ناتھورام گوڈسےپڑھا لکھا تھا، وہ ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا
مگرمسلمانوں کا بدترین مخالف تھا۔ 30 جنوری 1948ء کو ہندوستانیوں کے باپو
موہن داس گاندھی کو ناتھورام گوڈسے نے گولیاں چلاکر ہلاک کردیا ۔ گوڈسے
مہاراشٹر کا براہمن تھا جو آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا رکن
تھا۔ گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر ہندوستانی حکومت نے پابندی عائد
کر دی تھی اور تنظیم کو چلانے والے مادھو سداشو گووالکر سمیت آر ایس ایس کے
تمام رہنماؤں کو جیل میں بند کر دیا تھا مگربعد ازاں آر ایس ایس پر سے
پابندی ہٹا لی گئی تھی۔ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی حقیقت یہ
ہے کہ یہ تنظیم روزِاوّل سے ہی پورے طور پر فاشسٹ سیاسی نظریات سے متاثر
ہندو آمریت کی حامی رہی ہے اور مضبوط تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس کے
رہنماؤں نے ہٹلر اورمسولینی کے قومی و سیاسی نظریات سے براہِ راست استفادہ
کیاہے اور اُن سے بے حد متاثر ہیں۔ اس کے بڑے بڑے لیڈروں نے اٹلی و جرمنی
جاکر فاشزم کی تعلیم و تربیت حاصل کی ہے،چنا چہ ہندوسماج کو فوجی تربیت
دینے کی ضرورت و اہمیت کو اُنھوں نے اٹلی و جرمنی کے ماڈلوں کو دیکھنے کے
بعد ہی محسوس کیا اور ہندوفاشزم کے زہریلے جراثیم پھیلائے ۔ بھارت کے
موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کا اصل تعلق اسی فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس سے
ہے۔
کل کی جن سنگھ اور آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی دراصل آر ایس ایس ہی کا
ایک سیاسی حصہ ہے۔ آر ایس ایس چونکہ ایک بدنام زمانہ تنظیم ہے لہذا بھارتیہ
جنتا پارٹی بنائی گی تاکہ ہندوستان کی باگ ڈور کسی انتہا پسند ہندو
ڈکٹیٹرکے ہاتھوں میں ہو۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری
واجپائی کے دور حکومت میں فروری 2002ء میں جب بھارت کا موجودہ وزیر اعظم
اور سنگھ پریوارکا رہنما نریندر مودی گجرات کا وزیر اعلی تھا تب گجرات میں
بدترین مسلم کش فسادات ہوئے جس میں دوہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام
ہوا تھا۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے اُسی سال اقوام متحدہ میں ان
مسلم کش فسادات کے خلاف آواز اٹھائی اور نریندر مودی کو اس کا ذمہ دار
قرار دیا جس کے جواب میں نریندر مودی نے بڑی بے شرمی سے ایک جلسہ عام میں
پرویز مشرف کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اب اُسکا نام اقوام متحدہ میں
بھی لیا جارہا ہے۔ دنیا بھر کی عالمی تنظیموں نے گجرات کے فسادات کی براہ
راست ذمہ داری نریندرمودی پرعائد کی تھی جب کہ امریکا نے تو مودی کو ان
فسادات کا براہ راست ذمہ دارٹھہراتے ہوئے اس کا اپنے ملک میں داخلہ ہی بند
کردیا تھا۔ لیکن مئی 2014ء کو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سفارتی
آداب کے تحت امریکی صدر براک اوباما نے اُسے فون کر کے واشنگٹن آنے کی
دعوت دی، جس کے بعد نریندر مودی پر سے امریکہ میں داخلے کی پاپندی ختم
ہوگئی۔
بمبئی (حالیہ ممبی) کا رہنے والا ایک کارٹونسٹ بال ٹھاکرے 1966ء میں تنخواہ
پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے اُس نے نوکری چھوڑ دی اور لسانی اور مذہبی
بنیادوں پر ایک تنظیم شیو سینا کے نام سے قائم کی اور بمبئی سے غیر مراٹھی
لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے ایک تحریک شروع کی۔ بال ٹھاکرے کھلم کھلا ہٹلر
کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کیا، اس کا کہنا تھا کہ جرمنی کے فسطائی رہنما
کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔
بال ٹھاکرے کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی رہی اور اپنے مسلمان
مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتا رہا۔ 1992ء میں جب بابری مسجد
مسمار کی گئی تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ یہ ’عظیم‘ کام شو سینکوں نے انجام
دیا تھا جس پر مجھے فخر ہے۔ شیو سینا کو آپ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک
سنگھ) کی کاپی بھی کہہ سکتے ہیں،بس فرق اتنا تھا کہ بال ٹھاکرے مسلمانوں کا
دشمن تو تھا ہی اسکے ساتھ ساتھ غیر مراٹھیوں کا بھی دشمن تھا۔ اپنی پاکستان
دشمنی کا برملہ اظہارکرتا تھا۔ سال 2002ء میں بال ٹھاکرے نے ہندوئوں کے
خودکش اسکواڈ کا اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگا۔ شیوسینا
نے چالیس لاکھ مسلمانوں کو مہاراشٹر سے نکلنے پر مجبور کیا اور یہ نعرہ
بلند کیا کہ یہاں سب سے پہلے ہندو مذہب ہے، اس کے بعد دوسرے مذاہب کے بارے
میں سوچا جائے گا۔ شیوسینا کا رہنما بال ٹھاکرے سیاسی لیڈر کم دہشت گرد
زیادہ تھا۔
سابق کانگریسی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ایک محفل میں ہندو انتہاءپسندی
پھیلنے کی بات کی اس محفل میں اسوقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور حکمران
جماعت کانگرس کے رہنما راہول گاندھی بھی موجود تھے۔ سابق وزیر داخلہ سشیل
کمار شندے نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے ہندو انتہا پسندوں کو
دہشت گردی کی تربیت دینے کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت میں
دہشت گردی کے تربیتی کیمپ موجود ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے کیمپوں
میں دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ
مسجد بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکوں میں ہندو انتہا پسند ملوث تھے۔ سشیل
کمار شندے کے مطابق دہشت گرد کارروائیوں کے ذمہ دار شیوسینا اور بی جے پی
ہیں لیکن ان کارروائیوں کا الزام بعد میں مسلمانوں اور پاکستان پر لگا دیا
جاتا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس انتہا پسند عناصر کی ٹریننگ کر
رہی ہیں، یہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں لوگوں کو بھرتی کرتی ہیں اور ملک میں
ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلارہی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ درحقیقت تو یہ الزام
اپنی اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی پر لگا رہےتھے لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی
کررہے تھے کہ بھارت میں دہشت گردوں کے کیمپس موجود ہیں، جو ہندو انتہا
پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔
گذشتہ دس سال سے پاکستان مستقل دہشت گردی کا شکار ہے ہمارے ساٹھ ہزار کے
قریب لوگ شہید ہوئے ہیں، جن میں ہمارے عام لوگ بشمول عورتوں اور بچوں کے
ساتھ ساتھ ہمارے فوجی ، رینجرز اور پولیس کے جوان بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی
کی وجہ سے ابتک پاکستانی معیشت کو 103 ارب ڈالر سے زیادہ کا زخم لگ چکا ہے۔
30 ستمبر 2015ء کو جب پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے بھارت کو چارنکاتی
امن ایجنڈاپیش کرتے ہوئے کہاکہ سیاچن سے غیرمشروط فوجی انخلاء
کیاجائے،کشمیرکو غیرفوجی زون بنایاجائے، دونوں ملک کنٹرول لائن
پرسیزفائرمعاہدے کی پابندی کریں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کودھمکیاں دینے
اور طاقت کے استعمال سے گریزکریں۔ اگلے دن جواب میں بھارت کی وزیرخارجہ
سُشماسوراج نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا نام لیکر اُن کے چار نکاتی
امن منصوبے کو مستردکردیا۔ سُشماسوراج کا کہنا تھا کہ کسی چارنکات کی ضرورت
نہیں، نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان دہشت گردی ختم کرئے تو بات چیت شروع
ہوسکتی ہے۔ پاکستان سے مذاکرات صرف بھارت کی شرائط اورایجنڈے کے مطابق ہوں
گے۔ بھارت کی وزیرخارجہ سُشماسوراج کا تعلق بھی فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس سے
ہے۔
بھارتی رہنماوں نے کبھی بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی انتہا
پسندوں اوردہشت گردمودی سرکار کا اصل چہرہ بیان کرنے کے بعدیہ واضع ہوجاتا
ہے گذشتہ دس سالوں سے دہشت گردی بھارت کی جانب سے ہورہی ہے اور آج بھی
بھارت کی جانب سے دہشت گردی اور شرپسندی جاری ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ
پورئے پاکستان اورخاصکر کراچی اور بلوچستان ہونے والی ہر دہشت گردی کی پشت
پناہی بھارت کررہا ہوتا ہے۔بھارتی فوج آئے دن بغیر کسی وجہ کے کنٹرول لاین
پر فائرنگ کرکے بے گناہ پاکستانیوں کو مار دیتے ہیں، حال ہی بغیر کسی وجہ
کے سمجھوتہ ایکسپریس منسوخ کردی۔ شیوسینا کا رہنما بال ٹھاکرے عرصہ ہوا
مرچکا ہے لیکن شیوسینا کی غنڈا گردی جاری ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم جائے،
ہاکی ٹیم جائے یا کوئی اداکار شیوسینا کا دخل سب میں ہوتا ہے، چند روز پہلے
ہی کی بات ہے انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا کی مخالفت کی وجہ سے ممبئی میں
پاکستانی غزل گلوکار غلام علی کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا، اسکے
بعدشیوسینا نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشیدمحمود قصوری کی کتاب کی
ممبئی میں تقریبِ رونمائی کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شیوسینا کا ایک
احمقانا مطالبہ یہ تھا کہ اگر خورشید محمود قصوری پاکستان کی جانب سے جنگ
میں مارے گئے بھارتی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں تو انھیں پروگرام
کرنے دینے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
شیوسینا کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود
قصوری کی کتاب کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی لیکن اُس سے پہلے شیوسینا کے
کارکنوں نے کتاب کی رونمائی کا اہتمام کرنے والے ادارے کے سربراہ سدھیندر
کلکرنی کو اُن کی کار سے اتار کر اُن کے چہرے پر سیاہ رنگ مل دیا۔ اس واقعہ
کے بعد سندھیندر کلکرنی نے خورشید محمود قصوری کے ساتھ ممبئی میں ایک
مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ "یہ بھارتی ثقافت، جمہوریت اور آئین کی
مخالفت ہے"۔ افسوس سندھیندر کلکرنی کو شاید یہ نہیں معلوم کہ آر ایس ایس
(راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی حکومت میں بھارتی ثقافت دہشت گردی کو کہا جاتا
ہے باقی سارئے الفاظ بے معنی ہیں۔ سندھیندر کلکرنی نے تو ابتک اپنے چہرے کی
سیاہی صاف کرلی ہوگی لیکن شیوسینا کی اس حرکت سے بھارت اور بھارتی سرکار کا
سیاہ ہونے والا چہرہ مشکل سے ہی صاف ہوگا، کم از کم جبتک تو نہیں جبتک دہشت
گرد مودی کی سرکار موجود ہے کیونکہ یہ ہی بھارت کی مودی سرکار کا اصل چہرہ
ہے۔ |