یوں تو کوئی بھی راہ ہومگر ضروری نہیں کہ ہرراہ منزل کی
جانب ہی جاتی ہو،مختلف راہوں سے اپنے سفرکاآغاز کرنے والے اور مختلف منازل
کو پانے والے ایک ایسے فنکاردوست سے آج آپ کا تعارف کرواتے ہیں جنکا کہنا
ہے کہ گو کہ کسی بھی منزل کو پاناآسان نہیں ہوتا لیکن صاف نیت ،انتھک محنت
اور ماں باپ کی دعائیں منزل کو خود بخود آپ کے قدموں تلے لے آتی ہیں۔ سید
مہتاب شاہ عرف شاہ جی جو ہمہ جہت شخصیت،فنون لطیفہ سے ادب تک کی دُنیاکا
سفر،پی ٹی وی اور سٹییج سے فلم انڈسٹری تک کی تگ
دو،فلمسٹار،ہدایتکار،مُصنف،نغمہ نگار ، پروڈیوسر ، کمپیئر،اور افسانہ نگار،
پاکستان کے صنعتی و تجارتی دارالحکومت کراچی میں پہلاہندکوتھیٹرباقائدہ
طورمتعارف کرانے کا سہرہ، پہلاہندکوکلچرل میوزیکل پروگرام، پہلی
ہندکومزاحیہ خاکوں پرمبنی آڈیوڈائیلاگ کیسٹ کا اجراء، پہلاہندکوقومی نغمہ،
اورپاکستان کی پہلی ہندکوفلم ’’ چاچی جُل کراچی‘‘ کے پروڈیوسر،مصنف
وہدایتکار،نغمہ نگاراور اداکار(پہولا) پاکستانی اردو فیچرفلم ’’ ڈر‘‘ کے ’’
ڈان کے نام سے جانے والے اس فنکار کا تعلق پاکستان کی خوبصورت ترین وادی
وادی بالاکوٹ سے ہے، جسے لوگ پاکستان کی جنت کے علاوہ شہدائے بالا کوٹ کے
نام سے زیادہ جانتے ہیں،آٹھ اکتوبر (دوہزارپانچ) کے قیامت خیز زلزلہ کے
بعد تو دنیا بالاکوٹ کے نام سے مزید آگاہ ہو ہوچکی ہے، شاہ جی کا تعلق گوکہ
بالاکوٹ کے قریب ہی ایک گاوں تلہٹہ سے ہے ،جبکہ ان کی پیدائش کراچی کی ہے
اورابتدائی تعلیم بھی محمودآباد کے ابراہیم علی بھائی سکول سے حاصل
کی،بعدازاں اپنے آبائی گاوں کے گورنمنٹ پرائمری سکول بسیاں سے
پرائمری،گورنمنٹ مڈل اسکول شوہال معزاللہ سے مڈل اورپاکستان کو
آزادکشمیرسے ملانے والے شہرگڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے سید
مہتاب شاہ میٹرک کرنے کے بعد آپ اُنیس سو پچاسی میں آپ دوبارہ کراچی
تشریف لے آئے،تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کو سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق
پیدا ہوا،آپ نے اسٹیج ڈراموں سے اپنی منزل کی راہ کا تعین کیا،بعدازاں آپ
نے پاکستان ٹیلی ویژن کا بھی دروازہ جاکھٹکایا جہاں علی رضوی پاکستان ٹیلی
ویژن کے پروڈیوسرہونے کے ناطے ٹی وی لانگ پلے یووراوبیڈیئنٹ سرونٹ بنارہے
تھے ،سید مہتاب شاہ کو علی رضوی نے سینئراداکارشفیع محمدشاہ مرحوم کے ذاتی
ملازم کے بیٹے کے کردارمیں ایک انتہائی معمولی سے کردار کے لیئے فٹ
کردیا،کالج کے سٹوڈنٹ نے جب ڈرامہ دیکھا تو سید مہتاب شاہ کونہ صرف
مبارکبادیں دینی شروع کردیں بلکہ شاہ کے احترام میں بھی اضافہ ہونے لگا
جسکی وجہ سے شاہ جی کو اپنی منتخب کردہ راہ پرفخرمحسوس ہونے لگا،چونکہ
پاکستان میں پی ٹی وی کے علاوہ دوسراکوئی چینل تو تھا نہیں جسکی وجہ سے
معمولی سے کردارمیں پرفارم کرنے فنکارکو ٹیلی ویژن دیکھنے والے پہچان لیا
کرتے تھے ،بعد ازاں جب پرائیویٹ چینل کا سلسلہ شروع ہواتو پی ٹی این کے نام
سے ایک چینل وجود میں آیا جو بعد میں ایس ٹی این کے نام سے جاناجانے
لگا،تو سید مہتاب شاہ روبینہ اشرف کے مجرم کے طورپرپس آئینہ میں جلوہ
گرنظرآنے لگے،اسٹیج ٹی وی کا یہ سلسلہ جاری وساری ہی تھاکہ شاہ جی
پرپاکستان فلم انڈسٹری کے دروازے کھل گئے اور ناصرادیب کی لکھی ہوئی اور
پرویزراناجیسے منجھے ہوئے ہدایتکارکی فلم ’’ڈر‘‘ کے کردارکے لیئے پرویزرانا
کی عقابی نگاہ میں بطورولن ’’ ڈان‘‘ کے بہترین کردارکیلئے منتخب ہوگئے
یادرہے کہ یہ کردارپہلے فلمسٹارندیم اداکررہے تھے لیکن بعدازاں سید مہتاب
شاہ کی قسمت کاستارہ انھیں ڈرفلم کے ڈان کے روپ میں ایک ایسی راہ پر گامزن
کرگیا جو انکی منزل کی جانب جاتادکھائی دے رہا تھا ، سید مہتاب شاہ نے
پاکستانی فیچرفلم ڈرکے مرکزی کردارمیں فلمسٹاربابر علی اور فلمسٹارشان کے
باپ کے کردار میں بہترین کردارنگاری کرکے نہ صرف شائقین سے خوب داد وصول کی
بلکہ انھیں یکے بعد دیگرے دو مزید فلموں کی آفر ہوئی جو انھوں نے بخوشی
قبول کرلی اوریوں ریاض گجر اور شہزاد گجرکی فلم ’’ جسم ‘‘ میں بھی ولن کے
کردار میں خوب چچنے کے بعد تیسری فلم ’’ بھیگے ہونٹ ‘‘ میں اپنی کارکردگی
کے جوہردکھانے میں کامیاب ہوئے ،سید مہتاب شاہ ان چند خوش نصیبوں میں سے
ایک ٹھہرے جن پر قسمت کی دیوی کچھ اس طرح مہربان ہوتی ہے کہ وہ جس راہ پر
بھی گامزن ہوجائیں وہی راہ ان کی منزل کے نشان ڈھونڈنے میں انکی مددگارثابت
ہوتی ہے ،سید مہتاب شاہ پاکستان ٹیلی ویژن جیسی اکیڈمی سے اداکاری کے
رموذسیکھنے کے باوجود بھی شائد ابھی پیاسے دکھائی دے رہے تھے تو انھوں نے
باقائدہ فنی تربیت کیلئے ناپاجیسے ادارے کا انتخاب کرلیااور وہاں داخلہ
لینے کیلئے آڈیشن دینے والوں کی لائن میں جاکھڑے ہوئے ،وہاں بھی قسمت ان
پر مہربان رہی اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنس آرٹ میں آڈیشن میں سرفہرست
رہے اور پھر بین الاقوامی شہرت یافتہ ہستیوں سے تعلیم حاصل کرناشاہ جی کا
روزکا معمول بن گیا،ناپاجیسے ادارے جس کے سربراہ ضیاء محی الدین جیسی شخصیت
اور دیگراساتذہ میں طلعت حسین،ارشد محموداور معروف اداکارڈرامہ نویس اور
افسانہ نگار ڈاکٹرانورسجاد جیسی شخصیت کا آخرکچھ تو اثرلیا ہوگا شاہ جی نے
،یاد رہے کہ سید مہتاب شاہ نے جہاں پاکستان ٹیلی ویژن ،اسٹیج اور فلم
انڈسٹری میں اپنا نام بنایا وہیں ان کے کریڈٹ پر اور بڑاکام کراچی جیسے
شہرسے ہندکو تھیٹرکوپروان چڑہانابھی ہے ،شاہ جی نے پاکستان میں پاکستان میں
پہلی بار جہاں ہندکو اسٹیج ڈراموں کی باقائدہ داغ بیل ڈالی وہاں پہلی
بارہندکو کلچرل میوزیکل پروگرام بھی انھوں نے کراچی سٹیج کے ذریعے متعارف
کروائے جس سے ہندکو کے بہت سے فنکارپیداہوکرآج ٹی وی اورتھیٹرکی دُنیا میں
اپنا نام پیداکررہے ہیں،جبکہ پہلی بار ہندکو مزاحیہ ڈائیلاگ کاسلسلہ بھی
آڈیوکیسٹوں کی ذریعے متعارف کروا کرہندکوزبان اور ہزارہ کی ثقافت کو
گھرگھرروشناس کرانے میں ایک اہم کرداراداکیا،بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ
انتہائی دلچسب بات یہ ہے کہ سید مہتاب شاہ نے جس زمانے میں کراچی شہر سے
ہندکو اسٹیج ڈراموں کا آغاز کیا اس وقت پورے کراچی میں ہندکوزبان سے تعلق
رکھنے والا کوئی ایک فنکار بھی دستیاب نہ تھا،بلکہ شاہ جی کے خاندان والوں
سمیت کئی لوگوں نے انکی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ ان کے والد بزرگوارنے
انھیں فنون لطیفہ سے اس قدر عشق کی پاداش میں گھر سے بھی نکال باہر
کیاتھا،سید مہتاب شاہ اس زمانے میں گورنمنٹ نیشنل کالج میں سیکنڈایئرکے
طالبعلم میں تھے اور ان کاگھر صدرکی جہانگیرپارک تھی جہاں سیمنٹ کے ایک
بینچ پر یہ رات کو سو جاتے ،پارک کے کھمبے پربڑے روشن بلب کی روشنی میں
اپنا کالج کا کام بھی کرتے اور وہیں آپ نے کراچی کی تاریخ کا پہلاہندکو
اسٹیج ڈرامہ ’’ ماسی دیاپُترا‘‘ بھی اسی پارک میں بیٹھ کرلکھا،نہ صرف بلکہ
پاکستان نیوی فلیٹ کلب لکی سٹارصدرکراچی کے خوبصورت آڈیٹوریم کے اسٹیج پر
پیش کرکے یوں ہندکو ڈراموں کی داغ بیل بھی ڈالی،ہندکو زبان کے فنکاروں کی
عدم فنکاری کو آپ نے قطعی طورپر اپنی راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیااور اس وقت
کے دیگرزبانوں میں سٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے معروف اور مصروف ترین
فنکاروں کی مدد سے پہلے ہندکو اسٹیج ڈرامہ ’’ ماسی دیاپُترا‘‘ کو اسٹیج
کرنے میں کامیاب ہوئے ،اس وقت ہندکو اسٹیج ڈرامے میں ہزارے وال کا
کرداراورہندکوزبان کواپنی بولی بنانے والے میمنی ،سندھی ،گجراتی،کاٹھیاواڑی
،پشتو،اردواورپنجابی زبانوں سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ فنکاروں میں شکیل
صدیقی،روف لالہ،سکندرصنم مرحوم،لیاقت سولجرمرحوم،حنیف راجہ،روحی صنم ،شائدہ
ملک،ملکہ پیرزادہ ،مہک حسینہ،ابراہیم رازکاکامرحوم،خالد سلیم موٹاکے علاوہ
اخترمنیرمرحوم شامل ہیں،یہ سلسلہ تقریباچھ سال تک متواتریونہی چلتارہا،اور
ان چھ سالوں میں سید مہتاب شاہ ہندکو زبان کے نہ جانے کتنے سٹیج ڈرامے بغیر
ہندکواور ہزارے سے تعلق کے فنکاروں کے اسٹیج کرنے میں کامیاب وکامراں رہے
،ماسی دیاپترا‘‘ ،’’ گنجاپے تے بانکے پُتر‘‘،کھنگدے جُلو تے لنگدے
جُلو‘‘،’’ ہرکدے آوجی‘‘،’’انی لیلی تے کانڑاں مجنوں‘‘،’’ذراچِھک
پہاجی‘‘،’’ بُڈھامارے سیٹیئاں ‘‘ اور دیگرشامل ہیں،ان تمام ڈراموں کوسید
مہتاب شاہ نے ہندکو فنکارنہ ہونے کی وجہ سے دیگرزبانوں کے فنکاروں کے تعاون
سے پیش کرکے ہندکو زبان اور ہزارے وال قوم کو بام عروج پرلانے میں ایک
منفرد کردار ادا کیا،یہی وجہ ہے کہ سید مہتاب شاہ آج ہزارے وال قوم کے
دلوں میں دھڑکن بن کردھڑکتے ہیں اور ہزارہ وال قوم انھیں انتہائی قدرکی
نگاہ سے دیکھتی ہے ،سلسلہ یہاں پر رُکا اور تھما نہیں بلکہ شاہ جی نے اس
سلسلے کو مزید نکھاربخشنے کیلئے سن انیس سی پچاسی سے انیس سو نوے تک جتنے
بھی ہندکواسٹیج ڈرامے پیش کیئے پوری کراچی میں اس کے دعوت نامے میں مفت میں
تقسیم کروائے تاکہ ہندکو عوام اپنے گھروں سے باہر آئیں اپنے کلچرکودیکھیں
اسے انجوائے کریں اس پرناز کریں،سیدمہتاب شاہ کو دیکھ کرکراچی اسٹیج کے نہ
صرف فنکاربلکہ ہدایت کاراوردیگرلوگ حیران تھے کہ کیسا عجب مردہے اس کے پاس
گزشتہ پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی ہندکو فنکارنہ ہونے کے باوجود یہ
جہدمسلسل میں جُٹاہواہے اور ہم لوگوں سے یہ کیسے کام لے رہاہے ،سید مہتاب
شاہ نے پہلے ہندکو اسٹیج ڈرامہ ’’ماسی دیاپُترا‘‘ کیلئے پورے شہرکراچی میں
پچیس ہزارفری دعوت نامے تقسیم کروائے تھے جبکہ ڈرامے والے دن چارسوچھیاسی
نشستوں کے فلیٹ کلب میں صرف گیارہ ہزارے وال ڈرامہ دیکھنے آئے تھے اوروہ
بھی فری میں،بعد ازاں مفت دعوت ناموں کی تعداد بیس ہزارسے پندرہ،دس اورپانچ
ہزارتک لاتے لاتے بالآخرصفرتک لے آئے اور ہندکو زبان اور ثقافت سے دلچسبی
رکھنے والوں کی تعداد گیارا سے ایک سو گیارہ تک آن پہنچی، سید مہتاب شاہ
پندرہ جون انیس سو اکانوے کوجب ہندکو کی تاریخ کا معروف اسٹیج ڈرامہ ’’
چاچی جُل کراچی‘‘ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوئے تو پھر انھوں نے
دوٹوک فیصلہ کیا کہ اب ایک بھی مفت دعوت نامہ کسی کو نہیں دیا جائیگا،بلکہ
اخبارات کے اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو اگاہی دی جائے گی،سید مہتاب شاہ
اپنے اس تجرے میں یوں کامیاب ہوئے اور ریوآڈیٹوریم صدرکراچی جو اس ذمانے
میں تھیٹرکیلئے ایک مشہورمقام تھا،ایک مشہورروزنامے میں اشتہاردیاگیا،اور
چاچی جُل کراچی دیکھنے والوں کی تعداد ریو آڈیوریم میں دستیاب نشستوں سے
دُگنی ہوگئی،یوں سید مہتاب شاہ کی کو نہ صرف حوصلہ ملابلکہ انکی گزشتہ چھ
برس کی انتہائی کھٹن محنت کا پھل بھی مل گیا،ریوآڈیٹوریم کے برابر میں
ہاشو آڈیٹوریم میں اس روز عمرشریف کا ڈرامہ چل رہاتھا،’’ چاچی جُل کراچی
‘‘ کی کامیابی پر عمرشریف صاحب نے بھی مبارکباد پیش کی اور ان تمام فنکاروں
نے بھی جو گزشتہ چھ برس میں ہندکو زبان کی رہرسلوں کے دوران تقریباففٹی
پرسنٹ ہندکو سیکھ چکے تھے ،چاچی جُل کراچی میں پہلے دوہندکوفنکاروں نے جنم
لیا،جن میں ایک جاویداقبال اور دوسرے مشتاق قریشی تھے ،بعدازاں دونوں نے
بڑانام کمایا،سید مہتاب شاہ نے جہاں پہلی بار ہندکو اسٹیج ڈراموں کی داغ
بیل ڈال کرہندکوثقافت کی ترویج وترقی کیلئے رات دن ایک کیا، وہیں انھوں نے
پہلی بارکراچی اسٹیج پر ہندکوکلچرل میوزیکل شوزکا انعقاد کر کے ہندکوثقافت
میں بہت سے گلوکاروں کوپروان چڑھنے کا بھی موقع فراہم کیا،پہلی ہندکومزاحیہ
ڈائلاگ پرمبنی آڈیوکیسٹ کے ذریعے جہاں گلوکاروں کوپروموشن ملاوہیں اس شعبے
میں کام کرنے والے شوق کو بھی تقویت ملی اور یوں ہندکو ثقافت پروان چڑھتے
ہوئے پھلنے پھولنے لگی،سید مہتاب شاہ کا جنوں ابھی اور بہت کچھ
کرناچاہتاتھا،انھوں نے پاکستان کی تاریخ کا پہلاقومی ہندکونغمہ لکھ کرنغمہ
نگاروں اور شاعروں کی فہرست میں بھی اپنے آپ کو شامل کرلیا،یہ نغمہ چودہ
اگست دوہزارنو کو پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ دوچار پرائیویٹ چینل سے بھی
مسلسل نشرہوتارہا،قومی نغمے کے بول تھے ’’ آو کراں سرحد د ے نظارے ،سیل
کراں تے جُلاں ہزارے ‘‘شاہ جی نے ہندکو زبان وثقافت کیلئے اپنی سالہاسال کی
محنت اور اس کے نتیجے میں ملنے والی محبت اور پذیرائی پر مزید راہیں تلاش
کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم بنانے کاارادہ
کرلیا،اور یوں وہ اپنے معروف اسٹیج ڈرامے ’’ چاچی جُل کراچی ‘‘ کو ٹیلی فلم
کی صور ت دینے میں کامیاب ہوگئے،سن دوہزاردومیں انھوں نے اس پروجیکٹ پر
کاغذی کام شروع کردیا جو دوسال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ساحل سمندرپر واقع
عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے فلماتے ہوئے صوبہ ہزارہ کی خوبصورت ترین وادی
کاغان میں داخل ہوئے اور جھیل سیف الملوک کے علاوہ بالاکوٹ
،ناران،شوگراں،مظفرآباد،مانسہرہ،ایبٹ آباد،تربیلہ ڈیم اور ہری پورکے
خوبصورت مقامات کو عکسبند کرتے ہوئے واپس کراچی پہنچے ،پاکستان کی پہلی
ہندکو ٹیلی فلم ’’چاچی جُل کراچی‘‘ کو پاکستان فلم سینسربورڈ نے پچیس سالہ
سینسرسرٹیفکیٹ بھی دیاہے اور گورنمنٹ آف پاکستان سے باقائدہ کاپی رائٹ فلم
ہے،چاچی جُل کراچی کی بے مثال کامیابی کے بعد سید مہتاب شاہ کو یہ اطمنان
ہوجانا چاہئے تھا کہ ہندکوزبان وثقافت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے مگر بقول
شخصے ’’ میری نگاہِ شوق کہیں ٹھہرتی نہیں ۔مجھے ہروقت تلاش ہے اک نئے
آسمان کی‘‘ شاہ کہاں آرام وسکون سے بیٹھنے والے تھے انھوں نے
ہندکولٹریچرکی کمی کوشدت سے محسوس کررکھاتھا،اس لیئے وہ گزشتہ ڈھائی سال سے
ایک نئے پروجیکٹ پر خاموشی سے کام کررہے تھے ،کئی باررابطے کے باوجود شاہ
جی نے اس رازکو را ز ہی رکھامگر صحافی بھی اپنا کام آخرکرہی جاتے ہیں
،ہمیں خبرملی کہ شاہ جی آجکل اس لیئے غائب ہیں کہ وہ ہندکوکے کسی بڑے
پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں،پتہ چلاکہ موصوف ہندکو زبان میں افسانوں کامجموعہ
لکھنے میں دن رات مصروف ہیں،گزشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان جیسے ایک
باوقارادارے نے جب سید مہتاب شاہ کی ہندکو افسانوں پر مبنی مجموعہ ’’
مہتابیاں ‘‘ کا اعلان کیا تو پتہ چلا کہ موصوف کی تاریخ پیدائش چونکہ پندرہ
جون ہے ،اورآپ نے پندرہ جون انیس پچاسی کو ہی کراچی میں ہندکو ڈراموں کی
داغ رکھی تھی،پندرہ جون کو ہی پاکستان کی پہلی ہندکو فلم چاچی جُل کراچی کہ
مہورت کا بھی اہتمام کیا تھا اور پندرہ جون سن دوہزارپندرہ کو آپ کی کتاب
’’ مہتابیان ‘‘ کی تقریب رونمائی کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان
کراچی کے سیکرٹری جناب احمدشاہ اورگورننگ باڈی کے دیگراراکین نے آپکی
پچاسویں سالگرہ کاکیک کاٹ کرآپ کو ایک ساتھ دودومبارکبادیں پیش کی،ہندکو
افسانوی مجموعہ ’’ مہتابیاں ‘‘ کی تقریب کی صدارت آرٹس کونسل کراچی کے
نائب صدرجناب پروفیسرسحرانصاری فرمارہے تھے جبکہ معروف دانشورمہمان خصوصی
کی نشست پرمحترمہ عالیہ امام صاحبہ جلوہ افروزرہیں،پاکستان ٹیلی ویژن کے
سینئرپروڈیوسر اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کے رکن
جناب اقبال لطیف نے اپنے خطاب میں سید مہتاب شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف
کرتے ہوئے کہا کہ آج سے بائیس برس پہلے پی ٹی وی پر ایک چٹے گورے اور
چاکلیٹی سے جس لڑکے سے میں ملاتھا اسکانام میں نے پیارسے تابی رکھا تھا جسے
آج آپ لوگ مہتاب شاہ کے نام سے جانتے ہیں،کراچی پریس کلب کے صدراور معروف
شاعر جناب فاضل جمیلی نے کہاکہ سید مہتاب شاہ میں شرمندہ ہوں کہ جو کام
گزشتہ انتیس برس میں ایک ہزارے وال ہونے کے ناطے اور وسائل ہونے کے
باوجودمجھے کرنا چاہیئے تھا وہ شاہ جی نے کردکھایا جس پر میں انھیں دل کی
گہرایئوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں،لائبریری کمیٹی کی چیئرپرسن اور گورننگ
باڈی کی ممبرپاکستانی ڈرامہ مصنفین میں ایک معتبر نام محترمہ حسینہ معین
آپا کا ہے جنھوں نے سید مہتاب شاہ کو نہ صرف مبارکباد پیش کی بلکہ ان کی
اپنی ہندکو ثقافت اورکلچر سے اس قدرمحبت اور اس کے لیئے مسلسل تیس برس کام
کرنے پر شاباش دیتے ہوئے،افسانہ نگارکی حیثیت سے سید مہتاب شاہ کو ’’
مہتابیاں ‘‘ کی صورت میں ہندکو لٹریچرمیں گراں قدراضافہ قرار دیا ہے،آرٹس
کونسل کے سیکرٹری سید احمد شاہ نے اس بات کااعتراف کیا کہ بلاشبہ سید مہتاب
شاہ بھانجے ہیں،اور ہندکوزبان وکلچرکے محسن ہیں ،اور مجھ سے واقعی بہت سی
کوہتاہیئاں ہوئی ہیں میں اس شخص کو سپورٹ نہیں کرسکاجس طرح سے اس کا حق
بنتاتھا،لیکن اس نے اپنی مدد آپ کے تحت جب یہ مقام حاصل کرکے ہمیں
مجبورکردیاکہ ہم اس کی خدادادصلاحیتوں کااعتراف کریں تو آرٹس کونسل آف
پاکستان کراچی نے انکی یہ کتاب ’’ مہتابیاں ‘‘ شائع کرنے کابیٹرہ
اُٹھایا،چاہتاتو باقی کاموں کی طرح یہ کتاب بھی اپنی مدد اپ کے تحت یہ
کرسکتا تھا لیکن آرٹس کونسل آف پاکستان سید مہتاب شاہ کا مشکورہے کہ
انھوں نے نہ صرف ادارے کو عزت بخشی ہے بلکہ اپنے وقار میں اضافہ کیا ہے،سید
مہتاب شاہ کے میٹرک کے زمانے کے کلاس فیلوسپریم کورٹ آف پاکستان کے معروف
قانون دان منصف جان محمدنے اپنے خیالات کے اظہارمیں کہا کہ شاہ جی بچپن ہی
سے ایک منفردشخصیت کے مالک تھے ،چپ چاپ اوراپنے آپ میں گم رہنے والاوہ
خوبصورت سا بچہ جوکل اسکول کے بزم ادب کے ہرپروگرام کامیزبان ہواکرتاتھاآج
تیس برس کے بعد مجھے ایک فلمسٹار،ایک نغمہ نگار،کمپیئر،مصنف
وہدایتکار،پروڈیوسراورافسانہ نگار کے روپ میں نظرآرہاہے جسکی خوشی کی
انتہاکو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصرہوں دُعاگوہ کہ سید مہتاب شاہ آپ
نے جس طرح سے محنت کرکے پاکستان ٹیلی ویژن ،اسٹیج اورفلم انڈسٹری میں اپنا
نام ومقام بنایا ہے بلکہ اپنی ہزارے وال قوم پر یہ احسان عظیم کیا ہے کہ
ہندکو تھیٹرکو رائج کیا،ہندکو کی تاریخ کی پہلی ہندکو ٹیلی فلم چاچی جُل
کراچی جیسی صاف ستھری اور فیملی فلم دی جس پر نہ صرف ہمیں ناز ہے بلکہ
ہمارے ہر گھر کی اصل کہانی ہے ،میری دعاہے کہ سید مہتاب شاہ دن دوگنی اور
رات چوگنی ترقی پائے،تاریخ اعوان کے مصنف معروف ایڈوکیٹ محترم جناب محبت
حسین اعوان نے سید مہتاب شاہ کی ہندکو زبان وثقافت کیلئے تیس سالہ خدمات کو
سرہاتے ہوئے کہا کہ ہزارہ کی سرزمین نے ہمیشہ ٹیلنٹڈ لوگ پیدا کیئے
ہیں،قتیل شفائی اورایوب خان سے لیکرآج یہاں موجود آرٹس کونسل آف پاکستان
کراچی پرحکمرانی کرنے والے احمدشاہ ہوں یا کراچی پریس کلب پر حکمرانی کرنے
والے فاضل جمیلی،فنون لطیفہ کی تقریباسبھی اصناف میں اپنے آپ کو منوانے
والے سید مہتاب شاہ کو آج انکی پچاسویں سالگرہ پر مبارک باد پیش کرتاہوں
اور پاکستان کی پہلی ہندکو فلم ’’ چاچی جُل کراچی ‘‘ کے بعد ہندکوافسانوی
مجموعہ ’’ مہتابیاں ‘‘ جیسے ایک بڑے لٹریری کام پران کو سلام پیش
کرتاہوں،مہتابیاں کی تقریب میں جہاں شہر بھرکی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے
تعلق رکھنی والی شخصیات نے شرکت کی وہیں پہلی ہندکو ٹیلی فلم چاچی جُل
کراچی کے مرکزی کردار ’’ چاچاجی‘‘ یعنی مشتاق قریشی کو دیکھ کرہزارے وال
عوام بہت خوش ہوئی ،کراچی میں ہزارے وال قوم کے واحد نمائندہ اخبارروزنامہ
شمال کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرجناب جاوید اقبال اورنیوزایڈیٹرآصف اقبال نے بھی
شرکت کی اور سید مہتا ب شاہ کو ان کی سالگرہ پر پھولوں کا گلدستہ پیش
کیا،آخر میں پروگرام کے صدرجناب پروفیسرسحرانصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ
سید مہتاب شاہ نے جب ہندکو فلم چاچی جُل کراچی کی ڈی وی ڈی مجھے دی تو میں
اسے گھر لے گیا،چونکہ میرے گھر والی بھی ہزارہ سے تعلق رکھتی ہیں انھوں نے
کئی بار اس فلم کو دیکھا،اور آج جب سید مہتاب شاہ نے اپنی کتاب ’’
مہتابیاں ‘‘ مجھے پڑھنے کیلئے دی تو ہندکو پڑھ کر ایسا لگ ریاتھا جیساکہ
ہندکو میری اپنی زبان ہے اور میں نے دوتین افسانے اچھی طرح سے بغیرکسی
پریشانی کے پڑھ لیئے تھے ،مجھے بڑی خوشی ہے خاص کر انکا وہ افسانہ ہاں ’’
پُٹھی تمبی‘‘ جس میں ہزارہ وال قوم کی غیرت اور عزت کو بڑے احسن طریقے سے
بیان کرتے ہوئے اسے رنگوں سے بھردیا ہے ،میں تو آج اس محفل سے فائدہ
اُٹھاتے ہوئے سید مہتاب شاہ سے کہوں گا کہ اس سے پہلے کہ کوئی ’’ مہتابیاں
‘‘ کااردوترجمہ کرے آپ ہی پہلی فرصت میں اپنی ہندکو کتاب کا ترجمہ
اردوکرکے آرٹس کونسل کو دیں تاکہ باقی لوگ جو ہندکو نہیں پڑھ سکتے وہ
آپکی اس کتاب سے ضرورفائدہ اٹھائیں،،سید مہتاب شاہ اجکل مہتایباں کا
اردوترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے مختلف چینل سے مختلف پروگراموں میں
کبھی ولن،کبھی ملنگ بابا،اور کبھی جعلی عامل اور پیر جیسے کرداروں میں
دکھائی دیتے ہیں،یادرہے کہ پچھلے دنوں آرٹس کونسل میں سید مہتاب شاہ کا
لکھا ہوا شبیرکرن کی ہدایات میں اردوفیملی سٹیج ڈرامہ ’’ ناگن بنی سہاگن ‘‘
دیکھنے کا اتفاق ہوا،ہال کھچاکھچ بھراہواتھا،فیملیز کی بڑی تعداد نے اس
ڈرامے کو دیکھااور پسند کیا،اب پانچ اکتوبردوہزارپندرہ کو ایک بار پھر
آرٹس کونسل آف پاکستان کے اشتراک سے سید مہتاب شاہ کالکھاہوا اور شبیرکرن
کی ہدایات میں نیا اصلاحی ومزاحیہ اردودڈرامہ ’’ میں بنی دُلہن ‘‘ کی
تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں،امید ہے کہ شاہ کے گزشتہ ڈراموں کی طرح یہ
ڈرامہ بھی ہاوس فل اور فیملی ڈرامہ کہلائے گا۔ |