کشمیر تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ
ہے اور اگر اس کو اس موقع پر وضع کئے جانے والے فارمولے کے تحت کشمیریوں کو
اپنی اکثریتی مسلمان آبادی کے فیصلے کے مطابق آزادانہ طور پر پاکستان کے
ساتھ الحاق کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہو چکا ہوتا
لیکن بھارت نے نہ صرف اس فارمولے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بالجبر
وادی جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا بلکہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ
کی قراردادوں کو بھی طاق نسیاں پر رکھ دیا جس کے بعد کشمیریوں نے مجبور ہو
کر بھارتی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جس
میں مسلح تصادم کے ادوار بھی آئے اور پرامن آزادی کی کوششوں کو بھی تیز تر
کرنے کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔
بہرحال کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو
حق خودارادیت دے کر حل کرلیا جاتا تو اس میں نئی دہلی اور اسلام آباد میں
سے کسی ایک کی بھی جیت یا دوسرے کی ہار کا پہلو قطعاً نہ نکلتا۔ صرف امن و
آشتی کے نظریات فتحیاب ہوتے اور ایک کروڑ سے زیادہ زندہ انسانوں کو ان کی
مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا وہ حق ملتا جو پچھلے برسوں کے دوران مشرقی
تیمور اور جنوبی سوڈان کے باشندوں کومل چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر ہی وہ گتھی ہے
جس کے سلجھنے کے ساتھ اس سے جڑے ہوئے دوسرے تنازعات کی گرہیں بھی کھل جاتیں۔
اسلام آباد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نئی دہلی کی طرح مسئلہ کشمیر
کا ایک فریق ہے اور کشمیری عوام وہ متاثرہ فریق ہیں جن کا حق خود ارادیت ہی
مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہے۔ نئی دہلی مذاکرات کے بعد اس مسئلے کے حوالے سے
دونوں ممالک کے درمیان اس اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ ’’اختلافات کم
کرکے اس کا پرامن حل نکالا جائے گا‘‘۔ یہ انداز بیان اپنے حوصلہ افزاء لب و
لہجے کے باوجود ماضی کے ایسے سوچے سمجھے اعلانات سے زیادہ مختلف نہیں ہے جن
سے کوئی واضح اور متعین مطلب ا خذ نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت
جاری رکھنے پر اتفاق ایسی بات ہے جس کے سوا فی الوقت کوئی چارہ نظر نہیں
آتا۔ مگر ایسا تاثر بہرحال نہیں دیا جانا چاہئے کہ محض مذاکرات جاری رکھ کر
اسلام آباد پر احسان کیا جارہا ہے جبکہ ہمارے ارباب اقتدار نامعلوم وجوہ سے
ناتجربہ کار اور کمزور لوگوں کو سامنے رکھ کر ایسی باتوں کو کامیابی قرار
دینے کی کوشش کررہے ہیں جن کے مفہوم پر غور کیا جائے تو گھوڑے کے آگے گاڑی
باندھنے والے محاورے کے سوا کچھ پلے نہیں پڑتا۔ واضح رہے کہ کشمیر، دریائی
پانی، وولر بیراج، تلبل نیوی گیشن پروجیکٹ اور سرکریک جیسے تنازعات خود
بھارت کے پیدا کردہ ہیں۔ سیاچن کا مسئلہ 1984ء میں اس گلیشیئر پر بھارتی
فوج کے قبضے سے پیدا ہوا۔ ان میں سے کسی بھی معاملے پر مذاکرات اگر اب تک
نتیجہ خیز نہیں ہوسکے تو اس کی ایک بڑی وجہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنے
کی وہ بھارتی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے لوگوں کے جذبات ٹھنڈے پڑنے اور
عالمی برادری کی دلچسپی کم ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ 1962ء میں چین سے
کشیدگی کے باعث بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا جو ڈول ڈالا تھا وہ اس کی
بہترین مثال ہیں۔ نئی دہلی کی طرف سے بات چیت کو طول دیا جاتا رہا اور جب
مشکل وقت ٹل گیا تو مذاکرات کو بھی روک دیا گیا۔
پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات کا ایک اور دور جنوبی ایشیا کو ایٹمی فلیش
پوائنٹ بنانے والے کشمیر کے مسئلے اور سیاچن، وولر، تلبل، سرکریک جیسے
تنازعات پر کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہوگیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نئی
دہلی اور اسلام آباد کے درمیان خوشگوار تعلقات کا قیام جنوبی ایشیا کے
باشندوں کو امن و آشتی کی فضا میں ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے
کی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے برصغیر کی آزادی کے وقت سے
دونوں ملکوں میں مذاکرات کے ڈول ڈالے جاتے رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ اس نوع کی کوششیں نئی دہلی کی پالیسیوں کے باعث اس طور پر آگے نہیں
بڑھیں جو علاقے کے امن و استحکام کا تقاضا تھا۔ بھارتی قیادتوں کو جب بھی
داخلی مسائل کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے پاکستانی سرحدوں پر فوجی اجتماع کا
نسخہ استعمال کرکے مشکل سے نکلنے کا آسان راستہ استعمال کیا لیکن اس کے
باعث برصغیر کے حل طلب مسائل نہ صرف پیچیدہ ہوتے چلے گئے بلکہ خطے کے لوگوں
کو کئی جنگوں اور ان کے خوفناک اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری جانب پاک
بھارت مذاکرات کی کوئی صورت پیدا ہوئی بھی تو وہ کسی نہ کسی واقعے یا حادثے
کے باعث بار بار معطل ہوتے رہے اور ایسے مواقع بھی آئے جب صورتحال تبدیل ہو
جانے کے عذر کے ساتھ امن کوششیں سردخانے کی نذر کر دی گئیں۔
|