی انجام کو
پہنچ چکے ہوتے بشرطیکہ بھارت 1992ء میں ’’فوجوں کی ازسرنو تعیناتی‘‘ کے
معاہدے سے پھرتے ہوئے موجودہ پوزیشنوں کی کلی تصدیق پر اصرار نہ کرتا جس کا
مقصد بھارت کے عمل کو قانونی جواز دینا اور NJ9842 سے آگے کے علاقے میں
حدبندی کا موقع حاصل کرنا ہے۔پاکستان کی طرف سے بھارت کو دیئے جانے والے ان
نان پیپر کے تحت اسلام آباد چاہتا تھا کہ دونوں ممالک سیاچن کے مسئلہ پر
1989ء میں ہونے والے معاہدہ پر کاربند رہیں جس میں تنازع علاقے سے باہر
فوجوں کی تعیناتی، نگرانی اور فوجی ماہرین سے تصدیق کے طریقہ کار کو متعین
کرنے کا اصولی اعادہ کیا گیا تھا اور NG9842 کے بعد لائن آف کنٹرول کی حدود
کا تعین شامل تھا۔ |