جنگی خان
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
کئی ممالک میں فن کا مظاہر ہ
کرنے والے جنگی خان کا تعلق بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے ہے۔ جنگی خان خود
ہی لکھتے ہیں اور گاتے بھی ہیں۔ گانا لکھنے اور گانے کے علاوہ ان کی شہرت
درا صل ان کا منفرد انداز ہے جیسے بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ جنگی خان کہیں
بھی فن کا مظاہرہ شروع کریں لوگوں کو ان کے قریب جانے سے روکنا مشکل ہو
جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بھی اس محفل میں موجود تھے
جس میں جنگی خان نے اپنے منفرد فن کا مظاہرہ کیا ۔ڈاکٹر عبدالمالک اپنی
نشست سے اُٹھے اور جنگی خان کو داد دی اور حوصلہ افزائی کی تھپکی دی۔ جنگی
خان اسلام آباد کے لوگ ورثہ سالانہ میلے میں بلوچستان کے ثقافتی طائفے کا
حصہ ہیں۔ ثقافتی میلہ اتوار کو ختم ہو جائے گا۔ اس میلے میں پاکستان کے
چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان، آزاد جموںو کشمیر کے ثقافتی طائفے بھی
شامل ہوئے اور اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی۔ ہم
کون ہیں اور ہماری روایات کیا ہیں؟لوک ورثہ کے زیر اہتمام سالانہ ثقافتی
میلے میں کراچی سے کیلاش تک اور کوئٹہ سے کشمیر تک پھیلی ہوئی مختلف زبانوں
اور ثقافتوں کے عکاس گلوکاروں، فنکاروں، دستکاروں، چترکاروں، مصوروں اور
ہنرمندوں نے شرکت کی ۔ اپنی روایات کو لوگوں کے سامنے رکھا اور یہ بتانے کی
کوشش کی کہ ان کے پرانے بزرگ کیسی زندگی بسر کرتے تھے؟ زریعہ معاش کے لیے
کیا کرتے تھے ، خوشی اور غمی میں ان کے پہناوے اور گیت کیسے تھے۔ ثقافتی
میلے میں آزاد جموں وکشمیر کا پیولین بھی موجود ہے ۔ لوک ورثہ انتظامیہ کے
طریقہ کار کے تحت ہر روز رات آٹھ بجے سے دس بجے تک کسی ایک صوبے یا علاقے
کا خصوصی ثقافتی شو ا ہم تقریب تصور کی جاتی ہے ۔سندھ نائٹ ،بلوچستان نائٹ
، گلگت بلتستان نائٹ کی طرح آزاد جموں کشمیر کے فن کاروں نے بھی کشمیر نائٹ
میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔اس رات قابل ذکر آئٹم میں زعفران بارے گیت شامل
تھا۔ یہ موسم بہار ہے کشمیر میں زعفران کے لہلہاتے کھلیان بڑا ہی دِلکش اور
دلفریب منظر کے لیے مشہور ہیں ۔زعفران کی کاشت ڈوڈہ ، کشتواڑ کے سرحدی
علاقوں سے لیکر کپواڑہ کے دور دراز پہاڑی علاقوں تک کی جاتی ہے۔آزاد جموں
کشمیر حکومت مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے کسی حد تک کشمیری ثقافت کے نام
کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کا ثقافتی طائفہ بھی
اس میلے کا حصہ تھا مگر بدقسمتی اور عدم توجہی سے اس دفعہ کشمیری ثقافت کی
کوئی حقیقی جھلک نظر نہ آسکی۔ ماضی میںکھبی کھبی سبحان راتھر ایسی محفلوں
میں آکر جان ڈال دیتے تھے۔ اس دفعہ سبحان راتھر کی کمی محسوس کی گئی ، یہ
جھلک دیکھنے کی خواہش صرف خواہش ہی رہی کہ کشمیری ثقافت کے نمونے کیا ہیں،
وہ کیا چیزیں ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو
چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے لاڑکانہ سے جا کر ہدایت لینی پڑتی ہے۔ ان کے پاس
اتنا وقت نہیں کہ وہ کم ازکم ایک گھنٹے کے لیے ہی سہی اپنے فن کاروں کے
درمیان موجود ہوں جس طرح بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک جمعہ کو
لوگ ورثہ میں بلوچستان کے فن کاروں کے ساتھ موجود تھے۔ کشمیر نائٹ میں فن
کاروں نے محنت تو کی مگر کشمیری یا کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے شائقین کی
تعداد چند سو تھی جبکہ پاکستان کے صوبوں یا گلگت بلتستان کی نائٹ کے مو قع
پر اوپن ایئر تھیٹر میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی میسئر نہیں تھی۔ گلگت بلتستان
ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے ۔ گلگت بلتستان کی وزارت ثقافت نے حقیقی معنوں
میں پاکستان کے صوبوں کے برابر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔کے پی کے کے فن
کاروں کا فن دیکھنے سے احساس ہو ا کہ پٹھان ایک بہادر ایک قوم ہے ۔اس قوم
کی روایت محنت کشی بھی ہے۔ لوک ورثا میںکے پی کے کے پولین میں جا کر احساس
ہو تا ہے کہ پٹھانوں کو اپنی روایات اور ثقافت سے محبت ہے اور اُسے زندہ
رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آزاد جموں وکشمیر میں رہنے والے ہمارے اسلاف
کیسے تھے؟ گزر بسر کیسے کرتے تھے؟ ان کے پہناوے کیسے تھے وہ خوشی کیسے
مناتے تھے ان سوالوں کا جواب موجود نہیں ہے۔صرف فرن ہماری نمائندگی نہیں ہے
۔ آزادجموں کشمیر محکمہ ثقافت کا کام کشمیر زبان سے جڑے لوگوں کی وجہ سے چل
رہا ہے ورنہ باقی کچھ نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگ کھتی باڑی کیا کرتے تھے۔
آج ہم کیتھی باڑی نہیں کرتے اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھیتی باڑی میں استعمال
ہونے والے ایشیاء کسی اہمیت کی حامل نہیں، اگر اور کچھ نہیں تھا تو ہل
جوترا کا انتظام ہی کر لیا جاتا تاکہ دیکھنے والے لوگوں کو پتہ چلتا کہ یہ
کھیتی باڑی کرنے والے محنتی کشمیری ہیں ۔ دراصل کلچر اور ثقافت کو اجاگر
کرنے والے ادارے ریڈیو اور ٹیلی ویثرن ہوا کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے آزدکشمیر
میں ان دونوں اداروں کی بساط ہی لپیٹ دی گئی ہے۔ آزادجموں کشمیر ٹیلی ویثرن
چوبیس گھنٹوں میںصرف دو گھنٹے کی نشریات کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ آزادکشمیر
ریڈیو مظفر آباد مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ آزاد کشمیر ریڈیو تراڑ کھل کی
آواز آزاد کشمیر میں کہیں سنائی نہیں دیتی۔ پی ٹی وی کے بوسٹرز بند ہیں اس
لیے لوگ پی ٹی وی کی نشریات سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ چناچہ پوری قوم کو ڈش
اور کیبل کے زریعے سٹار ٹی وی کے بھارتی ڈرامے دیکھنے پر لگا دیا گیا ہے۔ان
دنوں ہماری عورتوں کے پہناوے بھی سٹار ٹی وی کے مرہون منت ہیں، پرانے وقتوں
میں ہماری عورتوں کا بلوچی عورتوں کی طرز پر لباس ہوتا تھا خاص کر بھاری
بھر کم شلوار ۔ معاف کیجیے گا اب تو سٹار ٹی وی نے ہماری عورتوں کو بھاری
بھر کم اور شاندار شلوار کے بجائے تنگ پاجامے پہنا دیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ
عرصے بعد لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت بھی بھارتی ٹی وی کے زریعے سیٹ کرنا شروع
کر دیں،۔ دنیا گلوبل ویلج تو ضرور ہے مگر آزادکشمیر اس دنیا کا حصہ نہیں ہے
۔کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ موجود ہے مگر کشمیر کے نام پر سرکاری ریڈیو
اور ٹی وی بند ہیں۔ انٹر نیٹ کی قابل ذکر سروس اس خطے کے لیے موجود نہیں،
موبائل فون کمپنیوں کو اس خطے میں تھری جی اور فور جی کی سروس فراہم کرنے
سے روک دیا گیا ہے ۔خیر بات ہورہی ہے ثقافتی رویات کی،ہمارے پاس کچھ نہیں
ہے جو ہم لوگوں کو دیکھا سکیں کہ یہ ہے ہماری پہچان،،اس پسماندگی کے ہم خود
بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں ، اسلام آباد کے لوگ میلے میں بلوچستان سے میرے
دوست جنگی خان سے مل کر میری احساس پسماندگی سے کسی حد تک توجہ ہٹی ۔ جنگی
خان کا کہنا تھا مجھے کشمیریوں سے محبت ہے اور میں چاہتا ہوں کشمیریوں کو
حقوق ملیں۔ اسی تمنا کے تحت میں نے کشمیر پر چھ گیت تیار کیئے ہیں۔ میری
خواہش ہے کہ میں کبھی کشمیر آوں اور وہاں کے لوگوں کو بھی کشمیر بارے اپنے
گیت سنائوں۔ جنگی خان کا صوبہ بھی بدامنی کا شکار ہے پھر بھی وہاں کے لوگ
زندہ دل اور بے لوث ہیں اپنی ثقافتی رویات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔لوک ورثہ
کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ بہادر خاتون تو ہیں ہی پاکستانی ثقافتی
اکائیوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے اور پاکستان کے ثقافتی رنگ اجاگر کرنے میں
ان کا اہم کردار ہے ۔ ڈاکٹر فوزیہ اور ان کی ٹیم کی اس دفعہ محنت بے مثال
تھی ۔ ویلڈن فوزیہ |
|