وزیراعظم کی انگلش میں تقریر توہین عدالت نہیں اور کیا ہے؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
وزیراعظم پاکستان میاں نوز
شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عوامی جذبات کی کس قدر ترجمانی کی
ہے ؟ اس کی تعریفیں تو سب کر رہے ہیں لیکن میاں نواز شریف صاحب ایک بات
بھول گئے کہ اردو کے علاوہ اب کسی بھی زبان میں تقریر کرنا سپریم کورٹ کے
فیصلے کی روشنی میں توہین عدالت ہے جب سے وزیراعظم نے انگلش میں تقریر کی
تب سے قوم کی طرف سے ردعمل ظاہر ہورہا ہے مذمتی بیانات کالمز،گذارشات،
شکایات کے انبار لگ گے ہیں ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ قوم اب اردو کے علاوہ
کسی زبان کو اپنے اوپر مسلط دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہمارے حکمرانوں اور انگلش
فوبیا میں مبتلا لوگوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ قومیں جب تک اپنی زبان پر فخر
کرتے ہوئے غیر اقوام کے سامنے اس کی حیثیت نہیں منوا لیتیں تب تک قومیں
دنیا میں اپنی شناخت حاصل نہیں کرپاتیں پاکستانی قوم کو سپریم کورٹ آف
پاکستان نے ایک شناخت عطاء کی کہ قومی زبان اردو کو ملک بھر میں عملاً نافذ
کیا جائے ۔اور ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ آئندہ سے
ارباب اقتدار جہاں کہیں بھی تقریر کریں گے قومی زبان اردو ہی میں کریں گے
۔حکومت نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن اب پاکستان کے وزیر اعظم
اقوام متحدہ کی اسمبلی میں خطاب کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس اہم
حکم کو ہواؤں میں اڑا کر انگلش میں تقریر کر گئے اس طرح پاکستان کے اہم
ترین عہدے دارعدالت توہین عدالت کے مرتکب ٹھہرے ۔اب دیکھتے ہیں قومی زبان
کا وقار بحال کروانے کیلئے کون عدالت کے دروازے پر دستک دے کر میاں نواز
شریف صاحب کو احساس دلاتا ہے کہ آپ نے بھی توہین عدالت کا ارتکاب کیاآئیے
عدالت میں آکر جواب دیجئے ؟ جب اردو کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا توتب بھی
ارباب علم ودانش نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نفاذاردو کے معاملے میں
انگریزسرکار کے چیلے ،کڑچھے اسے قبول نہیں کریں گے ایک سیکولر قانون دان نے
تو واضح الفاظ میں اس کی مخالفت کی ،ان انگریز ی کے حامی لوگوں کا کہنا ہے
کہ انگریز ی کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے جو کہ سراسر غلطی ہے جسے عقلی
ونقلی دلائل سے کئی بار رد کیا گیا مگر ابھی تک انگلش فوبیا کا سحر ٹوٹنے
کانام نہیں لے رہا۔جب عدلیہ نے فیصلہ صادر فرمایا تھااس وقت ہی یہ کہا جا
رہا تھا کہ سیکولر لوگوں کو یہ فیصلہ ہضم کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ وزیراعظم
صاحب کی اقوام متحدہ کی اسمبلی تقریر سے اس خدشے کو مزید تقویت ملی ہے اب
خدشات حقیت کا روپ دھارتے جا رہے ہیں کہ پاکستان کا دو فیصد حکمران طبقہ،
سیاستدان،با اثر لوگ اردو کو بطور قومی زبان عملی طور پر قبول کرنے کیلئے
تیار نہیں ہیں اسی لئے اس طبقے کی طرف سے قوم وفعل کی صورت میں وقتاً
فوقتاً ردعمل آرہا ہے شائد ان کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اردو تو غریب عوام کی
زبان ہیہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہم تو اپنے آقاانگریز سرکار کی زبان
کو ہی ترجیح دیں گے اگر ان کا یہ خیال ہے تو بڑے ادب واحترام سے کہنا چاہتے
ہیں کہ اب حالات وہ نہیں رہے قوم اب بیدار ہے ملک کی اصل شناخت اور ترقی
کیلئے وہ سب کچھ کرنا چاہتی ہے جو ملک وملت کیلئے بہتر ہے قوم یہ سمجھتی ہے
کہ ہماری قومی زبان اردو ہے اب اس پر کسی زبان کا تسلط نہیں چلے گا ارباب
اقتدار اب اپنے رویوں کو قومی جذبات کے مطابق ڈھالیں ورنہ عوام انہیں مسترد
کرنے کی صلا حیت رکھتی ہے ۔ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ پاکستانی قوم کو ان
کی شناخت دینے کیلئے دلی طورپر عدالت عالیہ کے احکامات پر من عن عمل کریں
تاکہ نفاذ اردو کا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے ۔اگر ایسا نہ ہوا تو
عاشقان اردو ایک نئی اپیل عدالت میں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ توہین
عدالت کرنے والوں کو ہماری تحریریں اور قوم کے جذبات پیغام ہے کہ قومی زبان
سے پیار کرنے والے عوام بیدار ہیں اورتمہاری حرکات وسکنات بڑی غور سے دیکھ
رہے ہیں۔
٭ایک مذہبی لیڈر نے راقم کو فون کرکے کہا کہ ایک صوبے کی حکومت نے ختم نبوت
ﷺ کو نصاب میں شامل کرلیا ہے دوسرے صوبوں سے بھی کالم کے ذریعے ختم نبوت ﷺ
کا سبق نصاب میں شامل کرنے کا مطالبہ کریں جس صوبے نے یہ اقدام کیا ہے قابل
صد تحسین ہے مسلمانوں کے جذبات کی جزوی ترجمانی ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ
نظام تعلیم معیاری اور یکساں قومی زبان میں،اسلامی اقداروروایات کا امین
ہوجس کو بیک وقت ملک بھر کے تمام سرکاری،نیم سرکاری،نجی تعلیمی اداروں میں
لاگو کیا جائے۔مگر ابھی تک حکومت کی طرف سے اس پر کام صرف اس لئے شروع نہیں
ہوا کہ بیرون سے تعلیم کے نام پرڈالر آنا بند ہوجائیں گے پھر ہمارے
حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کیسے چلیں گی؟ہمارے لیڈران کرم کو یہ بھی اچھی طرح
علم ہے کہ اگر نظریاتی نصاب قوم کو دے دیا تو ملک میں تو اسلامی نظام کا
راستہ ہموار ہوجائے گا اور تب ہم رہبروں کی بجائے یقیناً ایسے درجے میں ہوں
گے جو قابل گرفت ہوگا تو یہ سیاستدان ،حکمران پنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں
ماریں گے؟اسی لئے قوم کو آج تک ایک نظام تعلیم نہیں دیا گیایہ لوگ یہی
چاہتے ہیں کہ قوم کو تقسیم در تقسیم کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط سے مضبوط تر
کرتے جاؤ۔اگر ہماراخیال،نقطہ ٔ نظر غلط ہے تو حکمران قوم کو ان کی خواہشات
کا امین نظام تعلیم کیوں نہیں دے رہے؟ ۔پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم
کرنے میں طبقاتی نظام تعلیم نے زہر قاتل کی طرح کام دکھایا ہے اب ملک کے ہر
کونے سے مختلف آوازیں سنائی دی جارہی ہیں جو ملک وملت کے مفاد میں ہرگز
نہیں۔اگر قوم کو ایک نظریاتی،حقیقی قوم بنانا ہے تو اہل علم کو اس پر بھی
تحریکی صورت میں کام کرنا ہوگا کہ پاکستان کا نظام تعلیم بیرون چندے سے
آزاد ہو تاکہ مسلم ماہرین تعلیم اسلام کے زریں اصولوں کو مدنظر رکھ کر
پالیسیاں مرتب کریں اس سے منتشر پاکستانی ہجوم کو ایک قوم بنانے میں مدد
ملے گی۔ |
|