اطلاعات کے مطابق آزادکشمیرکی وزارت اطلاعات نے
صحافیوں کو بہترین صحافتی خدمات پر ایوارڈزیاانعام دینے کافیصلہ کیاہے۔یہ
ایک مستحسن فیصلہ ہے ‘لیکن جس طریقہ سے ان صحافیوں کاانتخاب کیاجارہاہے،یہ
اتناعجیب وغریب اوربعیدازفہم ہے کہ بے اختیارہنسی چھوٹ جاتی ہے‘کہ آخرقوم
کو وہ وقت بھی دیکھناپڑے گاکہ ایوانوں میں بیٹھے مقتدر لوگ فہم و فراست کے
نام سے بھی ناآشناہوں گے۔جب قوم ایسے لوگوں کو منتخب کرکے اقتدارکے ایوانوں
میں بھیجتی ہو تو ایسی قوم کو کون تباہی و بربادی سے بچاسکے گا۔واضح رہے کہ
ہمارے دشمن خصوصاً اہل مغرب گزشتہ تقریباًبارہ سوبرسوں سے اس پالیسی پر
کاربندہیں کہ مسلم دنیامیں عقل، فہم وادراک اورگہری سوچ رکھنے والی باکردار
قیادت یاافرادکبھی برسراقتدارنہ آئیں‘اورمغرب اپنی ان کاوشوں میں کافی حد
تک کامیاب ہے۔یہ بات بھی ذہن پرنقش رہنی چاہئے کہ قوم کے وہ لائق وفائق
سپوت‘ جنہوں نے مختلف علمی شعبوں میں کارہاے نمایاں انجام دئے‘بالکل گمنامی
کی زندگی بسرکررہے ہیں،مقتدرو صاحب اختیارلوگوں نے ان کی علمی استعدادو
مہارت اورتجربہ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انہیں قومی دھارے سے الگ
کردیاہے۔ڈاکٹرعطاء الرحمٰن جب ہائیرایجوکیشن کے سربراہ تھے تو انہوں نے
علمی میدان میں ترقی کے لئے بیش قدراصلاحات کیں۔ہائیرایجوکیشن کو ایک
باقاعدہ نظام بنایا‘آج وہ کہاں ہیں‘اُنہیں ان کے اسی طرزعمل کی وجہ سے
مقتدرطبقہ کے عتاب کانشانہ بنناپڑا۔ہائیرایجوکیشن کو توڑاگیا اورصوبائی سطح
پر ڈاکٹرعاصم جیسے لوگوں کو اس کاسربراہ بنایاگیاجن کے کردارکو کرپشن نے
کھوکھلاکردیاہے۔ایسے لوگ کیاخاک اداروں کوچلائیں گے۔کیاپدی کیاپدی کاشوربہ‘۔
آزادکشمیرکی وزارت اطلاعات نے بہترین کالم نگاروں،رپورٹروں،کیمرہ مینوں
وغیرہ کے انتخاب کے لئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی ہے جوخودصحافت کی ابجدسے
بھی واقف نہیں،میں پورے وثوق سے کہتاہوں کہ اس کمیٹی کے کسی رکن کو
لکھنے،تحریر کو پرکھنے اورتحریرکی صحت کو سمجھنے کاکوئی وصف معلوم نہیں۔اس
کمیٹی پر تو بس اتناہی تبصرہ کیاجاسکتاہے کہ بجلی کی تنصیب و ترسیل کاکام
ہو اور چنائی‘ پلستر کے مستری کو لگادیاجائے۔افسوس تو اس بات کاہے کہ کمیٹی
ارکان میں سے کوئی ایک ممبر بھی ایساہوتاجو ادبی رجحان کامالک ہوتایاملکی
وریا ستی سطح پر اس کاکوئی مقام ہوتا۔حیرت ہے آزادکشمیر کی وزارت اطلاعات
پرکہ اس نے ایک نازک اورمعاشرے کے نبض شناس افرادکو پرکھنے اوران کاانتخاب
کرنے کے لئے ایسی کمیٹی تشکیل دی جس کو قطعی کوئی ادراک نہیں ہے کہ ایک
فیچرکیاہوتاہے۔اس کمیٹی کاسیدھاسادھامطلب یہی ہے کہ حکمران طبقہ کی تعریف و
توصیف میں رطب الساں رہنے والے چہیتے افرادکو نوازاجائے۔ہمیں ان افراد کو
نوازنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔لیکن خدارا.............‘صحافت کے نام پر
نہیں‘ان کو جس طرح تم پہلے کوٰۃ کے چیک دیتے چلے آرہے ہو ایسے ہی خاموشی سے
نوازتے رہو۔آزادکشمیرمیں شاعر،ادیب،دانشوراورصحافتی رموزسے آگاہ بے شمارلوگ
موجودہیں‘ریٹائرڈسیکرٹری اکرم سہیل، ‘ریٹائرڈسیکرٹری سلیم
چغتائی‘ریٹائرڈماہرتعلیم پروفیسرمسعودقریشی‘پروفیسرریٹائرڈ پرویزعلی
خان‘شاعر‘ادیب یامین‘پروفیسرڈاکٹرصغیرخان‘ سینئرصحافی ابراہیم گل
‘پروفیسرڈاکٹرعبدالکریم جیسے لوگوں نے کیاساری زندگی علم و ادب اورقوم کی
خدمت نہیں کی؟.......... اوراب بھی کررہے ہیں۔لیکن پتانہیں کیوں ایسے لوگوں
کو کمیٹی میں شامل نہیں کیاگیا۔
دلچسپ امریہ بھی ہے کہ ان نام نہادایوارڈزیاانعامات کے لئے جو کیٹگریزبنائی
گئی ہیں ان میں بھی صحافت کے کئی اہم شعبوں کو نظراندازکردیاگیاہے‘ایک
اخبارمیں سب سے اہم ترین شعبہ نیوزڈیسک کاہوتاہے ،اس کاسرے سے ذکرہی
نہیں۔اسی طرح اداریہ نگاروں سمیت دیگر مختلف شعبوں کو نظراندازکیاگیا۔وزارت
اطلاعات کے ایسے اچھوتے اقدام بارے کچھ کہنے ‘لکھنے کو جی تونہیں
چاہتاتھا‘بلکہ ایسے ہی عمومی طرزعمل کی وجہ سے لکھنا تقریباًچھوڑہی دیاہے
‘مگر ضروری ہے کہ ایک ایسی وزارت ‘جو حکومت کی ترجمان ہے‘کم ازکم ایسافیصلہ
نہ کرے جو ریاست کے چوتھے ستون کی تذلیل کاموجب ہو۔واضح رہناچاہیئے کہ
ریاست کایہ ستون ریاست کے لئے آنکھ،کان اوردل کی حیثیت رکھتاہے۔جب ان اعضاء
کو گزندپہنچائی جائے اورانہیں زخمی کیاجائے تو ریاست کی بقاء و سلامتی کی
پھرکو ئی ضمانت باقی نہیں رہتی ‘اورجو شخص اپنے دل،دماغ اورآنکھوں کو
خودزخمی اورناکارہ کرے‘اس کی عقل پر ماتم کے سواکچھ نہیں کیاجاسکتا۔
|