ایک دفعہ جنرل ایوب بھارت کے دورے پر گے۔وھاں انھوں نے دل
کی تاروں کو چھو لینے والا نغمہ سنا ۔ ان کو یہ نغمہ اتنا پسند آیا کہ اس
نغمہ نگار شاعر سے ملنے کا ارادہ ظاھر کر دیا۔ صدر ایوب کو یہ بتا کر حیران
کر دیا گیا۔ کہ وہ شاعر ایک پاکستانی ہے۔ پاکستان آ کر انھوں نے پھر اسی
خواھش کا اظہار کیا تو صدر صاحب حکم کی تعمیل کیلیے ماتحتوں کو لالے پڑ
گے۔کیونکہ وہ شاعر داتا دربار کے باھر ایک کمبل میں لپٹا چرس کے نشے میں
دھت زمانے کی ستم ظریفی کا شکرادا کر رھا تھا۔لاکھ منتوں سماجتوں کے باوجود
شاعر نے صدر کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔آخر کار جب اصرار حد سے بڑھا تو
ساتھ ھی پڑھی سگریٹ کی خالی ڈبیا اٹھائ۔اس میں سے ایلومینیم کی فویل جس کو
کلی بھی کھتے ھیں نکالی،دکاندار سے قلم مانگا اور دو لافانی سطریں تحریر کر
کے اس پولیس اھلکار کے حوالے کر دیں۔جو ان کو صدر صاحب کے پاس لے جانے آیا
تھا۔وہ سطریں کچھ یوں تھیں۔
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائ
اس دور کے سلطاں سے کچھ بھول ھوئ ھے۔؛
یہ تھے جناب ساغر صدیقی۔یہ سطریں پڑھ کر مجھے آج کے حالات ذھن نشیں ھوتے
ھیں۔آج کے حالات کے مطابق غریب پھلے سے زیادہ غریب اور امیر پھلے سے زیادہ
امیر ھوتا جا رھا ھے۔چونکہ میرا آج کا عنوان (کسان امتحان میں) ھے۔اسی اپنے
کسان بھا ئیوں کی بات کروں گا۔ھمارے کسان بھائی جو کہ سب خوراک اور اشیاء
فراھم کرتے ھیں۔وہ خود اپنے گھر کے اخراجات بھی پورے نھیں کر سکتے۔بعض
اوقات تو فصل پر لگائے ھوےاخراجات بھی پورے نھیں ھوتے۔کسان جو ھمیں
دودھ‘گندم‘چاول‘سبزیاں اور دوسری اشیاء فراھم کرتے ھیں۔وھی کسان ھر چڑھتے
سورج کے ساتھ اپنی ماں جیسی زمین کو بیچ کر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات
پورے کر رھے ھیں۔ایک چھوٹا کسان تو اپنی اولاد کو اچھی تعلیم متوازن غزا
اور دوسری ضروریات زندگی بھی مھیا نھی کر سکتا۔اور جو کسان ان میں سے ایک
بھی چیز مھیا کر رھا ھے اس کا بال‘بال قرض میں ڈوبا ھوا ھے۔کیڑے‘جڑی اور
بوٹی مار ادویات یوریا ڈی اے پی وغیرہ اور اسکولوں کالجوں کی فیسیں اور
دوسرے روز مرہ کے اخراجات دن بدن بڑھتے جا رھے ھیں۔اور کسانوں کی بوئ ھوئ
فصلوں کے ریٹ دن بدن کم ھوتے جارھے ھیں۔کچھ کسانوں کی فصلیں تو دو‘تین سال
سے سیلاب کی آڑ میں ھیں۔یہ کسان بیچارے جگہ جگہ سے قرض اٹھاچکے ھیں۔اور جو
ابھی چاول کی فصلیں کا اس کا ریٹ سن کر تو یہ لگتا ھےکہ کسانوں کا نام و
نشاں اس دنیا سے مٹ جائے گا۔اور کسان فصل کاشت کرنا ھی چھوڑ دیں گے۔بات یہ
ھے کہ اب کسان ان حالات میں کھا جائیں۔اور ڈیلرز حضرات جنھوں نے چاول میں
ملاوٹ کر کہ پاکستان کا نام دنیا میں خراب کیا۔جن کی وجہ سے پاکستانی چاول
دنیا بھر میں ریجیکٹ ھو رھا ھے۔کسان بیچاروں نے ڈیلرز سے قرض لیے ھوتے
ھیں۔جسکی بدولت کسان اپنی فصل ڈیلرز کو دیتے ھیں۔جو صرف قرض کے روپے ھی
پورے کرتی ھے۔کسان اس وقت بہت بڑے امتحان میں ھیں۔نہ تو وہ فصل کو روک سکتے
ھیں۔اگر کسان اپنی فصل اور دوسری اشیاء کو روک دیں اور کسی کو بھی فصل
سپلائ نہ کریں تو ملک میں توازن قائم نھیں رھے گا۔
اور حکومت پاکستاں نے جو فوری امداد کا اعلان وہ کسانوں کو بیکا ری بنانے
کے مترادف ھے۔پانچ ھزار سے تو کچھ نھیں بنے گا۔یہ فوری امداد کم از کم بیس
ھزار پر ایکڑ ھونی چاھیے تھی۔ بھتر یہ تھا کہ براہ راست فصل کا ریٹ بڑھایا
جائے۔اور حکومت خود فصل کی خریداری کرے۔اور کسانوں کو ان کی فصل کے مناسب
دام دے اور بر وقت ادائیگی ھو۔جس سے کسانوں کو فوری فائدہ ھوگا۔اب حکومت
پاکستان کے ھا میں ھے کہ ووہ کسانوں کو کیسے ڈیل کرتی ھے۔اور اگر کسان اسی
طرح مجبور رھا تو اس کے اثرات اگلے جنرل الیکشن اور موجودہ بلدیاتی الیکشن
میں سامنے آئیں گے۔جو کہ موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھجکا ھو گا۔اور کسان
بھائیوں کو چاھیے کہ وہ بھی کاشتکاری کے ساتھ کچھ دیگر کام بھی کریں تا کہ
موجودہ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔
میری حکومت پاکستان سے درواست ھے کہ وہ فوری کسانوں کا کوئ حل نکالیں۔
الله ہمارا حامی و ناصر ھو۔ |