ترکی کے بورڈو ساحل پر ایک تین
سالہ بچے کی لاش ملی –اس نے سرخ رنگ کی ٹی شرٹ اور نیلی نکر پہنی ہوئی تھی
–ساحل کی ریت پر اوندھے منہ پڑے اس ننھے منھے بچے کا نام ایلان کردی تھا –جس
نے سوشل میڈیا پر سونامی برپا کردی –یہ بچہ اور اس کا خاندان ان لاکھوں
افراد میں شامل تھے –جو جان بچانے کی خاطر جنگ زدہ شام سےیورپی ممالک کی
طرف پہنچنے کی کوشش کے دوران سمندر میں ڈوب گئے تھے –ترکی کی ایک نیوز
ایجنسی نےننھے منھے ایلان کردی کی تصویر جاری کردی - اس منظر نے سوشل میڈیا
پر ہلچل پیدا کی –یہ تصویر جلد ہی الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہونا شروع ہوئی
اس منظر نے دنیا میں کہرام بپا کیا –ٹویٹر پراس تصویر کے بارے میں ٹرینڈ
کرنے والے بہت سے ہیش ٹیگز میں سے سب سے زیادہ معروف ہیش ٹیگ " انسانیت
ساحل پر بہہ گئی " اس ہیش ٹیگ کو صرف چھتیس گھنٹوں کے اندر تقریبا آدھے
ملین بار استعمال کیا گیا –اس نھنے بچے کی موت نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا -
خاموش تماشائی دنیا کا ذہن بدل گیا –یورپ اور امریکا کی عوام شامی پناہ
گزینوں کے حق میں اٹھ کھڑے ہوگئے –ان کی حمایت میں جگہ جگہ مظاہرے کیئے
جانے لگے –سیمناروں کا انعقاد کیا جانے لگا –اخبارات کے اداریئے اور مضامین
شامی پناہ گزینوں کی وکالت میں آگے آگئے – ٹی – ٹاک شوز میں صرف اسی ایک
موضوع بارے بات کی جانے لگی- رضاکاران سڑکوں پر نکل گئے –بستر کمبل ،کپڑے ،جوتے
،کھانے پینے کا سامان اور دوسری اشیا ضرورت کی وافر مقدار جمع کردئے گئے –برطانیہ
کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے فوری طور پر ایک سو ملین پاؤنڈ کی اضافی رقم
مہاجرین کیلئے واگزار کئے –صرف لندن شہر میں جمع کردہ عطیات تقریبا ایک
بلین پاؤنڈ تک پہنچ گئی –انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے ہنگامی بنیادوں پر دو
ملین یورو کے فنڈ کا اعلان کیا –بحیرہ روم کے ساحل پر واقع مالٹا میں ایک
امدادی تنظیم کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا –کہ تین سالہ
نھنے فرشتے ایلان کردی کی لاش کی تصویر نے پورے یورپ کے سیاسی لیڈروں سے
لیکر عوام تک – سب کے جذبات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا –انہونے تقریبا پانچ
ملین پاؤنڈ جمع کئے –یورپی ممالک میں اس حوالے سے شدید اختلافات کے باوجود
عملی اقدام شروع کئےگئے –سویا ہوا مشرق وسطیٰ بھی جاگ گیا –لبنان میں بارہ
لاکھ مہاجرین کو پناہ دی گئی –اردن نے بھی چودہ لاکھ مہاجرین کو قبول کیا –سعودی
عرب نے تقریبا دو میلن مہاجرین کو اپنے ہاں رکھا –نھنے اعلان کردی کے والد
کو بہت سے یورپی ممالک نے نا صرف پناہ بلکہ شہریت کی بھی پیشکش کی –جو اس
نے خودداری کے ساتھ مسترد کی اور کرنی بھی چایئے تھی –ترکی بورڈن ساحل پر
نھنے ایلان کردی اور وفات پاگئے دوسرے مہاجرین کی یاد میں ایک یادگار تعمیر
کی گئی –یہ حادثہ ستمبر کی دو تاریخ کو پیش آیا- یعنی آج سے سے کم و بیش
تین ہفتے قبل – اور آج تین ہفتوں کے بعد بھولی اور سلگھتی جنت میں ایک
بیانک حادثہ پیش آیا – خاک اور خون کی ہولی قصبہ سوپور کے سگی پورا گاؤں
میں کھیلی گئی نھنے برہان نے اپنے ابو بشیر احمد بھٹ سے چاکلیٹ کھانے کی ضد
کی–اس نے بچے کو گود میں لیکر پاس میں ہی واقع دکان کا رخ کیا –اس کے وہم
گمان میں بھی نہیں تھا –کہ بزدل ،بےشرم ،بے غیرت درندے ان کی تاک میں ہیں ،ایک
موٹر سائکل پر سوال دو وحشی جانوروں نے مثل کربلا معصوم بچے اور اس کے والد
کو گولیوں سے بھون دیا –نھنا برہان بشیر خانوادہ مصطفیٰ( صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم) کے چشم چراغ علی اصغر کی مانند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا شاید
اس وقت وہ پیاسا بھی تھا شاید اس لئے اس کی زبان سے صرف چند ٹوٹے پھوٹے
الفاظ ادا ہوسکے ابو مجھ کو پیاش (پیاس ) لگی ہے وہ حیران و پریشا ن بھی
تھا کیونکہ اپنی زندگی کے سب سے مضبوط سہارے اپنے والد کو بھی اس نے خون
میں لت پت بے بس اور بے سہارا دیکھ لیا –بشیر شہید کے خاندان پر اس سے پہلے
بھی اس قسم کی ایک بجلی گری تھی –جب اس کے بھائی کو راجوری میں ایک فرضی
جھڑپ کے دوران شہید کیا گیا تھا - آس پاس کے لوگ جمع ہوکر بڑی بہادری کے
ساتھ دو میں سے ایک قاتل کو پکڑنے میں کامیاب ہوگے تھے –لیکن دوسرے نے کمال
لومڑی کی چال چلتے ہوئے ایک ہینڈ گرنیڈ پھینک دیا –جو خوش قسمتی سے نہیں
پھٹا –اور اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے قاتل جائے واردات سے فرار ہونے میں
کامیاب ہوئے –نھنے برہان کو منوں مٹی تلے دفن کیا گیا اس کے والد کو بھی
سپرد خاک کیا گیا –جس وقت آپ یہ مضمون پھڑرہے ہونگے –اس وقت تعزیت کے لئے
حریت کانفرنس اور دوسرے حریت پسند رہنما تعزیت اور دعا کیلئے غم زدہ
خانوادہ کے ہاں پہنچ گئے ہونگے مگر میرا ان لیڈرن سے عرض ہے برہان کو دعا
کی ضرورت نہیں – بلکہ قوم کے ناسور کے لئے دوا کی ضرورت ہے –ایک بات تو طے
ہے کہ کشمیری قوم کو دنیا میں کوئی وکیل اور مدد گار نہیں ہے – برہان بشیر
کیلئے ایلان کردی کی طرح سوشل میڈیا پر کوئی ہلچل بھی نہیں مچ گئی – برہان
بشیر کی تصویر ایلان کردی کی تصویر طرح الیکٹرانک میڈیا پر نشر نہیں ہوئی –نا
کوئی انسانیت ساحل پر بہہ گئی –نا یورپ اور امریکا کی عوام اٹھ کھڑی ہوئی –یورپ
امریکا تو کیا پاکستان ،بنگلادیش ،اور ایران جیسے بردار ملکوں میں بھی کسی
کے کان پر جؤ تک نہیں رینگی –برادر ملک تو دور کنا نام نہاد بیس کیمپ آزاد
کشمیر تک برہان بشیر کی خبر پہنچی ہی نہیں – نا وہاں اس پر کوئی سرکاری یا
غیر سرکاری ردعمل سامنے آگیا –میں پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر
کے اخبارات کا مطالعہ کر رہا تھا نہ ان میں ابھی تک برہان بشیر کے بارے میں
اداریئے چھپےاور نا ہی مضمون حالانکہ اس کربناک خبر کیلئے ان کے اخبار میں
شاید جگہ بھی نہیں تھی –میں نے پاکستانی الیکٹرونک میڈیا پر برہان کی نیوز
ڈھونڈنے کی کوشش کی –لیکن میں ناکام رہا –میں نے پاکستان کی مشہور و معروف
چینل اے –آر –وائے آن کی –وہاں بالی ووڈ میں آنے والی نئی فلم "دنگل"کے
بارے میں تبصرہ ہورہا تھا –بتایا جارہا تھا – کہ کیسے مسٹر پرفیکٹ عامر خان
نے اپنی نئی آنے والی فلم کے لئے پچاس کلو وزن کا اضافہ کیا –میں نے ایک
دوسری چینل کا انتخاب کیا –میں نے دیکھا وہاں ہرتیک روشن کی سابقہ اہلیہ کے
بارے میں تبصرہ ہورہا تھا –میں نے اردو اخبارات میں جھانکنے کی کوشش کی –
میں نے وہاں صنم سید نامی کسی پاکستانی فلمی اداکارہ کو بھارتی فلموں میں
پیشکش کے بارے میں لکھا ہوا مواد پایا –میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا – کہ یہ
عدل انصاف اور آزادی کی جنگ ہماری ہے –یہ صرف ہم کو لڑنی ہے پرامن ،منظم
اور متحد ہوکر –جیسے کہ میں نے اپنے سابقہ آرٹیکل میں حریت قائدین سے ایک
درخواست کی تھی – کہ خدارا ایک ہوجاؤ.ذاتی آنا پرستی اور خودغرضی کو ایک
طرف چھوڑ کر – یہی راستہ ہے امن کا ، عزت کا اور آزادی کا – میں نے اپنے
پچھلے کالم میں بھی سبز سکارف والی میری بہن کا ذکر کیا تھا –اس کے پاس بھی
برہان کی تعزیت کے لئے وقت نہیں ہوگا- کیوں آج کل وہ مودی سرکارکے خرچے
پرحج کرنے چلی گئی ہے –شاید مودی جی اور جنتا پارٹی کو کشمیر کا اقتدار
دلانے کے لئے یہ اس کا انعام ہے یہی سیاست ہے جس میں گرگٹ کی طرح وقت کے
ساتھ ساتھ رنگ بدل دیا جاتا ہے – میرے ایک اچھے انڈین دوست نے مجھے آج سے
دو ماہ قبل پوچھا تھا –یہ برہان وانی جیسے لوگ کشمیرجیسے خواندہ سماج میں
کیسے پیدا ہوتے ہیں – میں نے اس وقت اس کو کوئی جواب نہیں دیا تھا – لیکن
آج میں اس کو بتانا چاہتا ہوں – برہان وانی آسمان سے نہیں اترتے – بلکہ
برہان بٹ جیسے بچوں کو بچانے کے لئے برہان وانی جیسے مجاہد پیدا ہوتے ہیں –
اور سر آئزک نیوٹن نے آج سے بہت پہلے یہ ثابت کیا تھا کہ "ہر عمل کا برابر
مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ |