قارئین آج کل بجلی کی لوڈ شیڈنگ
اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس نے عوام کو باقی مسائل اور آلام و مصائب سے فراموش
کر دیا ہے۔ پچھلے سال شدید گرمیوں میں بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگا واٹ
تک گیا تھا لیکن اس سال ابھی اتنی گرمی شروع بھی نہیں ہوئی کہ یہ شارٹ فال
پانچ ہزار میگا واٹ تک پہنچ بھی چکا ہے۔ حکومت لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں
ناکام ہو چکی ہے، اس کی توجہ بجلی کی کمی پوری کرنے کی طرف نہیں بلکہ بجلی
کی قیمت بڑھانے کی طرف رہتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی تاریخ اور وجوہات کچھ اس طرح
سے ہے۔
جن ملکوں کی حکومتیں عوام کے مسائل کو سمجھتی ہیں وہ آنے والے ممکنہ
بحرانوں کا علاج پہلے ہی ڈھونڈ لیتی ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے حکمرانوں
کی پانی سر سے گزرنے کے بعد آنکھیں کھلا کرتی تھیں اور وہ بھاگ دوڑ کر کے
اس بحران پر قابو پانے کا کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیتے تھے۔ لیکن موجودہ
حکمرانوں کی آنکھیں تو پانی سر سے گزرنے کے بعد بھی نہیں کھلتیں، اور بڑی
ڈھٹائی کے ساتھ ایک تو لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے مسلسل جھوٹے وعدے کرتے جاتے
ہیں اور دوسرا وہ کنٹرول تو در کنار اسے کم کرنے کی بھی کوئی ٹھوس منصوبہ
بندی نہیں کر رہے۔ لوڈ شیڈنگ کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا تھا۔
اسے حسن اتفاق کہیں یا بد نیتی کہ پیپلز پارٹی کے ہر دور حکومت میں اس
بحران نے سر اٹھایا، جس کو ختم کرنے کے لئے آج کے علاوہ ہر دور میں کوششیں
بھی کی گئیں لیکن ان کوششوں اور طریقوں سے حکام نے تو خوب کمائی کی مگر
عوام کے لئے بجلی تسلسل کے ساتھ مہنگی کی جاتی رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق
پاکستان میں 40فیصد لوگوں کو بجلی میسر ہے، جب کہ ہر سال اس کی طلب میں
8فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے دو سال پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اگر
ہمیں لوڈشیڈنگ سے بچنا ہے تو2018تک6ہزار میگا واٹ سے زائد اضافی بجلی پیدا
کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن 5000میگا واٹ کے موجودہ شارٹ فال سے لگتا ہے کہ
ہمیں اس سے کہیں زیادہ اضافی بجلی کی ضرورت ہوگی۔چ ند سال پیچھے کی طرف
جائیں تو 2004 میں بجلی کی پیدوار 80.2 ملین کلو واٹ آور اور اس کی
کنزیومنگ 76.4ملین کلو واٹ آور تھی۔ لیکن اب اس کی کنزیومنگ میں 30 سے 40
فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ لوڈ شیڈنگ بے قابو ہوتی
جا رہی ہے۔ پھر طلب و رسد کے مطابق منصوبہ بندی کا فقدان ہے، ناقص
انفراسٹرکچر کی وجہ سے بجلی 30 فیصد سے زائد ضائع ہو رہی ہے اور رہی سہی
کسر بجلی کی چوری سے نکل جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر محکمہ بجلی کی کرپشن ہے جو
اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دنیا بھر میں مصر کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔
حکومتوں کی نا معقول پالیسیاں بھی آج کی لوڈ شیڈنگ کا بڑا سبب ہیں۔ بے نظیر
بھٹو کے پہلے اور دوسرے دور میں نظریہ ضرورت کے تحت غیر ملکی بجلی پیدا
کرنے والی کمپنیوں کو دعوت دی گئی، اور 15آئی پی پیز کام کر رہی تھیں۔ لیکن
یہ بھی یاد کرنے کی بات ہے کہ ان کمپنیوں کو بھاری کمیشن کے عوض بجلی کے
پیداواری لائسنس جاری کئے گئے تھے، جس کی کسر انہوں نے اپنی من مرضی کی
قیمت وصول کر کے نکالی۔ متعلقہ فریقوں کے باہمی تنازعات کی وجہ سے ملک کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اور سارا خمیازہ بیچاری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ان آئی پی پیز میں سے ایک کمپنی حبکو نے 1997ء میں پیدوار شروع کی تو اس
سیکٹر پر نجی شعبہ کی اجارہ داری کا آغاز ہوگیا۔ حکومت معاہدوں کے بعد
کمیشن کے الزامات چھپانے کی کوشش میں مسلسل خاموش رہی اور یہ نجی کمپنیاں
معاہدوں کے برعکس اپنی ہی پالیسیاں نافذ کر کے حکومت کو بلیک میل کرنے کے
ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے لیے ایک ایسا بوجھ بنتی رہیں جن سے نجات حاصل
کرنا مشکل ہوتا گیا۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں لوڈ شیڈنگ کے آج کے یہی خوف ناک دن
دیکھنا پڑے۔ |