نظریہ اور جغرافیہ رکھنے والے لوگ اور قو
میں اپنے نظریہ و جغرافیہ کی حدود و قیود کے تعین کے لیے ایک پر چم بھی ضرو
ر تشکیل دیتے ہیں کہ دیکھنے والے اس پر چم کو دیکھ کرا ن حدود و قیود اور
نضم و ضبط کا اندازہ کرسکیں ،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے جب
دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا تو انہوں نے بھی تاریخ اور
تہذیب کے عین مطابق اس نظریاتی مملکت کا ایک پرچم تشکیل دیا تھا یہ پرچم
آفاقی نظریہ پاکستان کے عین مطابق خود بھی آفاقی ہے کہ چاند ستارہ ، سبزہ
اور سفیدی ۔ نظریاتی مملکت پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر نصب اس سبز
ہلالی پرچم کی شان اور بھی نرالی ہو جاتی ہے کہ سرحدوں کے دوسرے کنارے سے
آگے کوئی غیر علاقہ ہوتا ہے اور سرحد کے اندر کی جانب اسلام کے ماننے والوں
کی اپنی حکومت ہے۔ اس سبز ہلالی پرچم کے علمبردار پاک فوج کے جوان پر چم
کشائی پریڈ بھی کرتے ہیں اور اس عظیم پرچم کو سلامی بھی دیتے ہیں لاہور شہر
کے ساتھ واہگہ بارڈر پر بھی عظیم سبز ہلالی پر چم نصب ہے گزشتہ دنوں اس جگہ
پرچم کشائی کی تقریب تھی جس میں پنجا ب رینجرز کے جوانوں نے پریڈ بھی کرنی
تھی اور ہر موقع کی طرح لاہور شہر اور گردو نواح سے ہزاروں شہری خواتین ،
بچے اور بزرگ سبھی واہگہ بارڈر پر جمع تھے دوسری جانب ملک دشمن دہشت گردوں
کا ایک شیطانی رکن20 سالہ خود کش حملہ آور بھی اس تقریب کے موقع پر محب وطن
معصوم شہریوں پر حملہ کے لیے تقریب کے عین وسط میں جانے کی کوشش کر رہا تھا
پاک فوج کے جوانوں اور انتظامیہ کی فول پروف سیکیورٹی کی بناء پر اس موذی
کو تقریب کے اندر جاکر اپنی مذموم کا رروائی کا موقع نہ مل سکا تو اس نے
معصوم شہریوں کی تقریب سے واپسی کا انتظار کیا اور جب تقریب کی حدود سے
باہر آنے والے راستے پر شہریوں کی بڑی تعداد اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے
کے لیے موجود تھی تو اس خو دکش حملہ آور نے خود کو شہریوں کے عین درمیان
میں آکر بم سے اڑا لیا چیخ و پکار ، افرا تفری اور بھگڈر کے وہ تمام مناظر
دیکھے گئے جو ایسے موقع پر رونما ہوتے ہیں اور خون کی ایک لمبی لکیر واہگہ
بارڈر کے ساتھ ساتھ استوار ہوگئی یہ معصوم شہریوں کے خون کی لکیر تھی،
اسلام اور کفر کے مابین امتیاز پر اعتماد رکھنے والوں کے خون کی لکیر تھی ،اور
یہ پاکستان پر فخر کرنے والے اور عام شہریوں کے خون کی لکیر تھی۔ پچھلے کئی
مہینوں سے سیالکوٹ بارڈر کے ساتھ ساتھ نارووال سیکٹر پر بھی معصوم
پاکستانیوں کے خون کی لکیر گاہے بگاہے استوار ہورہی ہے جہاں پر سرحد کے اس
پار سے بلااشتعال فائرنگ ہوتی ہے اور ان علاقوں کے سرحدی قصبات و دیہات کے
معصوم شہری ، کسان مرد ، بچے خواتین اور بزرگ شہید ہوتے ہیں ۔جارحیت پسند
پڑوسی نامعلوم مقاصد و وجوہ کی بنا ء پر پاک بھارت سرحد پر خون ریزی کررہا
ہے امن پسند اسلام کے پیرو کار امن پسندپاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی
سرحدوں پر خون کی یہ لکیریں کھینچنے والے صرف پاکستان ہی نہیں خطہ کے امن
پر حملہ آور ہورہے ہیں مگر پاکستان اپنے نظریاتی امن پسند ی کے مشن پر
گامزن ہے کہ جان دینا جان لینے سے بد رجہا بہتر ہے حالانکہ پاک فوج امن
دشمن بھارت کو کئی سو بار شکست دینے کی عسکری صلاحیت اور ملی جذبہ رکھتی ہے۔
مئی1998 ء میں بھی پاکستان پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی جب جارحیت
پسند بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے ایسے دعوے کرنے شروع کردیئے تھے کہ جیسے
وہ پاکستان سے بہت زیادہ طاقتور ہوگیا ہے اور وہ نعوذ باﷲ پاکستا ن کو تر
نوالے کی طرح ہڑپ کرجائے گا لیکن قوم نے ساتھ دیا اور میاں نواز شریف نے
ایٹمی دھماکے کر کے ثابت کردیا کہ امن کی ضمانت کے طور پر ہم ایسے ہتھیار
سے بھی لیس ہیں جو اسے صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے پھر بھارت جیسا مکار اور
بزدل دشمن خاموش ہوگیا اب بھی ارض وطن پر میاں نواز شریف کی حکومت ہے بھارت
کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اس محب وطن قیادت میں پاکستانی قوم
کوئی بھی بڑا اوردلیرانہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی ۔ایک بڑا قدم تو
موجودہ حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بے مثال عسکر ی قیادت میں
شمالی وزیرستان میں اٹھایا اور وہاں موجود دہشت گردوں کے بڑے بڑے نیٹ ورک
تباہ کردیئے ہیں اور ڈھو نڈ ھ ڈھونڈ ھ کر دہشت گرد مارے جارہے ہیں انشاء اﷲ
یہ آپریشن دہشت گرد وں کے ملک سے مکمل صفایا تک جاری رہے گا کیونکہ موجودہ
حکومت اور فوج دہشت گردوں کے ملک سے مکمل صفایا تک آپریشن ضرب عضب جاری
رکھنے کاعزم صمیم رکھتے ہیں اور دہشت گردوں کی کسی بھی جوابی کارروائی کا
مقابلہ حوصلہ ، ہمت اور طاقت سے کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی قوم
بھی پاک فوج کے اس اقدام کی حامی اور معاون ہے اس لئے واہگہ بارڈر پریڈ
جیسی بزدلانہ دہشت گردانہ کارروائی سے نہ تو فوج اور حکومت کے حوصلے پست
ہوئے تھے اور نہ پاکستانی قوم کے جذبہ حب الو طنی میں کسی بھی کمی کا تصور
کیاجاسکتا ہے جس کا مظاہرہ زندہ دلان لاہونے سانحہ کے اگلے ہی روز بھر پور
شرکت کرکے کیا بھی تھا۔جہاں تک ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کا تعلق ہے تو
یہ حقیقیت ہیں کہ خود کش حملہ آور وں کو اس صورت میں پکڑ نا انتہائی مشکل
ہوتا ہے جب وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر معصوم لوگوں کی جان لینے کے نا
پاک ارادہ کے لیے نکلتے ہیں لیکن جب پیشگی اطلاع مل جائے تو ا س کے بعد
سکیورٹی لیپس کا کوئی جواز تک نہیں بنتا ۔اب جبکہ ملک و قو م اور موجودہ
حکومت کا مقابلہ انتہائی مکار ، مسلح اور منظم دہشت گر دوں سے ہے تو قوم کے
ہر فرد کو چوکس ، چوکنا اور مستعد رہنا چاہیے سکیورٹی ا داروں کو اپنی پیشہ
وارانہ مہارت کا مکمل طورپر مظاہر ہ کرنا ہوگا اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں
کیونکہ ایک طرف تو ایسی غلطیو ں سے قیمتی جانوں کا ضیا ع ہوتا ہے اور دوسرا
یہ کہ بد بخت دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں مو جودہ حالا ت میں ہمیں
موذی دہشت گردوں کے حوصلے پست کرنے چاہیں۔ہماری عسکری قیادت بھی الحمد ﷲ
پختہ عزم سے آگے بھڑتی جاری ہی ہے اور پاکستان میں تاریخی فیصلے کیئے جا
رہے ہیں بلا شبہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس وقت حکومت اور عسکری قیادت
میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور انکی حکومت کے ذمہ
داران بھی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالی ملک و قوم کو بد بخت وطن
دشمنوں کے شر سے محفو ظ رکھے ۔ |