افغانستان کے صوبہ ہلمند میں
امریکی، اتحادی اور افغان فوجیوں کا مشترکہ حالیہ آپریشن اس وقت تمام عالمی
قوتوں کی نظروں کا محور بنا ہوا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال اسی صوبہ میں
امریکی و نیٹو افواج نے”آپریشن خنجر“ کے نام سے بزعم خویش بھرپور آپریشن
شروع کیا تھا جس کے جواب میں افغان طالبان نے فولادی جال کے نام سے جوابی
کاروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس آپریشن میں امریکہ و نیٹو افواج نے اپنی مقدور
بھر جمع پونجی جھونک کر فتح حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر طالبان کی طرف سے
بچھایا جانے والے جال اس نوعیت کا تھا کہ دو مہینوں ہی کی مختصر مدت میں ان
جارح افواج کے حوصلے پست ہو گئے، ہمتیں جواب دے گئیں اور تمام تر جدید
ٹیکنالوجی کے حامل وسائل کی دستیابی و استعمال میں ناکامی پر شکست تسلیم کر
کے آپریشن بند کئے بغیر کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ بڑے اللے تللے سے شروع کیے
گئے آپریشن خنجر کی ناکامی کے بعد دشمن نے نئی چال چلی اور امریکہ و نیٹو
کے اعلی ذمہ دارانہ حلقوں کی جانب سے افغانستان سے انخلاء کا نہ صرف عندیہ
دیا گیا بلکہ مستقبل کا ممکنہ مجوزہ منصوبہ بھی پیش کر دیا گیا۔ مجوزہ
منصوبہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ 30ہزار امریکی فوجیوں کی نئی کھپت کو
افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا، اور یہ تاثر دیا گیا کہ یہ نئے فوجی
ممکنہ انخلاء کے اقدامات میں پہلے سے موجود فوجیوں کی معاونت وغیرہ کیلئے
افغانستان بھیجے جار ہے ہیں۔ اسی طرح انخلاء کے ممکنہ منصوبے کو مزید پختہ
کرنے کیلئے بعض علاقوں میں افغان طالبان کی عملداری کو تسلیم کئے جانے کی
پیشکش کی گئی۔ اس ساری کاروائی کا مقصد افغان طالبان کے ذہنوں میں یہ تصور
ڈالنا تھا کہ اب یہ جارح افواج بس جایا ہی چاہتی ہیں تاکہ افغان طالبان کے
ذہنوں میں موجود مزاحمتی و اقدامی تصورات و منصوبہ جات کو دوسرا رخ دیا
جائے اور ان کی تحریک جہاد سے وابستہ پہلی سی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں پھر
اس غفلت کا فائدہ اٹھا کر نئی آنیوالی امریکی افواج اور پہلے سے موجود
امریکی ونیٹو فوجی ایک منظم و مضبوط عسکری حکمت عملی ترتیب دیکر بغیر اعلان
و اظہار کے یکدم افغان طالبان پر حملہ آور ہوں تاکہ شاید اس صورت میں آٹھ
سالہ طویل جنگ میں فتح کا کوئی ایک نام ہی حصے میں آجائے۔ اور حالیہ شروع
ہونے والے آپریشن نے اس پہلو کو بالکل نمایاں کر دیا ہے۔ یہ آپریشن بغیر
کسی پیشگی اعلان واطلاع کے شروع کیا گیا ہے اور گزشتہ آپریشن میں پائی جانے
والی عملی کمزوریوں کے خلاء کو ممکنہ حد تک پورا کر کے تازہ دم افواج کو
فرنٹ لائن میں رکھ کر افغان جنگ کا تاریخی و سیع زمینی آپریشن شروع کیا گیا
ہے۔ آپریشن میں شریک امریکی و نیٹو اور افغان فوجیوں کی جو تعداد میڈیا کے
ذریعے منظر عام پر آرہی ہے حالات و واقعات کے قرائن میں بہت کم معلوم ہوتی
ہے اور جنگی ماہرین و تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ درحقیقت یہ تعداد، اصل
تعداد سے کہیں کم بتلائی جارہی ہے جس میں بظاہر یہ احتیاطی پہلو سامنے رکھا
گیا ہے کہ اگر اس بار بھی شکست ہو تو زیادہ تعداد کے باوجود شکست کا طعنہ
نہ مل سکے۔
اس آپریشن میں فی الحال کس فریق کا پلہ بھاری ہے اور آئندہ نتائج کیا ہوں
گے، ماضی پر نظر رکھتے ہوئے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے البتہ
ابھی تک میڈیا اس جنگ کا جو نقشہ دکھا رہا ہے وہ تو امریکی خواہش ہی کا
آئینہ دار ہے۔ البتہ بعض چھوٹی چھوٹی خبریں کچھ اور اشارے بھی دے جاتی ہیں۔
ابھی ایک خبر یہ سامنے آئی کہ افغان طالبان نے” عمر“ نام سے ایک بم تیار
کیا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ بم وغیرہ کی پیشگی اطلاع دینے والے آلات بھی
اس کا پتا لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس آپریشن
میں امریکی نقصان کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ بلکہ صاف محسوس
ہوتا ہے کہ اس آپریشن میں بھی گزشتہ آپریشن کی طرح واضح شکست کا سامنا کرنے
پڑے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکہ نے اس آپریشن کی تیاری میں جو دو چیزیں
سامنے رکھی تھیں وہ کسی صورت فتح نہیں دلا سکتیں۔ جہاں تک بات ہے تازہ دم
امریکی و دیگر نیٹو ممالک کے فوجیوں کی ان کی یہ حالت تو بہتر ہے کہ وہ
تازہ دم ہیں مگر افغان جنگ کے نشیب و فراز اور افغاں سرزمین کیلئے کارگر
جنگی تکنیک کی مہارت میں سے بمقابلہ افغان طالبان قطعاً ناکام ہیں۔ کہاں یہ
نووارد امریکی چوزے اور کہاں مردانِ کہستانی!
امریکہ نے دوسری تکنیک یہ استعمال کی کہ کسی طرح طالبان کے ذہنوں سے
مزاحمتی نقشے کا تصور کم کر دیا جائے حالانکہ امریکہ نے اس خام خیالی میں
ایک زبردست زمینی حقیقت پر ذرا برابر غور نہیں کیا۔ ورنہ وہ کبھی اس خام
خیالی میں مبتلا نہ ہوتا۔ امریکہ ابھی تک یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ طالبان کو
بھی کسی ایسے پیکج پر راضی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ افغانی و عراقی کٹھ
پتلیوں کا معاملہ ہے۔ جبکہ یہ بات طالبان کے حق میں سراسر غلط اندازہ ہے۔
طالبان روز اول سے یہ مطالبہ رکھتے چلے آئے ہیں اور اب تک وہ اسی پر قائم
ہیں کہ غیر ملکی افواج سے انخلاء سے کم کسی صورت پر اتفاق ممکن نہیں۔ گویا
بات صرف ہلمند، نورستان، پکتیکا وغیرہ تک محدود نہیں جب تک افغانستان کے
کسی بھی چپے پر غیر ملکی جارح فوجی موجود ہوگا اس کے خلاف بھی طالبان کی
مزاحمت جاری رہے گی جب تک کہ وہ بھی افغانستان سے نکل نہ جائے۔
اب خود ہی تصورکیا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں محض انخلاء کا ممکنہ مبہم
مجوزہ منصوبہ پیش کرنے سے طالبان کو اپنے مقصد سے کیسے دور کیا جا سکتا ہے
یا غافل کرنا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے اگرچہ غیر اعلانیہ طور پر یہ آپریشن شروع
کیا گیا مگر طالبان کو پہلے سے ہی خبر مل چکی تھی۔ شہری آبادی کو پہلے سے
ہی انہوں نے محفوظ مقامات کی طرف منتقل کردیا تھا اور آپریشن کا جوابی ہوم
ورک بڑی جامع حکمت عملی سے مرتب کر لیا گیا تھا۔ اس کا اندازہ لگانا اس طرح
بھی مشکل نہیں کہ آپریشن شروع ہوتے ہی طالبان کے فدائی حملوں میں نئی تکنیک
سامنے آئی ہے۔ جس طرح ایک فدائی حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس ہو کر
امریکی گاڑی میں جا گھسا اور اپنے جسم کے ٹکڑے بکھیرتے ہوا بھری بس کے
امریکیوں کو خون میں لت پت کر گیا۔ اسی طرح برطانیہ نے بھی آپریشن کے آغاز
کے ساتھ ہی اپنی قوم کو جھوٹی تسلی دی ہے اور کہا ہے کہ اس آپریشن میں
ہمارا بھاری نقصان ہو سکتا ہے جسے برداشت کرنے کیلئے پوری قوم کو تیار رہنا
ہوگا۔ اس مرتبہ یہ بات بھی قابل غورہے کہ افغان طالبان نے زیادہ سے زیادہ
شہری علاقوں کو میدان جنگ کیلئے منتخب کیا ہے کیونکہ غیر ملکی افواج کیلئے
افغان شہروں میں لڑائی کرنا کسی صورت آسان نہیں۔ اور اس طرح طالبان کیلئے
غیر ملکی فوجیوں کو شکار کرنا بہت آسان ہوتا ہے جیسا کہ تازہ اطلاعات کے
مطابق طالبان نے چھ6 کینیڈین فوجیوں کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے حتیٰ کہ
الجزیرہ ٹی وی پر بھی انہیں پیش کیا ہے اس سے ہلمند آپریشن میں طالبان کی
پوزیشن کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مسلمانانِ ہلمند کیلئے یہ آپریشن ایک سخت آزمائش ہے۔ امریکہ کا مجوزہ
انخلاء کا منصوبہ کسی وقت بھی عملی جامہ پہن سکتا ہے البتہ انخلاء سے قبل
وہ اس بات کیلئے بھرپور کوشاں ہے کہ مجاہدین و طالبان کو جتنا ممکن ہو
کمزور سے کمزور کر دیا جائے اگرچہ اپنا عسکری نقصان بھی بے پناہ چاٹ رہا
ہے۔ جسے چھپا کر اس بات میں کوشاں ہے کہ کوئی قابل فخر کالک بھی چہرے کی
زینت بنانی چاہئے۔ اہل ایمان کو کامل بھروسہ ہے کہ فتح اسلام و اہل اسلام
ہی کی ہوگی اور دشمن خاک چاٹنے پر مجبور ہوگا۔ ہاں یہ ہوگا کہ کچھ مزید
شہادتیں ہوں گی۔ بہت سے خوش نصیبوں کو جہاد کے خوشبودار و نورانی زخم میسر
آئیں گے۔ کتنوں کو” فاضربوا فوق الاعناق“ کے قرآنی حکم پر عمل کا موقع ملے
گا اور بہت سے زخمی دلوں کو سامان شفاء دستیاب ہوگا۔ اور جن بدنصیبوں کی
قسمت میں جہنم کے طوق لکھے ہیں وہ اپنے مقام پر جا پہنچیں گے۔
فتح و شکست کا ڈول تو اوپر نیچے ہوتا ہی رہتا ہے مگر ایک بات اٹل حقیقت ہے:
ان کنتم تالمون فانہم یالمون کما تالمون و ترجون من اﷲ مالا یرجون
ترجمہ: اگر تم تکلیف پاتے ہو تو وہ(کافر) بھی تکلیف پاتے ہیںجیسا کہ تم
پاتے ہو اور تم اﷲ سے امید رکھتے ہوجو وہ نہیں رکھتے۔
لڑائی کے زخم مشترک، خون بہنا، اعضا کا کٹنا، درد کی ٹیسیسں اٹھنا، ہاتھ
پاؤں سے معذور ہونا، گھر سے بے گھر ہونا، ماں باپ اولاد بیوی دوست اقارب
اور وطن سے دور ہونا مشترک، سر تن سے جدا ہونا مشترک مگر انجام کار کتنا
فرق! مجاہدین کے زخم سعادت، قیامت میں معطر و منور، شہداء کی موت، موت نہیں
ابدی حیات، زندہ لوٹ آئیں تب بھی اجر عظیم اور رب کی رضا، رب کو پیارے ہو
جائیں تب بھی انعامات کی بارش۔ جبکہ کافروں کیلئے دنیا میں بھی ذلت اور
آخرت میں بھی دہکتی جہنم بھڑکتی آگ اوردرد ناک عذاب۔
اول الذکر گروہ کے ساتھ میدان میں نہیں اتر سکتے ہو تو کیا بوقت سحر دعاؤں
کی سوغات بھیجنے سے
بھی قاصر ہو؟ اے مدعیان صلاح و تقویٰ! |