پاک بھارت مذاکرات

پاکستان اور بھارت کے مابین اب تک 130 مذاکرات کے دور چل چکے ہیں۔ ادھر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان میں کوئی ایک مذاکراتی عمل بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ امن کی خواہش بنیادی طور پر ہر انسان کے دل کی آواز اور فطرت کی پکار ہے۔ کون ذی شعور اور صاحب عقل ہوگا جو اس کو ٹھکرا کر ظلم و ناانصافی اور قتل وغارت گری کو ترجیح دے۔ البتہ بعض مقامات وہ بھی آتے ہیں جہاں بات چیت کارگر نہیں رہتی بلکہ: زور بازو آزما شکوہ نہ کر صیاد سے کو رو بعمل لایا جاتا ہے۔ بھارت نے بھی پاکستان کے ساتھ اب تک کچھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہمی مفاہمت اور مذاکرات میں نہ صرف یہ کہ سنجیدہ نہیں بلکہ ان مذاکراتی ڈھونگ کو اپنے مذموم مفادات و عزائم کی تکمیل کے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ بھارت اپنی پوری کوشش اس امر پر صرف کرتا ہے کہ کسی بھی طریق سے اہلیان پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے اور پاکستان کے مفادات و حقوق میں جس قدر روڑے اٹکائے جا سکتے ہوں اس میں کسی بخل سے کام نہ لیا جائے۔ ادھر پاکستان جب اپنے مفادات و حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے بھارتی ہٹ دھرمی کے خلاف کوئی مؤثر آواز بلند کرنا چاہتا ہے تب بھارت فوراً مذاکراتی عمل کیلئے خود کو بچھا دیتا ہے اور یوں ہر بار اسلامیانِ پاکستان کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مذاکرات سنجیدہ ہوتے ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے مسائل وہیں دب جاتے ہیں جو بھارتی آرزو وخواہش ہوتی ہے۔

130 مذاکراتی دور چلنے کے باوجود ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اب بھی بھارتی رویہ سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ سچی نیت سے مسائل کو حل کرنے کیلئے باہم گفت وشنید کرے گا اور یوں بہت سے مسائل ہو جائیں گے۔ حالانکہ اب تک کے تجربات اس کی مکمل نفی کرتے ہیں اور پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاک بھارت مذاکرات مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور اب تو دونوں ملکوں کے درمیان پانی کا مسئلہ ایسی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو بنجر بنانے اور مسلحہ جنگ کیے بغیر پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کیلئے پانی چوری کرنے کا ایسا منصوبہ وضع کیا گیا جس سے آج ہمارے علاقوں کے علاقے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں اور زراعت وکھیتی باڑی تباہ کن صورتحال سے دو چار ہے۔ ماہرین آئے روز اس بات پر متنبہ کررہے ہیں کہ اگر بھارت کی آبی جارحیت کو نہ روکا گیا تو وہ ہمیں پانی کی بوند بوند کو ترسا کر ہلاک کردے گا۔ اس سلسلے میں بھارت نے مسلسل ہٹ دھرمی کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ ہم صرف اس ہٹ دھرمی کا رونا رو دیتے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کو ہٹ دھرمی پر قائم رکھنے والی چیز کیا ہے اور کس چیز پر اسے بھروسا ہے؟ حقیقت کو تسلیم کیا جائے تو وہ ہمارا ہی یہ طفلانہ کردار ہے۔ جس میں بھارت ہر دفعہ مذاکرات کی چال چل کر اپنے عزائم کو مزید آگے بڑھا دیتا ہے اور مسائل مذاکرات میں جیسے ہی گم ہوتے ہیں بھارت اپنا دامن چرا کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے بھارتی حکومت اور دیگر بھارتی ذمہ دارانہ حلقوں کے بیانات کو یکجا کیا جائے تو یقیناً آپ کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہے گی کہ اس مختصر عرصے میں بھارت کتنے چہرے بدل چکا ہے۔ صبح کو ایک بیان جاری ہوتا ہے تو شام کوئی دوسرا راگ الاپ دیا جاتا ہے۔ ادھر ہمارے حکمران ہیں جو ہر دفعہ مذاکرات کے نام پر بچھے بچھے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہو وہ بلاتحقیق ہمارے سر پر تھوپ دیں، کشمیری جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے ہر ممکنہ اقدام اٹھائیں اور پاکستان کو محض اخلاقی و سفارتی مدد کی حق دہی بھی گوارا نہ کریں۔ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبائے بیٹھے ہیں اور جب پاکستان ان کے حق خودارادیت کی واپسی کی بات کرے تو پاکستان معتوب ٹھہرے۔ وہ ہمارے پانیوں پر قبضہ کرے،پ اکستان آواز اٹھائے تو اس مسلمہ حق کو بھی دہشت گردی سے مشروط کر دے تاکہ معاملہ وہیں کا وہیں رہے۔

دراصل ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے کون سے وہ مسائل، مفادات اور حقوق ہیں جو بھارت سے متعلق ہیں۔ پھر غور و فکر کر کے یہ دیکھنا ہوگا ان مسائل میں سے کون سے مسائل ایسے ہیں جو مذاکرات میں زیر بحث لائے جاچکے ہیں اور کتنے مسائل ایسے باقی ہیں جو ابھی زیر بحث آئے ہی نہیں۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ جو مسائل اب تک مذاکرات میں زیر بحث آئے ہیں ان میں سے کتنے حل ہوئے ہیں اور کتنے ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے۔ ان تمام معاملات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سے مسائل باہمی بات چیت سے حل ہونے کی امید ہے اور کن مسائل کیلئے دباﺅ اور طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے اپنی حد تک ان حقائق کا تجزیہ کرلیا اور پھر اپنے حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے حقوق حاصل نہ کر پائیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہے اور اس مسئلے کے حل میں جتنی تاخیر ہوگی وہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوگی۔ اگر بھارت خطہ کشمیر میں اپنے ناجائز و غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے اور دوام بخشنے کیلئے طاقت کا استعمال کرنا کوئی جرم نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس معاملے میں وہ عالمی برادری کے آگے سر جھکاتا ہے تو پاکستان کا اس کے مقابلے میں طاقت استعمال کرنا کیوں جرم ٹھہرے گا اور کیوں عالمی برادری یہ حق اس کو نہیں دے گی اور اگر نہیں دے گی تو یہ اس کی ناانصافی ہوگی جس سے اختلاف کرنا پاکستان کا بنیادی حق ہے اور ہمیں اپنا یہ حق برقرار رکھنا ہوگا۔ اس طرح پانی کا مسئلہ ہے بھارت ڈیم پر ڈیم بنا رہا ہے اور ہمارے اصحاب اقتدار کو اپنی کرسی کے علاوہ کچھ مطلوب نہیں۔ اگر دیگر حلقوں کی جانب سے ان مسائل کیلئے زور دیا جائے تو مذاکرات کا ڈھیلا ڈھالا ڈھونگ رچانے کو مسئلہ کا حل تصور کر لیا جاتا ہے ہمارے وزراء خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور قوم کے سامنے ایسی مسکراہٹ بکھیرتے ہیں جیسے کوئی فاتح جرنیل اپنی فتح کی خبر دے رہا ہو یہ سب کچھ ہمارے اصحاب اقتدار کی اس نفسیاتی کیفیت کا پتا دیتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمت وعزم سے عاری ہیں۔ حقوق کی بات کرتے وقت اپنے ذاتی حقوق کو مقدم رکھتے ہیں ان کے ہاں قومی و ملکی حقوق انتہائی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان معاملات میں بزدلی پسپائی اور شکست خوردگی کو رواداری، صبر و تحمل اور مصلحت کی چادر اوڑھا کر خود سے الزام کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ ان کی توقعات کے عین مطابق آتا ہے قومی و ملکی مسائل ان دبیز تہوں کے نیچے دب جاتے ہیں اور ہر وزیر و حکمران اپنے مفادات پورے کرتا چل بنتا ہے۔ ایسے میں پاکستانی قوم کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ پاک بھارت مذاکرات مسئلہ کشمیر اور دیگر بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر کبھی کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان مسائل سے آنکھیں چرا کر ہم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر مذاکرات گزشتہ ادوار کی طرح چلتے رہے تو پھر 130 کیا اس سے دس گنا زیادہ ادوار بھی گزر جائیں معاملات جوں کے توں رہیں گے۔ ہاں اگر ہم اپنے حقوق کے حصول و تحفظ کیلئے اس طرح کمربستہ ہو جائیں کہ جو زبان کی بات نہ سمجھتا ہو اس سے ہاتھ کی زبان میں بات کی جائے تو دیکھئے گا کامیابی پہلے ہی مرحلے میں قدموں سے آلگے گی بس ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ مذاکرات کہاں مفید ہوتے ہیں اور کہاں نہیں؟ تاکہ ہر حق کو اس کے طریقہ کے مطابق حاصل کیا جائے۔ یہی فطرت کا اصول ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344407 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.